ہما نشی نروال ابھی تک شبستانوں میں فروزاں ہیں چراغ ! 0

ہما نشی نروال ابھی تک شبستانوں میں فروزاں ہیں چراغ !

رشید پروینؔ سوپور

سر زمین ہند جس کی اپنی ایک بے مثال تاریخ ہے ، جس میں کبھی ہڑپا اور موہنجدرو کی تہذیبوں نے اپنے شباب دیکھے ،جس میں اللہ کے اِذن سے چستی ؒنے کبھی پیغام حق سے یہاں کی ہواؤں کو معطر کیا اور اسی سر زمین میں نانک نے بقول اقبالؒ وحدت کے گیت گائے ، جہاں تاتاریوں نے آکر نہ صرف ڈھیرے ڈالے بلکہ اسی سر زمین کی بو باس سے مانوس ہوکر اپنے آشیانے تعمیر کئے ، ماضی قریب یعنی کئی دہائیوں سے امن پسند ، انصاف اور گنگا جمنی تہذیب و تمدن کے دلدادہ نہ صرف متفکر ہیں بلکہ بہت زیادہ خوف زدہ ہیں ، اپنے مستقبل سے مایوس ہیں کیونکہ منافرت اور تعصب کے اندھیرے اتنے گہرے ہوچکے ہیں کہ ، سحر کی امید ہی ایک مو ہوم خواب سا ہو کر رہ گیا ہے ، لیکن ابھی پہلگام کے خونین اور وحشیانہ قتل عام کے منظر نامے میں کچھ ایسا بھی ہوا ، کہ حساس اور ذی شعور آدمی نہ صرف گھپ اندھیروں میں روشنی کی ٹمٹماتی ہی سہی لیکن کرنوں کودیکھ کر حیرت زدہ اور صم بکم ہیں ، کہیں تو کیا کہیں ؟۔ اس کے سوا کہ ان اندھیروں کی کوکھ میںا بھی روشن اور درخشاں ستاروں کے وجود کا گماں ہوتا ہے ،یہ فروزاں وجود ’’ہمانشی نروال ‘‘ کا ہے جس سے کل تک کوئی نہیں جانتا تھا لیکن آج لکھنے والے یقینی طور پر اس کے لئے گیت لکھیں گے اور یہ ان کا حق ہے ۔۔ ہمانشی نروال کے شوہر ایک نیول آفیسر لیفٹننٹ ونے نروال کی پتنی جس کی شادی شاید ابھی کئی مہینوں یا ہفتوں پہلے ہوئی اور یہاں کشمیر کے حسین اور خوبصورت ہواؤں اور فضاوؤں سے اپنی نئی اور ازدواجی زندگی کی شروعات کرنے کی جستجو میں یہاں آئی تھی ، لیکن حالیہ قتل عام جس میں ۲۶ ہمارے مہمانوں کا قتل ہوا ان میں یہ نیول آفیسر بھی تھے ، اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ اس کی ایک تصویر وائرل ہے ، ، اور ہمانشی کے اندر انسانیت اور اعلیٰ اقدار کا صرف اس سے اندزہ کیا جاسکتا ہے کہ فرسٹریشن ، غصے اور اپنے آپ پر قابو کھونے کے بجائے ، اس کے اولین الفاظ یہی تھے کہ،، ’’ہمیں انصاف ضرور چاہئے ، لیکن میں نہیں چاہتی کہ لوگ کشمیری اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف ہوں ‘‘یہ یا اس طرح کے الفاظ جن کا متن یہی تھا ، حیران گی کی بات ہے کہ وہ نو بیاہتا دلہن کہہ پائے جس کے شوہر کی لاش اس کے قدموں میں پڑی ہو ، اور جو ابھی صرف کچھ لمحے پہلے اس کے ساتھ اپنی زندگی کے بہترین لمحات ہنسی خوشی گذاررہا تھا ،، اس کو سمجھنے کی اور اس کا احساس کرنے کی ضرورت ہے، اور بس اس کرب کا اور دکھ کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے ، بہرحال ہمانشی کے یہ خیالات اعلیٰ تعلیم و تربیت ، اعلی معیا ر،اور ایک منفرد مثبت سوچ و فکر کے ہی نتائج ہوسکتے ہیں ، اس لئے حیرانگی اورہی نہیں بلکہ یہ ایک انہونی سی لگتی ہے کہ دلہے کی لاش سامنے ہو ،اور دلہن کا سیندور اجڑ چکا ہو ، سہاگ لٹ چکا ہو اور فرد ِ بے گناہی میں قتل کیا جا چکا ہو ، اور اتنے المناک اور کربناک لمحات میں اس کے صبر کا دامن بھی ہاتھ میں ہو اور عقل ،سوچ و فکر بھی جسم میں چراغ کی مانند روشن ہو ؟ بظاہر ایسا ہو۔ نہیں لگتا لیکن یہ ہوا ہے، ظاہر ہے کہ اس سے یہ نتائج اخذ کرنا بالکل غلط نہیں ہوں گے کہ ابھی تک ہم زندہ ہیں ، ابھی تک وطن کی ساری فضا آلودہ نہیں اور ابھی تک یہاں گوتم اور رام جی کی سر زمین میں انصاف اور عدل کے مدھم سے نغمے کہیں نہ کہیں سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ،،، بہر حال پہلگام خونین واقعے کے بعد ہمارے چیف منسٹر عمر عبداللہ نے پہلی بار وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے ، یہ ملاقات سرکاری ذرائع کے مطابق آدھے گھنٹے تک جاری رہی ہے ، اور ظاہر ہی ہے کہ اس میٹنگ میں سیکورٹی اور امن و اماں کی صورتحال پر سوچ بچار ہوا ہوگا ، ،آپ کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ اس حالیہ حملے میں ۲۶ جانیں ضائع ہوئی تھیں جس میں مقامی لوگ بھی شامل تھے ۔
پاکستان کے خلاف اس دہشت گردانہ حملے کے ردِ عمل میں بہت سارے اقدامات کئے گئے ہیں جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی ہے ، اٹاری میں چیک پوسٹ بند کی گئی ہے ، ہائی کمشنر میں عملے کو کم کیا گیا ہے ،اور بھارت نے پاکستانی شہریوں کو ویزے دینا بھی بند کردیا اور بھارت نے پاکستانی ائر لائنز کے لئے اپنی حدود بھی بند کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی وزیر اعظم نے اپنے تینوں چیف آف سٹاف کو ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں اہداف اور جنگی نشانوں کے انتخاب کی اجازت پہلے ہی دی ۔ بہر حال اگر دیکھا جائے تو جنگ دونوں حریف ملکوں پاک و ہند کے لئے لگتا ہے کہ ناگزیر ہے ، کیونکہ یہاں جنون ہے اور وہان عاصم منیر اپنی قوم سے کٹ چکے ہیں ، اور اس کا مطلب ہے کہ قوم بھی بے دلی سے ہی اپنی فوج کے ساتھ ہے ، عاصم کو بھی کسی کرشماتی یا معجزاتی عمل کی اشد ضرورت ہے کہ عوام کا کوئی حصہ اس کے ساتھ چلنے کو تیار تو ہوجائے ۔ مرکزی اقدامات کی حمائت کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے پیر کو کہا کہ اُن کی حکومت دہشت گردی کے خلاف لوگوں کی مہم کو مظبوط بنائے گی ،وزیر اعلی نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ کہ جامع مسجد سرینگر میں پہلی بات کسی ایسے واقعے پر عوامی سطح پر دکھ کے اظہار میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ہے ، ظاہر ہے کہ یہ وادی میں سوچ و فکر کی ایک تبدیلی کے طور پر بھی دیکھی جاسکتی ہے اور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ لوگ دہشت گردی اور معصوم جانوں کے زیاں اور سیاسی پوائنٹس کے لئے کسی بھی قتل عام کی حمایت نہیں کرتے۔
اس قتل عام سے چھٹی سنگھ پورہ کا قتل عام یاد آنا اور ان زخموںکا ہرا ہونا ایک فطری اور قدرتی بات ہے کیونکہ ۲۰ مارچ ۲۰۰۰کی شام کو پندرہ سے زیادہ گن مینوں نے سکھ کیمونٹی کو اپنے گھروں سے باہر لا کر گوردوارے میں جمع کرکے بڑی بے رحمی اور بیہمانہ انداز میں گولیوں سے ہلاک کیا تھا ، جس میں ۳۵سے زیادہ سکھ ، ہمارے بھائی لوگ اور صدیوں سے مسلم کیمونٹی کے ساتھ مل جل کر رہنے والے ہلاک ہوئے تھے ، اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان دنوں امریکی صدر بل کلنٹن یہاں کے دورے پر تھے ، اور آج جب یہ دوسرا بڑا اور تاریخی قتل عام ہوا ہے جس میں بھارت کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے ہمارے ہندو برادری سے وابستہ لوگ تھے ،،،
