شہنواز نزیر
زگی پورہ، چرارشریف
nawazrather786@gmail.com
7889820373
علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ صرف اردو اور فارسی کے ایک عظیم شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک عہد ساز مفکر، فلسفی، مصلحِ ملت اور امتِ مسلمہ کے فکری تشخص کے معمار بھی تھے۔ ان کا کلام محض خوبصورت الفاظ کا امتزاج نہیں بلکہ ایک زندہ و بیدار ضمیر کی پکار ہے، جس میں علم و حکمت، عرفانِ ذات، فلسفۂ خودی، عشقِ رسول ﷺ، ملی حمیت اور روحانی بیداری کی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کی شاعری، اسلوب کی شدت، خیالات کی وسعت اور اندازِ بیان کی گہرائی کی بنا پر عام شاعری سے بالکل ممتاز ہے۔ لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ آج کے دورِ ذرائع ابلاغ میں کئی ایسے اشعار، جو نہ فکری سطح پر علامہ اقبال کے تصورِ حیات سے ہم آہنگ ہیں، نہ ہی اسلوبیاتی اور فنی لحاظ سے ان کے معیار پر پورے اترتے ہیں، بے سوچے سمجھے ان کے نام سے منسوب کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، بعض غیر مصدقہ کتب، تقاریر اور انٹرنیٹ پر پھیلے ہوئے ان اشعار نے نہ صرف علامہ اقبالؒ کی فکری میراث کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ نئی نسل کو فکری ابہام میں بھی مبتلا کیا ہے۔ اس قسم کی منسوبات جہاں علمی دیانت کے خلاف ہیں، وہیں اقبال جیسے عظیم مفکر کی فکری تطہیر کے عمل میں بھی رکاوٹ بن رہی ہیں۔ لہٰذا ان نسبتوں کا سدباب اور اصل اقبالی فکر کی صحیح تفہیم ہم سب کا علمی و اخلاقی فرض ہے۔
ذیل میں ایسے چند اشعار اور نظموں کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جو غلط طور پر علامہ اقبال کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں، حالانکہ ان کا اصل تعلق کسی اور شاعر یا غیر مستند ذرائع سے ہے:
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے”
یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں بلکہ صادق حسین صادق کا ہے۔ صادق صاحب ایک باصلاحیت شاعر تھے جنہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر شاعری کو ترک کر دیا۔ یہ شعر اگرچہ قوتِ ارادی اور حوصلے کا پیغام دیتا ہے، لیکن اقبال کے فکری اور اسلوبی سانچے میں فِٹ نہیں بیٹھتا۔
تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوسِ حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے”
یہ اشعار فکری سطح پر حد درجہ مبہم اور داخلی تصوف کے غیر متوازن رجحان کا آئینہ دار ہیں۔ اقبال کی شاعری ایسی سطحی تضادات یا صوفیانہ مبالغہ آرائی سے پاک ہے۔ ان اشعار کی نسبت اقبال سے سراسر زیادتی ہے۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟”
ان اشعار میں داخلی تضاد اور روایتی تصوف کی سطحی تنقید ہے، جو اقبال کے تصورِ عشق، توحید اور تقویٰ سے میل نہیں کھاتی۔ اقبال کے ہاں “شیطان” اور “انسان” کے تعلق کی فلسفیانہ بنیادیں ہیں، نہ کہ اس قسم کی جذباتی سادگی۔
روئیں وہ جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے”
یہ شعر بھی اقبال سے منسوب کیا گیا، حالانکہ اقبال کے ہاں امام حسینؓ سے عقیدت نہایت گہری اور فکری بنیادوں پر ہے۔ ان کا اندازِ سوگ و حزن فلسفہ اور جدوجہد کے تناظر میں ہوتا ہے، نہ کہ محض ردیف و قافیہ کی بازی گری میں۔
تیری اس دنیا میں یہ منظر کیوں ہے؟
کہیں زخم تو کہیں پیٹھ پہ خنجر کیوں ہے؟”
(مکمل نظم، جیسا کہ دی گئی ہے…)
یہ نظم علامہ اقبال کی تو نہیں، لیکن کئی جگہوں پر انہیں منسوب کی جاتی ہے۔ اس نظم کا لب و لہجہ زیادہ تر سوالیہ اور شکوہ نما ہے، جو اقبال کے مشہور “شکوہ” و “جواب شکوہ” کے رنگ کی نقل ہے، لیکن ان کی سطح کو نہیں چھو سکتی۔
