سبزار احمد بٹ
اویل، نورآباد،کولگام
اس بات سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ وادی کشمیر بے حد حسین و جمیل ہے اور اسی حسن وجمال سے متاثر ہو کر حضرت امیر خسرو نے کہا تھا کہ
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
پوری وادی ایک صحت افزا مقام ہے لیکن وادی کے بہت سارے ایسے مقامات ہیں جو عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں جہاں دنیا بھر کے سیاح آکر سیر کرتے ہیں اور اپنے دکھ درد چند لمحوں کے لیے بھول جاتے ہیں ۔ ان سیاحوں کو لگتا ہے کہ جیسے وہ جنت میں پہنچ گئے ہوں ۔ان مقامات میں ،پہلگام گلمرگ، کشمیر کے مغل باغات، جھیل ڈل،دودھ پھتری،اہرہ بل کے علاوہ متعدد مقامات شامل ہیں ان مقامات سے دنیا واقف ہے اور یہ سارے صحت افزا مقامات ہماری وادی کی شان ہیں ۔ لیکن ہماری وادی میں درجنوں مقامات ایسے ہیں جن سے ابھی دنیا واقف نہیں ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ مقامات محکمہ سیاحت اور عام لوگوں کی نظروں سے ابھی اوجھل ہیں جبکہ یہ مقامات بے حد حسین و جمیل ہیں ان مقامات پر پہنچ کر انسان ان جگہوں کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے ان ہی مقامات میں چھرن بل بھی شام ہے چھرن بل ضلع کولگام سے پچیس کلومیٹر کی دوری پیر پنچال کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے. چھرنبل اہرہ بل سے تقریباً 15 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے جبکہ یہ جگہ سطح سمندر سے 3000 میٹر کی بلندی پر واقع ہے ضلع ہیڈکواٹر کولگام سے سیاحوں کو منزگام سے ہوتے ہوئے ہالن پہنچنا ہے جہاں سے چھرن بل کے لیے پیدل سفر شروع ہو جاتا ہے ایک گھنٹے کے پہاڑی اور دشوار گزار راستے سے ہوتے ہوئے انسان تھکا یارا جب چھرن بل پہنچ جاتا ہے تو اپنی ساری تھکن بھول جاتا ہے اور سیاحوں کو ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ اپنی ماں کے آغوش میں پہنچ گئے ہوں ۔ ہالن سے چھرنبل بل تک سازوسامان اٹھانے کے لیے مقامی لوگ گوڑے بھی فراہم کرتے ہیں جس سے ان لوگوں کے روزگار کا بھی بندوبست ہوجاتا ہے ۔ چھرن بل جانے کے کئی سارے راستے ہیں ۔ کچھ لوگ اہرہ بل سے بھی جاتے ہیں لیکن ہالن منزگام والا راستہ سب سے آسان اور محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔چھرن بل دو حصوں پر مشتمل ہے ہر چھرن بل ( upper charinbal) اور بون چھرن بل ( lower charinbal)…
چھرن بل کے سر سبز میدان بے حد خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔
چھرن بل چاروں طرف سے قدوقامت اور سرسبز درختوں اور فلک بوس پہاڑوں سے گھیرا ہوا ہے ۔ یہاں پر چیل اور بدلو کے جسیم اور باڑودار درخت پائے جاتے ہیں ۔ پہاڑوں کے بھیچ میں سے دریائے ذجی نار اپنے آب و تاب کے ساتھ روان دواںہے۔ آگے جاکر اس دریا میں اور بھی کچھ دریا ملتے ہیں اور یہی دریا بعد میں دریائے ویشو کہلاتا ہے ۔جس کا پانی صاف و شفاف ہے ۔ دریا ذجی نار میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں کبھی کبھی لوگ مچھلیوں کا شکار کر کے انہیں شوق سے کھا جاتے ہیں کیونکہ اس دریا کی مچھلیاں لزیز ہونے کے کے ساتھ ساتھ طبی اعتبار سے بھی بے حد مفید مانی جاتی ہیں اور یہ سارے حسین منظر دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔ چھرن بل ارد گرد چار کھول اور پچِ کھل جیسے خوبصورت مقامات بھی ہیں۔ چھرن بل میں ٹھہرنے والے سیاح ان جگہوں کی سیر بھی کر لیتے ہیں مختلف سیاح چھرن بل کی سیر کو جاتے ہیں اور شامیانے لگا کر ان حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ شام کے وقت یہ شامیانے ایسے جگمگا رہے ہوتے ہیں جیسے آسمان پر تارے ۔ چھرن بل میں خانہ بدوش لوگ بھی رہتے ہیں ۔ جو سال کے قریباً پانچ مہینے اس حیسن وادی میں گزارتے ہیں کیونکہ اس جگہ پر وہ اپنے مویشی اور بھڑ بکریاں لاتے ہیں اور انہیں چرواتے ہیں چھرن بل میں سڑک، بجلی اور موبائل نیٹ ورک کا کوئی انتظام نہیں ہے چھرن بل پہنچ کر خانہ بدوش لوگ اور سیاح پوری دنیا سے کٹ جاتے ہیں اور ان سیاحوں اور خانہ بدوش لوگوں کو اگر کوئی بھی چیز لانی ہو تو انہیں ہا تو منزگام جانا پڑتا ہے یا ہالن۔ اس لیے تمام سیاح خوردونوش اور باقی ضروری سازوسامان اپنے ساتھ ہی لے آتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سیاحوں یا یہ خانہ بدوشوں کر سڑک کے نہ ہونے سے کوئی شکایت نہیں ہے کیونکہ لوگ یہاں پہنچ کر دنیا کے شور شرابہ اور ہنگامے سے کچھ عرصے کے لیے جیسے کٹ سے جاتے ہیں اور بے حد اطمنان کی سانس لیتے ہیں ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک بن جائے گی اور لوگوں کی آمد رفت بڑھ جائے گی پھر یہاں بھی اسی طرح کی آلودگی ہو گی جس طرح سے ہمارے باقی سیاحتی مقامات پر ہے ۔ اور ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لطف یہاں پیدل آنے میں ہے وہ پھر گاڑیوں میں نصیب نہیں ہوگا ۔ حال ہی میں راقم کو بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ چھرنبل کی سیر کا موقع ملا۔ ہائے ایسے دلفریب نظارے ہیں کہ جنہیں میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ۔ جہاں ہر طرف سے شدید گرمی سے لوگ پریشان ہیں وہاں چھرنبل کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں سیاحوں کو ایک نئی زندگی عطا کرتی ہیں ہر طرف ٹھنڈے پانی کی صاف و شفاف نہریں بہہ رہی ہیں ۔
شاید ان ہی نظاروں سے متاثر ہو کر برج نارائن چکبست نے یہ شعر تخلیق کیا تھا۔
ذرہ ذرہ ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز
راستے کے پھتروں نے دے دیا پانی مجھے
صبح کے وقت پہاڑوں کے بھیچ میں سے آفتاب اس طرح طلوح ہوتا ہے جیسے نئی نویلی دلہن شرماتے ہوئے اپنا گھونگٹ اٹھا رہی ہو ۔ اور طلوح آفتاب کا یہ منظر دل کو بھا جاتا ہے۔ آفتاب کی کرنیں گھنے درختوں کے بیچ میں سے میں سے زمین پر اس طرح بکھر رہی ہیں جیسے نور بکھر رہا ہو ۔ اور شام کے وقت جب آفتاب غروب ہوجانے لگتا ہے ۔ تو آسمان پر ایک عجیب قسم کی سرخی چھا جاتی ہے ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی سے اس کا محبوب کل پھر سے ملنے کا وعدہ کر کے بوجھل قدموں سے جدا ہو رہا ہو. اور آفتاب نہ چاہتے ہوئے بھی غروب ہو جاتا ہے اور ایک تاریکی پوری دنیا کے ساتھ ساتھ چھرن بل پر بھی چھانے لگتی ہے اور یہ منثظر یہ حد حسین ہوتا ہے ۔اور یہی حالت سیاحوں کی ہو جاتی ہے جب سیاح چھرن بل سے نکل جاتے ہیں اور مڑ مڑ کے چھرن بل کی وادیوں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ میں سیاحوں سے فقط ایک گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس خوبصورت اور حسین صحت افزا مقام کی سیر کو ضرور آئیں لیکن اسے صاف و شفاف رکھنے میں اپنا کردار نبھائیں اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار نبھائیں اور اور چھرن بل میں موجود ان درختوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ کچھ لوگ چولہا جلانے کے لیے سر سبز درختوں کی چھال اتار رہے ہیں جن سے ان درختوں کے سوکھ جانے کا خطرہ رہتا ہے یہ مناظر دیکھ کر ذی حس انسانوں کا جگر چھلنی ہو جاتا ہے اور ایسا کر کے لوگ ماحول کے تئیں اپنی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ اس جگہ پر سوکھی لکڑی اور بوسیدہ درختوں کی بھی کمی نہیں ہے جس کا استعمال چولہا جلانے اور باقی کاموں کے لیے کیا جا سکتا ہے ۔
سبزار احمد بٹ
اویل، نورآباد،کولگام



