مومن فیاض احمد غلام مصطفے
ایجوکیشنل و کرئیر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول و جو نئیرکالج،بھیونڈی
قوموں کی تاریخ میں بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جو محض کامیابیاں نہیں، بلکہ ایک پیغام بن جاتے ہیں۔ بھارت کے حالیہ خفیہ مشن “آپریشن سندور” کی کامیابی بھی ایسا ہی ایک لمحہ ہے، جس نے نہ صرف دشمن کو چونکا دیا بلکہ ملک کی سلامتی، خفیہ صلاحیتوں، اور قیادت پر دنیا کو ایک بار پھر اعتماد دلا دیا۔
اس مشن کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی قیادت تھی — ایک باہمت، باصلاحیت اور فرض شناس خاتون افسر کرنل صوفیہ۔ ان کی حکمتِ عملی، بے باکی اور بروقت فیصلہ سازی نے اس آپریشن کو خاموشی سے کامیابی کی بلند چوٹی تک پہنچا دیا۔
آپریشن سندور:
رازداری، حکمت، اور جرات کا حسین امتزاج
“آپریشن سندور” ایک حساس اور خفیہ مشن تھا، جس میں بھارتی ایجنسیوں نے انتہائی پیچیدہ حالات میں دشمن کے دائرے میں گھس کر اپنے شہریوں کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔ یہ مشن اس قدر خاموشی سے انجام دیا گیا کہ دنیا کو اس کی کامیابی کا علم تب ہوا جب سب کچھ مکمل ہو چکا تھا۔
اس مشن میں انٹیلی جنس، زمینی حکمت عملی، اور ٹیکنالوجی کا ایسا امتزاج نظر آیا جو دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں کو چیلنج دیتا ہے۔
کرنل صوفیہ —
قیادت کا نیا چہرہ
کرنل صوفیہ بھارتی فوج کی ان خواتین افسروں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں اور حوصلے سے مردوں کے شانہ بشانہ بلکہ کئی مواقع پر آگے بڑھ کر قیادت کی نئی تعریف قائم کی۔ “آپریشن سندور” ان کے تجربے، نظم و ضبط، اور بصیرت کی روشن مثال ہے۔
ان کی قیادت میں کام کرنے والی ٹیم نے جس پیشہ ورانہ انداز میں مشن مکمل کیا، وہ نہ صرف بھارت کے لیے فخر کا مقام ہے بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک پیغام بھی — کہ خواتین کسی بھی محاذ پر کمزور نہیں۔
خواتین کا ابھرتا ہوا کردار
“آپریشن سندور” بھارتی خواتین کے لیے ایک مثال بن گیا ہے کہ وہ اب صرف سماجی ترقی کی علمبردار نہیں، بلکہ ملکی سلامتی کی محافظ بھی بن چکی ہیں۔ کرنل صوفیہ کی یہ کامیابی ہر بیٹی، ہر ماں اور ہر طالبہ کو یہ پیغام دیتی ہے کہ آسمان اب حد نہیں رہا۔
مسلمانوں کا تاریخی کردار: ماضی سے حال تک
جب ہم “آپریشن سندور” جیسے مشنز پر فخر کرتے ہیں، تو یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ بھارتی مسلمانوں نے بھی ہر دور میں ملک کی حفاظت، سالمیت، اور آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
1857 کی پہلی جنگِ آزادی سے لے کر موجودہ دور تک، مسلمان مجاہدین، سپاہی، افسران اور دانشوروں نے بھارت کی بنیادوں کو مضبوط کیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام ویر عبدالحمید کا ہے، جنہوں نے 1965 کی بھارت-پاکستان جنگ میں پاکستانی پیٹن ٹینکوں کو تباہ کر کے دشمن کی پیش قدمی روک دی۔ وہ میدان جنگ میں شہید ہو گئے، مگر ملک کی عزت بچا لی۔ ان کی اس عظیم قربانی پر انہیں پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔
اسی طرح بریگیڈیئر محمد عثمان، جنہیں “جموں و کشمیر کا شیر” کہا جاتا ہے، نے 1947–48 کی جنگ میں شہادت پائی، مگر ان کی قیادت میں دشمن کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا مشہور قول تھا:
“اگر میں پیچھے ہٹوں، تو مجھے گولی مار دینا؛ لیکن اگر میں آگے بڑھوں تو میرے ساتھ چلنا!”
یہ تمام مثالیں اس سچائی کی ترجمانی کرتی ہیں کہ وطن پر مر مٹنے والوں کی کوئی مذہبی شناخت نہیں ہوتی — وہ صرف “بھارتی” ہوتے ہیں۔
“آپریشن سندور” صرف ایک خفیہ آپریشن نہیں، بلکہ یہ بھارت کے اتحاد، تنوع اور طاقت کا ترجمان ہے۔ کرنل صوفیہ کی کامیاب قیادت نے جہاں خواتین کے حوصلے بلند کیے، وہیں مسلمانوں کے تاریخی کردار نے ثابت کیا کہ یہ ملک ہر طبقے، ہر مذہب، اور ہر قومیت کے لوگوں کی اجتماعی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
ایسے مشن صرف کامیابیوں کی فہرست میں نہیں آتے، بلکہ قوم کے جذبے، شعور، اور وحدت کی تصویر بن جاتے ہیں۔ آج ہمیں فخر ہے کہ ہم ایک ایسی سرزمین پر سانس لے رہے ہیں جہاں صوفیہ کی قیادت اور عبدالحمید کی قربانی ایک ہی پرچم کے سائے تلے جمع ہیں۔