امریکی نائب صدر جے ڈی ویسن بھارت کے دورے پر تھے ،، چھٹی سنگھ پورہ کا ملیٹینسی کے دور میں پہلا واقع تھا جس میں سکھ کیمونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا ، ،، اس سے پہلے ۱۶فروری ۲۰۱۹کو لیتہ پورہ پلوامہ میں ایک کانوائے پر ایک خود کش حملے میں ۴۵ سے زیادہ سیکورٹی اہلکار مارے گئے تھے ، یہ اب تک کی سب سے بڑی کاروائی سمجھی جاتی ہے اور اس میں ایک مقامی نوجوان عادل احمد ڈارکے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا ، الیکٹرانک میڈیا اور پریس کسی بھی طرح اپنی اصل ذمہ داری کو سمجھنے اور نبھانے کے موڈ میں نہیں بلکہ ایک سرے سے یعنی کشمیر سے کنیا کماری تک وہ منافرت اور نفرت کے شعلوں کو ہی کیوں ہوا دینے کے درپہء ہیں ، ان کے اپنے مفادات یا پارٹی اغراض و مقاصد ہوسکتے ہیں لیکن اتنے بڑے، دونوں جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سےملک کے لئے کسی طرح یہ صحت مند بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ یہ ملک گنگا جمنی تہذیب ہی کے بل بوتے پر قائم بھی رہا ہے اور قائم بھی رہے گا ، علیحدگی یا ریپرشن اور ناانصافیوں کے سمندروں سے محبت کے سوتے کسی طرح نہیں پھوٹ سکتے ، پہلگام واقع ہوتے ہی جہاں ہمانشی جیسے چند ستارے ہمیں بھائی چارے ، امن و امان،محبت یگانگت اور اپنائیت کی روشنیوں کے ساتھ نظر آئے وہاں اندھیروں کے دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد رات دن نفرت کی آگ کو ہوا دینے کے لئے یہاں کی دھرتی پر ہوائی جہازوں سے اتر اتر کر چیخ و پکار میں مصروف ہوگئی ۔ فرقہ پرست لوگ ایسے بیانات داغتے رہتے ہیں جو کشمیر کی ہزاروں برس کی تاریخ کے ساتھ کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتے ۔
تاریخی طور پر ۴۷ ۱۹ سے کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کئی ایسے مرحلوں سے گذری ہے جنہیں انتشار ، اضطراب اور عذاب مسلسل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں آج تک کی تاریخ تک کسی ایک بھی ہندو مسلم فساد کا ریکارڈ موجود نہیں ۔
یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہاں کی مسلم اکثریت منافرت ، تعصب اور بغض سے آشنا ہی نہیں ۔اس حالیہ انتخابات میں اس قدر ووٹ اور اس قدر یکسوئت اسی امن کی منزل کو سامنے رکھتے ہوئے جمہوری اور آزادانہ طریق پر عمل پیرا ہونے کی نشاندہی ہوسکتی ہے ۔ کشمیری عوام نے بھر پور طریقے پر انتخابات میں حصہ لے کر یہ بات صاف کی ہے کہ وہ کوئی دہشت گرد یا وطن دشمن نہیں بلکہ وہ اپنے دائرے میں امن کے متلاشی بھی ہیں اور اپنے حقوق کی پاسداری کا مطالبہ جمہوری انداز میں کرتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے خونین واقعات اور سانحات اس کے وجود کو ہلادینے کے لئے کافی ہوتے ہیں ، کیوں ایسا ہوتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی بہت بڑا سانحہ پیش آتا ہے جس میں معصوم لوگ مارے جاتے ہیںاور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ جہاں ہوچکا ہے وہ ایک سیاحتی مقام ہے جہاں دیس بدیس سے لوگوں کی بڑی تعداد چند روز امن ، سکھ چین سے گذارنے کی خواہش اور آرزو لے یہاں آجاتی ہے۔ باہری دنیاکو اس سے کیا پیغام جاتا ہے ؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔
لیکن ان سفاک ،بے رحم اور سنگدلوںکو جو اس قسم کے منصوبے تیار کرکے انسانیت سوز قتل عام کے مرتکب ہوتے ہیں ، سمجھنا چاہئے کہ اسی دھرتی میں ابھی تک ہمانشی نروال جیسے ، انصاف پسندوں، امن اور محبت کے علمبرداروں کی کوئی کمی نہیں جو گھپ اندھیروں اور نفرت کی آندھیوں میں محبت کے چراغ لے کرانسانیت کی راہوں اور راہروؤں کے لئے مشعل راہ ہیں ،،اور جب تک یہ روشنی کی کرنیں موجود ہیں ، چستی ؒ ، بھلے شاہ ،رام ،گوتم اور نانک کی وحدت کے گیت یہاں کی ہواؤں میں بجتے رہی گے ،،،،،،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں