ش م احمد سری نگر
7006883587
کشمیر کی تاریخ میں بائسرن پہلگام کا المیہ مدتوں انسانیت کو خو ن کے آنسو رُلاتا رہے گا ۔اس خون آلودہ تاریخ کے اوراق انگشت بدنداں ہوکر انسانیت سےہمیشہ پوچھتےرہیں گے کہ آخر اسلحہ بردار قاتلوں نے کس جرم کی پاداش میں گھوڑے بان سیدعادل شاہ سمیت ۲۷؍ نہتے سیاحوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور ۱۷؍کو بری طرح زخمی کردیا ؟ کن دجالی مقاصد کے تحت چن چن کر مہمانوں کو خون میں نہلایا؟ اس خون خوارواقعے سے کئی گھر اُجڑ گئے‘ کئی زندگیاں لٹ گئیں ‘ کئی سہاگنیں وِدھوا ہو کر سفیدساڑھی کے کفن میں گویازندہ دفن ہوئیں ‘ دلہوں کوموت کی نیند میںسلاکراُن کی نئی نویلی دلہنوں کا سیندور مٹایا گیا ‘ اُن کے گلے منگل سوتروں سے محروم کئے گئے ‘ بچوں کے سامنے پتا ؤںکی ہتھیا کر کےان معصوموں کے دل چھلنی کردئے گئے کہ ایک ایسادرد اُن کی معصوم نفسیات میں جاگزیں ہوا جو اُنہیں عمر بھر تڑپاتا رہے گا ۔ یہ اُندوہناک واقعہ ایک سنگین ترین جرم ہے‘ یہ
انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے‘ یہ امن وانصاف کے اصولوں کا کھلاخون ہے ‘ یہ روح فرسا حادثہ ہےجس نے رُوحِ کشمیر کو پامال کیا‘ جو بر صغیرہند وپاک کو اللہ نہ کرے جنگ وجارحیت کے بےقابو بھوکے جن کا لقمۂ تر بنانے پر منتج ہوسکتا ہے ‘ یہ دُ کھ بھری سرگزشت جو شرم ا لشیخ( مصر) اور مالی( انڈونیشیا) میں عسکری حملوں سے مشابہ رنج دہ کہانیوں کا اعادہ ہے اور انسانی ضمیر سے سوال کرتی ہے کہ درندے نہتےمعصوموں کو خون میںنہلا نے کا شیطانی کام انجام دیتےوقت کاش خود سے پوچھتے ہمارا ٹارگٹ ہنی مون منانے والا نو بیاہتا جوڑا کیوں ‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ فطرت کی گود میں ذہنی تھکان اُتارنےو الے ہنستے مسکراتے کنبے نے آخرہمارا کیا بگاڑا جو اس کی جان لینے کے درپے ہیں ‘ ہمارا بندوق گھوڑے بان سید عادل شاہ کے خون کا پیاسا کیوں ‘ کس قصور میں اس شخص کو ہم بے دردی سے ماررہے ہیں جو سیاحوں کو گھڑ سوار ی کروا کے دن بھر پا برہنہ ہانکتا دوڑتاہے تاکہ دوپیسے کماکر گھرکا چولہا جلاتا رہے ۔ان تیکھےسوالوں سے درندوں کا کیا کام ‘ اُن کواپنے مذموم مقاصد کی تکمیل سے غرض ہوتی ہے ‘اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک گرنا کوئی قبیح کام نہیں سمجھتے ‘ اپنا ہدف پورا کرنے کے لئے وحشیوں کوچاہے انسانیت اور انصاف کی تمام قدریںروندھنی پڑیں اُنہیںکوئی گریزنہیں ‘ اُصولوں اور آدرشوں کی گردن مروڑنا پڑے کوئی پچھتاوا نہیں ‘ خون کی ندیاں بہاکر بیواؤں اور یتیموں کی فوج میں اضافے کے موجب بننا پڑے‘ کوئی خوف ِ خدا نہ کسی قانون کا ڈر۔ پہلگام کا خون ریز واقعہ اسی قبیل وقماش سے تعلق رکھنےو الے انسانیت کے مجرموں کا کیا دھرا ہے۔ وقت کے مورخ کا قلم فی الحال مضطرب ومنتظر ہے کہ کب ان درندوں کو انصاف کے ایوان اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے کڑی سے کڑی سزا دی جاتی ہے تاکہ پہلگام سانحے کااختتامی باب تحریر کر تے ہوئے وہ انسانیت کی جیت کاجھنڈا لہراسکے ۔