حسنِ کردار سے نورِ مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے”
یہ مشہور مصرع اکثر اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ کسی جدید شاعر کا کلام ہے۔ اقبال کا لہجہ اس قدر سادہ اور براہ راست نہیں ہوتا۔
تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اقبال
تو جھکتا کہیں اور ہے، سوچتا ہے کہیں اور”
یہ اشعار نہ صرف اقبال سے منسوب کیے جاتے ہیں بلکہ ان میں خود اقبال کا نام لے کر گویا کلام کو ان کی طرف منصوب کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ اس قسم کے اشعار عام طور پر نقالی کے نمونے ہوتے ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر کے دو اشعار:
“توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے”
“قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد”
یہ دونوں اشعار مولانا محمد علی جوہر کے ہیں، جنہیں اکثر اقبال کے نام سے پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ اس غلط نسبت سے نہ صرف علمی خیانت ہوتی ہے بلکہ دونوں شخصیات کی انفرادیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
ابوالمجاہد زاہد اور اقبال سہیل کے اشعار:
“ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے” – ابوالمجاہد زاہد
“جوانو یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزمِ سفر پیدا” – اقبال سہیل
یہ اشعار اگرچہ روحِ اقبال سے متاثر معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان کا خالق کوئی اور ہے۔ اقبال کا اسلوب اتنا منفرد ہے کہ صرف وزن یا موضوع کی مشابہت اس کی نسبت کا جواز نہیں بن سکتی۔
دیگر غلط منسوبات:
“مسجد خدا کا گھر ہے، کوئی پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں چلے جا، وہاں خدا نہیں”
“پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال؟
یہ گنہگار بو ترابی ہے”
یہ اشعار بھی اقبال کے فکری سانچے سے باہر ہیں۔ اقبال مذہب اور تصوف کی سطح پر ایسی عامیانہ باتوں سے ہمیشہ بلند رہے ہیں۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی شاعری محض الفاظ کا خوبصورت امتزاج یا خیال آرائی کی کوئی فنکارانہ مشق نہیں، بلکہ وہ ایک فکری انقلاب کی بنیاد ہے۔ ان کے اشعار میں وہ توانائی، فہم و فراست اور روحانی عمق پوشیدہ ہے جو ایک سوئی ہوئی ملت کو بیدار کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ ان کی شاعری میں ملتِ اسلامیہ کے درد، اس کے زوال کا ادراک، اور اس کے احیاء کی جدوجہد ایک مسلسل پیغام کے طور پر موجود ہے۔ اقبال کے ہاں لفظ، صرف اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے — ایک عہد ہے — جو وہ اپنی ملت کے ساتھ نبھاتے ہیں۔
ایسے میں جب غیر متعلقہ، سطحی یا عامیانہ اشعار کو علامہ اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے، تو یہ محض ایک ادبی یا تحقیقی غلطی نہیں بلکہ اقبال کی فکری ساکھ، علمی میراث، اور ملت کے ساتھ ان کے اخلاص پر بھی سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک نابغہ روزگار شخصیت کے ساتھ ناانصافی ہے، بلکہ ان لاکھوں قارئین اور نوجوان ذہنوں کے ساتھ بھی ظلم ہے جو اقبال کے کلام سے بصیرت، حوصلہ اور سمت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ ہم، بطور قاری، محقق، معلم اور طالب علم، ان غلط منسوبات کی شناخت کریں، ان کا علمی طور پر جائزہ لیں اور جہاں ممکن ہو، ان کی تصحیح کا فریضہ انجام دیں۔ ہمیں ایسی فکری آلودگی سے اقبال کی اصل آواز کو بچانا ہوگا، تاکہ آنے والی نسلوں تک وہی اقبال پہنچے جو امت کو خودی، عمل، عشق اور آزادی کا پیغام دیتا ہے — نہ کہ وہ جسے ہم نے سوشل میڈیا کی غیر تحقیقی فضا میں بگاڑ کر پیش کیا ہے۔