نئی کشمیر کہانی! علم و عرفاں کی تپش 0

نئی کشمیر کہانی! علم و عرفاں کی تپش

ش م احمد سری نگر
7006883587

کیا ہےپرانی کشمیر کہانی ؟ اَن کہے صدموں کی ایک ضخیم کلیات ۔۔۔ ستم رسیدہ لوگوں کا طویل نوحہ‘ دُکھوں کا مرثیہ‘ افسردگیوں کی مثنوی‘ تکالیف کی آزاد نظم ‘ شر و فتن کا قصیدہ ‘ اشک اشک رُباعی‘ محرومیوں کی قوالی ‘ رقص ِنیم بسمل کی غزل ِ مسلسل وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یعنی ایک داد طلب مجموعۂ کلام جوز خموں سے شروع ہوتا‘ درد پر ختم ہوتا مگر نئی کشمیر کہانی اس رُودادِ غم سے منفرد و جدا ہے اور امن کی آشا کی شمعیں جلاتی ہے اور آشتی کا اُجلا پھیلاتی ہے۔
دل تھام کرسنئے کشمیر کی پرانی کہانی کی ابتدا نوے کی جس تیرہ و تارفضا میں ہوئی‘ اُس نے اہل ِ کشمیر کے تشخص پر انتہا پسندی اورشدت پسندی کی ناپسندیدہ اورنازیبا تعارفی ٹھپہ لگایا ۔ا س ٹھپے نے کشمیرکی اصلیت کو اتنا مسخ کرکے رکھ دیا کہ ہم سے ہمارا ماضی بچھڑ گیا ‘ حال پراگندہ ہوا‘ مستقبل شکوک وشبہات اور بے اصل افسانوں کے شکنجے میں کس گیا۔ کیا یہ اجنبی شناخت ہمارےا پنے ہاتھوں کی کمائی ہے؟ کیا یہ ہماری اپنی لایعنی سوچ کا کڑواثمرہ ہے؟ کیا یہ ہمارے اپنے آوارہ گردانہ خیالات کا منطقی نتیجہ ہے؟ کیا یہ ہمارے سر پہ اپنے پاپوں اور کرم کنڈلی کی پوٹلی ہے ؟ ا س سوال کا فیصلہ وقت کے مورخ سے زیادہ ہم کائنات کے راز و اسرار کے اصل علیم وخبیرپر چھوڑتےہیں۔ البتہ ہمیں مان کر چلنا ہوگا کہ اپنی ا س زحمت و نحوست بھری پرانی کہانی کا سارادوش کسی اور کے سر مڑناقرین ِ انصاف نہیں ۔اس کہانی کو قلم بندکر نے میں کسی نہ کسی عنوان سے کشمیری بھی من حیث القوم جزوی طور ذمہ دار قرار پاتی ہے۔ بنابریں اگر ہم ا س پرانی کہانی کےلئے اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے سارا قصور اوروں کے سر ڈال دیں تو وہ سراسر ناانصافی ہوگی‘خود فریبی ہوگی‘ بتان ِوہم و گمان کی پوجا ہوگی۔ ایسا خود پسندانہ خیال ہمیں اپنی نئی قومی واجتماعی کہانی کاقبلہ دُرست کر نے کے ضمن میں سجدۂ سہو کرنے‘ مراقبہ میں جانے اور محاسبہ سے گزرنے کے زریں موقع سے محروم کرے گا ؎
خود فریبی کے خوابوں میں ہم رہے ورنہ
اپنی اوقات میں رہتے تو قلندر ہوتے
موجِ کوثر کی قسم ہم تھے محبت کے ولی
خاک کے در پہ نہ جھکتے تو سمندر ہوتے