وادی ٔ کشمیر کی۳۵؍سالہ عسکری تاریخ میں پہلگام کی خون آشامی کوئی روایتی دہشت پسندانہ واقعہ نہیں‘ یہ درد وغم کی ایک ناقابل ِ فراموش کہانی ہے۔۔۔ انتہائی المناک ‘ وحشت انگیز ‘ہارر سٹوری!!!کہانی کا پلاٹ وسیع الجہت ہے ‘ کینواس خون آلودہ کشمیر کےاشک بار جبل ومیدان اور سوگوار درودیوار تک پھیلاہوا ہے۔کہانی کے بنیادی کردار۔۔۔ چارپانچ شیطان صفت نامعلوم قاتل ‘ ۲۶ ؍ نہتے مقتول سیلانی ‘ مہمانوں کابچاؤ کر نے والے مرکبان سید عادل شاہ سمیت پہلگام کے دوسرے خدائی خدمت گار ‘کشمیر کے طول وعرض میں مقتولین کے ساتھ انسانیت کے ناطے ہمدردی رکھنے والااور قاتلوں سے بیزار و ناراض عوامی سیلاب ۔۔۔ انہی منفی و مثبت کرداروں نے مل کر دنیا کے سامنے انسانیت اور حیوانیت کی آویزش کی ایک غم ناک تصویر پیش کی اور صاف دکھایاکہ اُدھر موت کے چندفرستادے ہیں جو خون تشنہ ہیں ‘ اِ دھر پوری انسانی سماج ہے جو انسانیت پر مر مٹنے کے جذبے سے سرشار قتل وخون میں ملوث گناہ گاروں کالعن وطعن کرتی ہے۔ حالات کی یہ غم انگیزتصویر دکھاتی ہے کہ پہلگام میں گویا نامعلوم حقیر وذلیل مسلح گروہ کی حیوانی سوچ اور معصوم وبے خطا انسانی جذبات میں معر کہ گرم ہوا ‘ اس میںبے گناہ لوگ گولیوں کے شکار ہوکر جان کی بازی ہا رگئے مگر جیت کا سہرا بندھا تو صرف انسانیت کے سر بند ھا ‘ شکست فاش ہوئی تو حیوانیت کے نامعلوم پرستاروں کی ہوئی۔
چشم ِفلک نے دیکھ لیاکہ گزشتہ پنتیس برس میں یہ پہلا موقع ہے جب کشمیرکے سوئز رلینڈ بائسرن کےقتل ِعام پر عوامی ردعمل کا ریلا خود بخوداُمڈ آیا ‘ کسی جانب کوئی کال تھی نہ اپیل بلکہ ناشاد لوگ رضاکارانہ طور آگے بڑھے‘ ہاتھ اتحادِ فکر کا بے ریاعَلم تھامے‘ جان رنج والم میں غلطاں وپیچاں‘ دل سوگواری اور مجروح جذبات میں ڈوبے ‘ آنکھیں درد وکرب کے آنسوؤںمیںغوطہ زن ‘ زبان قتل عام سے نالاں کہ گن کلچر کی بچی کھچی زمین عوامی غیظ وغضب تلے پاتال میں دھنس کر رہ گئی۔ یہ اسی سلسلے کی کڑیاںہیں کہ جموں کشمیر میں ہمہ گیر بند ہو ا‘ میرواعظ ڈاکٹر عمر فاروق سمیت تمام مذہبی قائدین‘ حکمران نیشنل کانفرنس‘ اپوزیشن بی جے پی اوردیگر سیاسی جماعتیں‘ سیاحت کے شعبےسے وابستہ سبھی اکائیاں‘ کشمیر کی تمام ٹریدانجمنیں‘سول سوسائٹی اور عام کشمیری کا اس امر پر مکمل اور غیر مشروط اجماع consensusہو اکہ سب سے پہلے ناقابل ِ برداشت سانحہ میں تمام ملوثین کو گرفتار کیاجائے ‘ ان مسلح قاتلوں کی از رُوئے قانون سرکوبی ہو ‘ اُن کے ہینڈلروں کا مکمل صفایا ہو‘ مقتولین کو فوری انصاف ملے ‘ کشمیر آنے جانے والے سیاحوں کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے‘حفاظتی بندوبست میں کوئی چُوک نہ ہو‘ شدت پسندی ‘ تشدد‘ تخرب اورتنفر کو ہوادینے والوں اور سازشی عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔
وادی بھر میں مقتولین کے حق میں اورقاتلین کے خلاف غم وغصے کی جوشدید لہر دوڑ گئی ‘ مظاہرے ہوئے ‘ جلسے ہوئے‘ جلوس نکلے ‘ ہر جگہ دہشت پسندی کی ببانگ ِ دہل تھوتھو ہوئی ‘ انسانیت کی تائید کا پرچم بلندہوا ‘ یہی نیاکشمیر کا اصل چہرہ ہے۔ برجستہ عوامی ردعمل کی کمان کشمیریت نے سنبھال لی تو چرخِ کہن کی سمجھ میں آ گیا کہ کشمیر کو جنت ِ ارضی کیوں کہا گیا ہے۔ یہ جنت محض قدر تی حسن وجمال کی ہی مرہون ِ منت نہیں بلکہ کشمیراپنی انسانیت نوازی کی وجہ سے بھی باغ ِ بہشت کہلاتی ہے ۔ آج اسی لئے یہاں جابجا بندوق بردار قاتلوںکی مخالفت اور متاثرہ سیاحوں کی حمایت میں سب لوگ صف بستہ ہوئے مگر افسوس کہ اس دوران کئی ریاستوں سے یہ پریشان کن خبریں بھی گشت کرتی رہیں کہ باہر کشمیری سٹوڈنٹس اور تاجروں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ اُنہیں خواہ مخواہ انتقام کی دھمکیاں دی جارہی ہیں‘ وہ طرح طرح کی تکالیف سے دوچار ہیں‘ جب کہ کشمیر میں مقتول سیاحوں کے سوگ میں کہیں سینہ کوبیاں ‘ کہیں احتجاج ‘ کہیں کینڈل لائٹ جلوس‘ کہیں ٹورسٹوں کے لئے گھروںکے دروازے کھل گئے ‘ کہیں سیاحوں سے اپیلیں :بلاخوف کشمیر آجاؤ ‘ ہم آپ کی میزبانی میںچشم براہ ہیں‘ ہم آپ کا استقبال بھی کریں گے اور تحفظ بھی دیں گے ‘ ان اپیلوں کو ہماری معاشی مجبوری نہ سمجھیں جیسا کہ اُلٹی کھوپڑی والے کچھ عناصر یہ جھوٹ پھیلارہے ہیں بلکہ یہ ہمارے دین وایمان کا جزولاینفک اور کشمیریت کا اصل الاصول ہے ‘جس کے دَم قدم ہم آپ کے لئے دیدہ ودل فرشِ راہ کئے ہوئے ہیں ۔ ان حوصلہ افزا پیش رفتوں سے پتہ چلا کہ کشمیر میں پہلگام کے چلتے حیوانیت پر انسانیت نے اپنی جیت درج کر لی ‘ حالانکہ لوگوں کو سوگواری کے پہلو بہ پہلو خدشات و خطرات کا سامنا بھی ہے۔
پہلگام المیے کو یاد کرکے یقینی طور انسانی روحیں کانپ اُٹھتی ہیں‘ آنکھیں غم کے آنسوؤں سے ترہوتی ہیں ، جذبات بپھر جاتے ہیں مگر انہی باتوں پر بس نہیں بلکہ یہ دلخراش سانحہ ہمارے عقل وضمیر کےسامنے انسانیت و حیوانیت کے درمیان خط ِ امتیاز کھینچنے کی ایک کسوٹی بھی فراہم کرگیا ۔ شکر کہ وادی ٔ کشمیر کا ہر فرد بشر اس کسوٹی پر کھرا اُترا‘ اور دنیا کو دکھلایا کہ کس طرح ہمارے اندر صدیوں سے پروان چڑھی کشمیر یت ۔۔۔ انسانی اُخوت اوررُوحِ انسانیت پر مبنی طریقِ زندگی۔۔۔ آج بھی زندہے ‘اس کو دبانا اور مار نا اتنا آسان نہیں جتنا وحشی بندوق بردار ‘ اُن کےپیچھے کھڑے ہینڈلر ز اور ہمارے کرم فرما بزعم ِ خویش سمجھتے ہیں۔ ہمارے انسانی وجود میں رچی بسی کشمیریت کو کوئی گن کلچر‘ کوئی سیاسی تقسیم‘کوئی مذہبی تفریق ‘ کوئی نفرتی نعرہ‘ کوئی فرقہ وارانہ عناد ختم کرسکتا ہے نہ کبھی چھین سکتا ہے ۔ یہ بھی سنئے کہ ہماری یہ آبائی انمول میراث کسی کی شاباشی سے مشروط ہےنہ کسی کی حوصلہ شکنی سےخائف ۔
پہلگام کے سبب کشمیریت کے اس صدیوں پرانے پیغامِ ِانسانیت کی اُس دنیا میںدھوم مچ گئی جوغزہ اور یوکرین جیسی گھٹن بھری تباہیوں اورکشت وخون کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے انسانیت کا سر کچلتی دیکھتی ہے اور اُف تک نہیں کرتی۔ کشمیر نے اس کے برعکس ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بے شک نوے کے اَندھ کار میں وقتی طور کشمیری لوگ بھی بوجوہ کشمیر یت کے حوالےسے اپنے سمت ِسفر سے بھٹک گئے مگر شکر ہے کہ بہت جلد گھر واپسی بھی ہوئی۔ یاد رکھئےکشمیریت کوئی آسمانی شریعت یا زمینی سیاست کی کوئی تجارت نہیں بلکہ ہم اسےسرزمین ِکشمیر کے باشندوں کا صدیوں پرانا سوشل کنٹریکٹ یا سماجی میثاق کہہ سکتےہیں جواہل کشمیرکے انفردای و اجتماعی طبائع میں اب بھی زندہ وتابندہ ہے ‘ اس میں امن وانصاف کی مہک گندھی ہوئی ہے ‘ یہ فکر وعمل کو خو شنما انسانی قالب میں ڈھال کر ہمیں زمین پر انسان بن کر جینے کا اسلوب سکھلاتی ہے۔اس کی تخم ریزی کرنے میں یہاں کے اولیا اللہ ‘ رشی‘ منی‘ رُوحانی بزرگ‘ اُولوالعزم ہستیاں اپنی محنتوں ‘ ریاضتوں اور پندو نصائح کی کدالیں مدت مدید تک چلاتے رہے ‘ تب جاکر اس کی جڑیں جنت نظیر زمین میں پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ پیوست ہوئیں ۔ کشمیریت فقط محبت‘ شرافت‘ مودت اور عقیدت کے ہاتھ پر بیعت ہونے کانام ہے‘ یہ کشادہ دلی اپنانے اور من وتُو کی دیواریں ڈھانے کی عمومی دعوت ہے‘ یہ آدمیت کا دامن گرفتہ ہونے کا دستور ہے ‘ یہ جیو اور جینے دو کا آئین ِعافیت ہے ۔آج کی تاریخ میں پہلگام حملے کے دوران اسی صدیوں پرانی ندائےآدمیت وعافیت نے کشمیری ضمیر کو پکارا تو سارے لوگ اس کی رہنمائی میں سینہ تانے آگے بڑھے اور فوراً انسانیت کی مشعل تھام لی‘ اندھیاروں کا سینہ چیر ا‘ مظلوم کے کندھے سے کندھا ملایا‘ ظالم کا گریبان پکڑا۔ اس سانحہ نے کشمیریوں کےعزم وارادے کو نئی جلا نئی زندگی بخش کر انہیںاپنے انسانی اقدار کی حرمت ومعنویت منوانے کا جو زریں موقع دیا‘ سید عادل شاہ شہیدکے بشمول متعدد ٹیکسی ڈرائیوروں‘ تاجروں ‘ مقامی آبادی نے جان پر کھیل کر اس کا بھرم سیاحوں کے کام آآکر رکھا۔ پہلگام ٹریجڈی کے چلتے عام لوگوں نے کشمیریت کی پکار سنی تو اس ندا پر لبیک کرتے ہوئے اپنی متاع ِ گم گشتہ سینے سے لگانے میں کوئی دیر نہ کی ۔ یوں کشمیر میں اُمید کی جو کرن گاندھی جی کو سنتالیس کی تاریکیوں میں نظر آئی تھی ‘ آج یہ کرن آفتاب ِعالم تاب بن کر پہلگام میں طلوع ہوتی دکھائی دی ۔ اب یہ ہمارے سیاست کار ‘ حکمران‘ اشرافیہ کا امتحان ہے کہ وہ اس حیات بخش پیغامِ انسانیت سے محض اپنےذاتی مفادات کی کھیتیاں سینچتے ہیں یا نئے کشمیر کےاس بیانئے کی پذیرائی کرتے ہیں ۔ مورخ کا بے رحم قلم اس چیزکو بھی دیکھنے کا منتظر رہے گا۔