سوال یہ ہے کہ مابعد ۹۰ کشمیرکہانی اصلاً کن عوامل اور کن کرداروں کی تخلیق تھی ؟ میری نگاہ میںاس کے پیچھے لاتعداد عوامل اور تین کلیدی کردار کارفرمار تھے : اول یہ کہانی کشمیر کے سادہ لوح لوگوں کی رہین ِمنت تھی جنہیں جھوٹے خوابوں کی حشیش بہت لذیذ لگی ‘ جنہیں افسانوی نعروں کی گونج مرغوب ِ خاطر دِ کھی ‘ جن کے سر جذباتیت کا نشہ چڑھ کربولا تو نتائج وعواقب کی کوئی پرواہ نہ رہی‘ انہیںکوئی بھی حد پھلانگنے ‘ خود فریبی کے طلسم میں بہک جانے‘ انسانی قدروں سے رُوگردانی تک سے بھی تامل نہ رہا۔ ایسے جذباتی قسم کے لوگ ہرترقی یافتہ اور پسماندہ قوم اور سماج میں پائے ہمیشہ جاتے ہیں۔
دوم کشمیر کہانی کے کردار وہ سیاسی شاطر اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے قائدین تھے جنہیں اپنے خانہ ساز سیاسی نیلام گھروںمیں وطن کے گہرے زخموں سے رِ ستے خون ‘ گالوں پر لرزتے آنسوؤں ‘ کراہتی نالہ زنیوں اور درد بھرے فریادوں کی تجارت سے مال ِ دنیا بٹورنے اورسیاسی مفاد وصولنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ ان چار ہ گران ِ قوم کی نوازشوں اور کرم فرمائیوں سے اہل ِ کشمیرکے ہاتھ کیا آیا : فقط جذباتیت کی افیون جسے کھاکھا کرسب لوگ اتنے مست و مدہوش ہوگئے کہ خود اپنے گھاٹے ٹوٹے اور خسرانوں کی کنجیاں لئے ناعاقبت اندیشی کے ہر بند دروازے کا تالا کھولنے میں لگ گئے‘ حتی ٰ کہ مدہوشی کے عالم میں نقلی انقلاب کے سیل رواں میں ڈوبتے ہوئے اپنے عقل وفہم کی لگام اتنی ڈھیلی چھوڑگئے کہ کسی کو ایک بار بھی یہ سوچنے کی توفیق نہ ملی کہ آخر ہم کیوں اپنے مستقبل کو غیر یقینیت کی گہری کھائی میں اوندھے منہ گرا نے کےمجرم بن رہے ہیں ‘ ہم اپنی سوچ کے دروازے اُن اہم سیاسی ہستیوں کے لئے کس کے کہے پر سختی سےبند کر رہے ہیں جن کو کشمیر کہانی کی المناکیوں نے ان کی چوکھٹ پر لاکھڑا کیا تھا تاکہ افہام وتفہیم کی کوئی راہ نکالی جا سکے ۔ہم اپنی چرب دستی اور تر دماغی کی موروثی صلاحیتوں سے منہ پھیرکر کس وجہ سےخاک کا ڈھیر ہونے پر آمادہ اوررضامند ہیں۔ یہ کتنی ستم ظریفا نہ بات ہے کہ اُس اندھ کارمیں آج اپنی انمول انفرادیت کا ایک ایک قیمتی گہنہ گنوا کر ہمیں اپنے کل کی سیاسی کامیابی نظر آتی رہی۔ ہم لوگ اگر وقت رہتے جاگ جاتے تو نہ ہمارا اجتماعی ضمیر آج ہمیں اپنی غلط بینی پر کوستا اور نہ سیاسی اُلٹ پھیرمیں ہمارے سیاسی وجود کی کنگالی کا نوحہ سناتا ۔ آج ہماری ریاست اپنی سیاسی وآئینی انفرادیت وشناخت کے زیورات سے تہی دامن ہوکر سیاست کے بہتے دھارے میںمحض بے وزن سیلابی جھاگ کی طرح نہ تین میں ہے نہ تیراں میں ۔ کیا ہم وقت کے کسی فیصلہ ساز ایوان میں اپنے لیڈروں کی غلط قیادت کے سبب اپنی ناآسودگیوں کا زندہ اشتہار بن جانے کا گلہ کرپائیں گے؟ کیا کسی ایوان سے ہماری سنوائی کا حق ادا ہوسکےگا؟ کیاہم کسی سے پوچھ پائیں گےکہ ہمیںکس جرم کی پاداش میں ذرۂ بے نشاں بنا یا گیا ؎