پہلگام میں پیش آئے خوںبار حادثے کے مابعد انسانیت کی مشعل کوزخم خوردہ سیاحوںنے اُمید سے زیادہ اپنی حق بیانیوں سے فروزاں ر کھا ۔ یہ مظلوم ومضروب اورسوگوارلوگ جذباتی ہلچل کے عالم میں کچھ بھی الٹا سیدھابول سکتے تھے مگر انہوں نے زخم رسیدہ انسان اور چشم دید گواہ ہونے کےناطے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انصاف کا دامن چھوڑانہ راست گفتاری سے باز رہے‘ باوجودیکہ وہ اس آفت وشامت کے براہ راست شکار ہوئے ۔ گو ان کا رواں رواں زخم ہائے دل وجگر سےتڑپ رہاہے‘ اس کےباوجود دنیا کے سامنےسچائی کا برملا اظہار کر نے میں کوئی پس پیش نہ کیا ۔ان کی عینی گواہیاں تاریخ میںانسانیت کی جیت کا سنہری باب رقم کرچکی ہیں۔ ان بیانات سے کشمیر اور دلی کے درمیان دوری مزید کم ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے ‘ ان سے کشمیریوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیاں اور فرضی باتیں تارِ عنکبوت ثابت ہوچکی ہیں ۔ صداقت شعار سیاحوں نےکیمرے کے سامنے اور ڈنکنے کی چوٹ پر جو کچھ کہا وہ ہماری کشمیریت کے ماتھے کا جھومر کہلاسکتاہے ۔ ان میںچھ دن کی دُلہن اور بحریہ کے لیفٹنٹ جنرل ونئے نروال کی بیوہ ہیمنشی نروال سر فہرست شامل ہیں جنہوں نے کیمرے کے سامنے آکر بتایا کہ دیش میں شانتی رہے ‘ کشمیریوں اور مسلمانوں کو مت چھیڑیئے‘ البتہ ہمیں فوری انصاف ملے ‘ مجرموں کی گرونیں ناپی جائیں ‘انہیں سزائے سخت دی جائے۔ اگرچہ یہ بیان سچائی کی فتح ِمبین ہے مگران کی حق گوئی پر بہت سارے جذباتی قسم کےلوگ خفا اور ناراض بھی ہوئے۔ ایک اور خاتون آرتی مینن کے پتاشری قتل ِعام کی بھینٹ چڑھے ‘ مگرانہوں نے یہ کہہ کر کہ میں نے پتاجی کھودیا مگر بدلے میں دو کشمیری ڈرائیوروں کو بطور بھائی پایا‘ یہ کشمیریت کے لئے ایک قابل ِ قدر خراج ِ تحسین ہے۔ وِدھوا شیتل بین کے آنسو اور ہریانہ کی ایک دوسری بیوہ بہن کا اپنے وزیراعلیٰ کے سامنے اشکباری کے مناظر اور ایک معصوم یتیم بچے کے تر دیدہ ویڈیو زسے واقعی کلیجہ پھٹتا ہے ۔ المختصر پہلگام کے سبب غم زدہ کشمیر نے جس عزم وارادے سےاتحادِ فکرکےزیر ِسایہ پرچم ِ انسانیت اور کشمیریت و اُلفت کا جھنڈا سربلند رکھ کر وہ بالفعل پہلگام کی بیش قیمت جانی قربانیوں کا ماحصل دکھائی دیتاہے۔ ارباب ِ اقتدار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے امن ِ عامہ کوتقویت دینے اور عام لوگوںکوقومی دھارے سے جوڑنے کی سمت میں اپنائی جانےوالی پالیسیوں کے روح میں سمو دیں۔