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی ٔ فرشتہ ہماری جناب میں
اصولی طور ہماری یہ دُرگت یک لخت اور الل ٹپ ممکن نہ ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ہماری اپنی غلط کرتوتوں کا ایک طویل سلسلہ دخیل ہے۔
سوم ہماری کم نصیب کشمیر کہانی کے کہانی کاروں میں ہمارے وہ کرم فرما اول تاآخر شامل ہیں جو
فطرتاً مکار و عیار ہیں اور یہ ہمارے دوست نما دشمن
ہونے کے باوجود برسوں تک ہمیں اس جھوٹے
بھرم میں رکھنے میں کامیاب رہے کہ ہم آپ کے محسن ہیں ۔ انہوں نے جی بھر کے ہمارے ہرے زخموں‘ ہماری دبی کچلی آرزؤں اور ہماری سردآہوں کے سیلز مین بن کر عرب وعجم میں اپنے مفادات کی چمکتی دوکانیں کھولیں۔ یہ چالو تاجر اور چالاک سیاسی سوداگر قبل از وقت جانتے تھے کہ اگر تاریخ کا کوئی اُلٹ پھیر ہمیں خواب ِ گراں سے بیدار کرنے کا معجزہ کر دکھائے کہ ہم مذہب وسیاست کے لبادے میں لپٹی ان کی مکروہ چال بازیوں اور زہرناک دھوکہ دہی کا کچا چٹھا سمجھ جائیں اور وہ جو ہمیں مدتوںبے قوف بنا کر ہمارے خون سے اپنا اُلو سیدھا کرنے کے عادی مجرم بنے رہے ، کہیں کسی دن اُن کی اصلیت جان کر ہم ان کی مکاریوں کے خلاف محاذِ جنگ نہ کھول بیٹھیں‘ اس لئےیہ ستم گر ہمیں باربار نیند آور گولیاں کھلاتے رہے تاکہ ہم نیند کا ماتو بن کر جییں اور اُن کے استحصالی ہتھکنڈوں کا بھید ہم پر کبھی بھی نہ کھلے ۔ یہ لوگ ہمارے رُواں رُواں سے اُٹھنے والے ناقابلِ برداشت درد سے ہمیں غافل رکھنے کا زہر مذہب کے نام پر پلاتے رہے مگراب کشمیری قوم ان کی حقیقت وسیاسی مائیت سے واقف ہوچکی ہے۔ ان کو ا س بات کا مکمل ادراک حاصل ہے کہ کشمیر میں ان کی خودغرضیوں اور مفاداتی صنم خانے کی چمک دمک اسی دوائے غفلت کی مفت مارکیٹنگ سے قائم ر ہ سکتی ہے۔ اس لئے انہوں نے جانتے بوجھتے ہماری دل بہلائی کے لئے ہماری زبانوں پرکچھ آوارہ گردانہ نعرے اور ہماری بے نورآنکھوں میں جھوٹے خوابوں کی قیاسی جنتیںبسا نے کے نسخے کل پرسوں تک خوب آزمائے مگر اب جہلم سے کافی خون بہہ چکا ہے اور نئی کشمیر کا دور شدومد سے جاری ہے ۔
اگرچہ خود غرض’’ محسنوں کی مہربانیوں‘‘ سے سارا کشمیر مسائل ومصائب کے دلدل میں دھنستا چلاگیا مگر اُن کی بلا سے ‘ یہ کشمیر کشمیر چیخنے چلانے سے اپنے دنیوی مال ومتاع کے لات ومنات پوجا کئے جارہے ہیں کیونکہ ان کی نگاہ میں انسانیت یا حق وانصاف کی کوئی قدر وقیمت نہیں۔ یہ عمر عیار آفت کے پرکالے ہیں کہ اپنے سیاسی وسفارتی بیوپار منڈل میں کبھی اپنا کوئی اصل زَر نہ لگایا ‘ البتہ ہمارے لئے پلوامہ اور پہلگام جیسے دل دہلانے والے دہشت پسندانہ المیوں کی آگ سلگاکر ہمارے دُکھوں کی سیلزمین شپ اور ہماری تکلیفوں و شکستہ سامانیوں کی نیلامیاں کر کے اپنا سیاسی کاروبار چلا تےرہے ۔ کشمیر کہانی اب ان کے خونی پنجوں سے چھٹکارا پاگئی ہے کیونکہ ان سے ہمارے خون اور المیوںکی قیمت پر محض اپنا سُود دَر سُود سمیٹنے کے علاوہ بھلائی کا کوئی کام ہونا بعیداز امکان ہے ۔
نئی کشمیر کہانی کا ایک درخشندہ گوشہ یہ ہے جو دنیا کو بتلاتا ہے کہ اہل ِ کشمیر اپنے بقاودوام کی لڑائی خود لڑنے کابہترین ہنر جانتے ہیں۔ اگر آپ اس حوصلہ افزاگوشے کو بھولے ہوں تو میںیاد دلاتا ہوں کہ کشمیر کی دلدوز کہانی کے جو ہزاروں خونین اوراق تاریخ کے بے کفن سینے میں دفن ہیں ‘ ان میں یہاں صرف ایک خون آلودہ ورق کی سرگزشت پر اپنی توجہات مرکوز کیجئے تو نئی کشمیر کہانی پر آپ کو فخر محسوس ہوگا۔ یاد ہے نا کہ سنہ نوے کے گھٹاٹوپ اندھیاروں میں پہلی فرصت میں کشمیر میںتعلیم وتدریس کے نظام کو نذرِ آتش کر کے آدمیت کو شرم سار کرنے کی کون سے بھدی جہالت پسندانہ تاریخ رقم کی گئی؟ نامساعد حالات کی اندھی گرفت میں جب کشمیرکے ذرے ذرے کی تقدیر بندوق کی نوک پر یرغمال کی گئی تھی تو منہ زورحالات کے پرستاروں نے چن چن کر یہاںتعلیم وتعلم کے تاب ناک صفحات پر کالک پوتنی شروع کردی ۔ دفعتاً چشم ِ فلک نے بہ نگاہ ِ حسرت صدہا اسکول‘ درجنوںکالج ‘
اَ ن گنت دانش گاہیں‘ بےشمار کتب خانے دُھول مٹی ہو تے دیکھے‘ یک بہ یک نوخیز نسل کے ننھے ہاتھوں سےقلم کی اَمارت چھن گئی‘ کتابوں کی وراثت چشم زدن میں غائب ہوئی ‘ روشنی اور اُجالے پھیلانے والا ہماراخدادادتخلیقی سرمایہ لٹ گیا ‘ علم وفن کی قندیلیں بجھ گئیں ‘ مدرس نابود ہوئے ‘ متعلم عنقا ہوئے‘ محقق اور ماہرین زندہ درگور ہوئے‘ ناخواندگی اور جہالت کے شعلے بھڑکانے کی نیت سے علم ومعرفت کے خُم خانے آتش زدگیوں کی نذر کئےگئےتو نتیجہ کے طور کشمیر کو تاریخِ اقوام میں قلم وقرطاس کی معرفت سے جوغیر معمولی اہمیت ‘ وقاراور منفرد مقام حاصل تھا‘ وہ یکسر قصہ ٔ پارینہ ہوا۔ اس مقام ِعزت وآبرو کو وقت کے بوجہلوں کی بددماغی نے ایک ہی جست میں مٹا ڈالا کہ اس کا کہیںنام ونشاں بھی نہ رہامگر داددیجئے کشمیریوں کی ذہانت وفطانت کا کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پہلے پہل یہاں کے کھاتے پیتے گھرانوں ‘ سیاسی خانوادوں‘ ممتاز تاجرین اور بحالت ِ جبر وخوف نقلِ مکانی کر چکے پنڈتوں نے حوصلہ شکن حالات کے باوجود کشمیر کہانی کا یہ منفرد باب بہت جلد دوبارہ بیرون ِ کشمیر قلم اور کتاب کی مدد سے لکھنا شروع کیا اور یہ آج بھی علم ومعرفت کے زریں عنوان سے ہماری تاریخ کا طرہ ٔ امتیاز بناہوا ہے ۔ کشمیری سماج کے اس حساس طبقے نے اپنے بچوں اور بچیوں کو جدید دنیا میں جاہل و گنوار بننے کے برخلاف اُن کی تعلیمی پیاس بجھانے کے لئے بیرون ِ ریاست بلکہ بیرون ملک پڑھائی لکھائی کا سلسلہ مشکلات کے باوصف جوں توں جاری رکھا اور کچھ ہی برس میں یہ سلسلۂ حیات ایک عوامی ٹرینڈکا رُ خ اختیار کر گیا کہ آج کی تاریخ میں کشمیر ی طلبہ وطالبات کی ایک بھاری بھرکم کھیپ دنیا کے چپے چپے پر موجودہے اور مختلف تعلیمی وتربیتی اداروں میں اپنی خداداد صلاحیت کا لوہا منوارہی ہے ۔ یہ کشمیر کہانی کا وہ دلچسپ حصہ ہے جس کا مطالعہ کرکے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کشمیر کا نوجوان اپنے بقا اور اپنےدوام کی کہانی کو کتاب اور قلم کی وساطت سے لکھنا چاہتا ہے ‘ وہ اپنے علمی تفوق سے اپنا کھویا ہوا مقام و مرتبہ اور اپنا اصل تعارف بحال کرانا چاہتا ہے ‘وہ چاہتا ہے کہ اس کا وجود تاریخ کے حاشیئے پر گم صم نہ رہے بلکہ اس کی اعلیٰ وعمدہ صلاحیتوں کا گلوبل لیول پر کھلا اعتراف ہو ۔ یہ کشمیر کہانی کا قابل ِ صد تعریف جزو لاینفک ہے ۔ افسوس کہ اس اچھے اور شریفانہ کام میں بھی وقتاًفوقتاً اہلِ کشمیر کوزمانے کی بری نظر کی بھینٹ چڑھ کر بہت سارے جھٹکوں سے گزرنا پڑا ہے ۔ کووڈ ۔ ۱۹ کا عالمی بحران شروع ہو اتو کشمیری طلبہ وطالبات کے تعلیمی کئیر ئرکو اس کا بہت سارا خمیازہ اُٹھانا پڑا‘ تین سال قبل یوکرین ۔ روس جنگ چھڑ گئی تو وہاں زیرتربیت کشمیری میڈیکل طلبہ و طالبات کے لئے یہ منحوس گھڑی اب بھی اپنا سایہ دراز کئے ہوئی ہے‘ بنگلہ دیش میںحسینہ واجد کا تختہ پلٹ گیا تو کشمیری سٹوڈنٹ کمیونٹی کواس کا نزلہ تادیر برداشت کرنا پڑا‘انڈوپاک چار روزہ جنگ ہوئی تو پارکشمیری میڈیکل ایجوکیشن پانے والے سٹوڈنٹس کا جینا دوبھر ہوا۔ اب بارہ روزہ ایران ۔ اسرائیل جنگ سے ہزاروں کشمیری طلبہ وطالبات کو اسرائیلی کی مسلط شدہ جنگ کے بھاری بھرکم نقصانات برداشت کر نے پڑرہے ہیں ۔ ان مشکلات اور موانع کے علی الرغم کشمیر کہانی کا مستقبل کافی روشن ہونے کاا مکان ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہوتا چلاجا ئے گا بشرطیکہ ہمارے نوجوان جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی اونچی پرواز جاری رکھنے کے لئےمسلسل اپنی خداداد علمی و تخلیقی صلاحیتوں کے تفوق کا پھریرا محنت اور اُمید کا دامن پکڑ تے ہوئے لہراتے ر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں