فضایل رمضان 0

فضایل رمضان

غلام محمد دلشاد

تم پر روزے فرض کر دئیے گیے۔ جیسے تم سے پہلے لوگوںپر فرض کیے گئےتھے،تاکہ تم پرہیز گار بن جاو۔ وہ روزے چند گنتی کے دنوں میں رکھنے ہونگے۔ اور جن لوگوں کو روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو ، تو ان پر واجب ہے کہ وہ ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ (بدلہ) دیں ۔ پس جو شخص اپنی خوشی سے کویی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے اور بہتر ہے۔ اور روزے رکھنا تمہارے لیے زیادہ اچھا ہے۔ اگر تمہیں کچھ خبر ہے۔
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ۔ وہ لوگوں کے لیے ھدایت ، رہنمائی ہے اور فیصلہ کی روشن باتیں ہے۔ پس تم میں جو شخص اس مہینے میں مو جو د ہو ، تو اس کے روزے رکھے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ اور وہ اس لیے تاکہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرو۔ اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت بخشی تاکہ کہیں تم اس کا شکر ادا کرو۔
ترجمہ۔
تفسیر روح البیان ۔سورةالبقر آیات.١٨٤ :١٨٥..
اس مہینے کے مختلف نام ہیں ، عام طور پر اس کو ماہ رمضان کہتے ہیں ، دوسرے نام، ماہ صیام ، ماہ مبارک ۔ شہر کا تو مطلب ہے مہینہ مگر مشہور مہینہ ، یعنی یہ اپنی برکت و فضیلت کے لحاظ سے بہت مشہور و مقبول ہے چونکہ قرآن کریم کا نزول بھی اسی مہینے میں ہوا ہے اس لیے شہر القرآن کا نام پایا ہے۔ اور اس بابرکت مہینے میں برائیاں جل کر راکھ ہوجاتی ہیں یعنی ختم ہوجاتی ہیں ، اس لیے یہ ماہ رمضان کہلاتا ہے۔ اسلامی دنیا کے اس گلشن چمن میں، سوچ و سماج و حرکات و سکنات کے لحاظ سے ہر طرف بہار ہی بہار کا دل ربا منظر نظر آتا ہے ۔
حضرت سلیمان رضى اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک مشہور اور بڑے حدیث پاک کے مطابق مروی ہے (اقتباس) کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ شعبان المعظم کے آخری تاریخ میں خطاب فرمایا کہ ایک بہت بڑا اور برکت والا مہینہ آپ پر اپنا سایہ ڈال رہا ہے ۔ یعنی ایک مبارک مہینہ اب آرہا ہے جس کی ایک رات فضیلت کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بھی بڑھکر ہے ۔ رب العالمین نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں ،اس کے راتوں کے قیام یعنی تراویح کو ثواب کی چیز بنایا ہے ۔ (تا آخر) ۔ غرض یہ ایک خبر کی حیثیت سے رحمتہ اللعالمین ﷺ نے رب العالمین کی طرف سے واضح فرمائے کہ خبردار اس بابرکت مہینے میں آپ ایک لمحہ بھی ضایع نہ کریں ۔ اسی میں آپ کی کامیابی ہے ۔ اس مہینے کے تین حصے کیے گئے ہیں۔پہلے دس دن رحمت کے ، دوسرے دس دن مغفرت کے ، تیسرے اور آخر ی دس دن نار جہنم سے آزادی کے ۔ جو اس مہینے کی برکت اور عظمت ومنزلت کو جان کر اعمال اور افعال کے لحاظ سے اس کی قدر کرے ، تو وہ اس مہینے کے ان تینوں فضیلتوں سے نوازا جائیگا ۔ ارشاد عالی ہے کہ دنیا ، آخرت کے لیے ایک کھیتی ہے ، اس میں محنت و مشقت کرکے وہاں کامیابی پانے کی کوشش کرنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ جلہ جلالہ نے ہمیں اپنے محبوب پیغمبر ، رسول کریم ﷺکی وساطت سے اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے کچھ ، مگر بڑی سہولیات میسر رکھی ہیں ۔ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ان پر عمل کرنا ایمان کا تقاضا ہے ہی ، مگر عقلمندی بھی ہے ۔ جیسے کہ ایک طالب علم کو سوالات کے پرچے میں ایک سوال کے ساتھ اور بھی متبادل دو سوالات دئیے جاتے ہیں ، تاکہ وہ تنگی محسوس نہ کرے بلکہ اس سہولیت کا فایدہ آسانی سے اٹھاکر اپنے لیے کامیاب ہونے کے امکانات ذیادہ روشن کرے ۔ اسی طرح زیادہ اجر پانے کے لیے مہینے میں عام ایام سے الگ ایام بیض رکھے گئے ہیں جن میں روزوں کی فضیلت عام دنوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ اسی طرح ذی الحجہ کے دس دن ہوں یا ماہ شوال میں کوئی بھی چھ (6) دن ،ماہ شعبان کاپندرواں دن یا ماہ رجب یا ماہ محرم کے ایام ہوں ۔ اسی حیثیت سے ان دنوں کے روزوں میں ہمارے لیے اجر کے بڑھایئ رکھی گئی ہے ۔
اب آنے والے اس بابرکت مہینے کی بات ہو تو اللہ کریم کا فضل ہے کہ ہمیں ایسے مواقع اور اس مبارک مہینے سے نوازا ہے ، اؤر اس کی قدر کرنے میں ہمارے لیے بے انتہا اجر و ثواب حاصل کرنے کی امیدوں کو اجاگر کیا ہے ۔ یہ پھر الگ بات ہے کہ احکم الحاکمین کے پاس اس کی نظر میں ہماری عملیات کی نیتوں کا کیا حال ہوگا ۔ ان میں ریاء کتنا اور خلوص کتنا ۔ کیونکہ ہمارے حرکات و سکنات اور عبادات میں نیتوں اور خلوص کا کافی مکمل عمل دخل ہے ۔ ارشاد عالی ہے انمعلاعمالبنیات۔بے شک عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں ہے ۔ اللہ کا فضل شامل حال ہو تو کیا کہنا ۔ حالانکہ عارفوں اور اولیاءاللہ کا مقام ہی الگ ہے ۔ کہ شیخ کامل علمدار کشمیر رحمت اللہ تعالیٰ علیہ ، کا فرمان ہے ، ‘کاشر ( جنتکہ ہوسہ تہ دوذخکہ بیے ، دیہ چھی کران عبادت)۔
کس آییہ ژے کن بے غرضیے کس آسہ دلس تژھ وسعت ۔
علامہ اقبال رقمتراز ہیں ” ۔
سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزاء کی تمنا بھی چھوڈ دے
یہ مقام والوں کی بات ہے ۔ یعنی ہیں ہم اپنے آقاء اللہ کے غلام ، بندے ، بس جو حکم ہے بغیر چون چراں کے تعمیل کریں ۔
بات چل رہی تھی ۔ عمل کرنے کی ۔
اس کا مطلب کبھی بھی یہ نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بس بیٹھیں گے اور اس دنیا میں زندگی پانے کے اصلی مدعا و مقصد کو ہی فوت کریں ۔ کیا خوب شعر ہے کہ :
“زندگی ہے بس ایک بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی”
وما خلقت الجن والانس الا لىيعبدون (القرآن) ہم نے جن اور انسان کو پیدا نہیں کیا مگر صرف عبادت کے لیے ۔
ہماری حیثیت ایک ادارے میں داخلہ لینے والے اس طالب علم کی سی ہے جو اپنا مستقبل بنانے کے لیے داخلہ پایا ، اب اس کو اپنی مرضی چھوڈ کر ، ادارہ کے تمام روابط و ضوابط کے سامنے سر خم کرکے ان کو اپنے اوپر نافض سمجھکر ان کے مطابق سانچے میں رہکر ہی محنت مشقت کرکے اپنی کامیابی اور کامرانی کی راہیں روشن کرنے کی سعی کرنی ہے ، نہ کہ داخلہ پاکر بس ہاتھ پاؤں اور آنکھیں بند کرکے خدا کے فضل کرم کی امید کرے۔ایسا کرنا فطرت اور عقلمندی کے تقاضوں کے منافی ہوگا ۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان یا مومن کی حیثیت ہے۔ جس نے ایمان لایا ہے، داخلہ پایا ہے ، اللہ کا شکر ہے۔ اب اس کو ، ادخلو بالسلم کافهپر عمل پیرا ہوکر اپنے اعمال و افعال،حرکات و سکنات ،سوچ سمجھ میں مطابقت رکھکر دینی تقاضوں کے تحت ذندگی گزارنی ہے ۔اور پھر کامیابی کی مکمل امید رکھنی درست ہے اور انشاء االلہ کامیابی ملے گی ۔ اسی لیے قرآن کریم میں ایمان والوں کے لیے ہی نیک عملیات کرنے کا بار بار خطاب اور احکامات ہیں ۔ جس نے ادارے میں داخلہ لیا ہی نہیں۔ اس کو اس ادارے کے ساتھ نہ کوئی واسطہ ہے نہ وہ کہیں گنتی میں ہے اور اس انجام کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ہاں اگر اپنے آپ میں وقت ضایع کرنے کے بغیر تبدیلی لائے ،توبہ کرے ، کیونکہ توبہ کے دروازے ابھی کھلے ہیں ۔ تو وہ الگ بات ہے ۔
اسی واسطے خطاب ایمان والوں سے ہی ہے کہ آپ پر ماہ صیام کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اور ہمیں تسکین دیتے ہوئیے فرمایا گیا ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ روزے آج ہی اور بس آپ پر ہی فرض کیے گئےہیں اور نہ آپ پر اللہ کریم کا کوئی ارادہ ہے کہ صرف آپ پر سختی ہو ، بلکہ آپ سے پہلے گزری ہوئی امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئےہیں۔ مثال کے طور پر ،حضرت آدم صفی اللہ علیہ سلام پر ہر ماہ تیراویں ، چودھویں اور پندرھویںتاریخ کے روزے، (ایام بیض)۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ سلام)پر عاشورے کے دس دن ، اور ہر ہفتے سنیچر کے روزے ، اس کے علاوہ بھی سال میں کچھ روزے فرض تھے ۔ حضرت عیسیٰ روح اللہ پر ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئےتھے ۔ وغیرہ ، یہ سب کچھ ایک نعمت عظمیٰ کے طور عطا ہوا ۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ تاجدار انبیاء و مرسلینﷺاور اس کی خیر الامت کو ایسی نعمتوں سے نہ نوازا جاتا ۔ اس لیے ہم کو ہر لحاظ سے ہر وقت رب الکرہم کا شکر بجا لاتے رہنا چاہیے کہ ہم کو بھی ان سے کہیں زیادہ نوازشوں سے مالا مال کیا گیا ہے ۔ اس بارے میں رب الجلیل کا ارشاد گرامی ہے کہ (لعلکم تشکرون) تاکہ تم شکر گذار بنو ۔ کیونکہ روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ،فرمایا گیا ہے کہ( لعلکم تتقون) تاکہ تم تقوای حاصل کریں ۔‌
اب کون کتنا فایدہ اٹھائے اس کو اپنے ہاتھ میں ہے ۔ پرہیز گاری حاصل کرکے خوش نصیب ہو ، یا ایک بد نصیب بنکر اس عظیم مہینے کی عظمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئیے خوف خدا سے بے نیاز ہوکر چوری چھپے پردوں کے آڑ میں ہوٹلوں کو تلاش کرکے ، وہاں اپنی پیٹ کی پوجا میں لگ جائےاور وہ بھی مسلم اکثریتی والی اس وادی گلپوش میں جو کہ کبھی “پیر واری” کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اس مہینے کی بہت سی اور فضایل ہیں جن میں چند ایک کا تذکرہ یوں ہے ۔
ایک نفل کا اجر ایک فرض کے برابر ۔ ایک فرض ستھر فرض کے برابر ۔ یعنی قضا شدہ نمازوں میں اداییگی کا سنہری موقع و مہینہ ہے ۔ ایک درود شریف کا اجر عام ایام میں ہے ہی کہ دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں دس گناہ مٹائے جاتے ہیں ۔ کہیں سات سو نیکیوں کا بھی ذکر ہے ۔ مجاز و مالک اللہ ہے جو چاہے عطا کرے ۔ ایک روپے خرچ کرنے پر ستھر کا ثواب ۔ شب قدر کی بیداری اور عبادات ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ۔ روزوں کے اجر کا تو تصور نہیں ہو سکتا ۔ اور پھر اعتکاف کی برکت کیا کہیے ۔ اس پر یہ کہ جہاں بستی میں اعتکاف کی غیر حاضری پر پکڑ ہے ، وہاں ایک معتکف کی حاضری پر فیض و برکت میں ساری بستی شامل ہے ۔ واہ ، واہ کیا عالم ہے ۔ کہ معتکف کو اعتکاف میں بیٹھنے پر اس کا اجر الگ جو حدیثوں سے ثابت ہے ۔ ان کے علاوہ ، ان تمام نیکیوں کا ذاتی طور کیے بغیر ہی اجر ، جن میں وہ اعتکاف پر بیٹھنے کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا ۔ یہ رحمتوں و مغفرتوں کی بارشیں اور آذادی از نار جہنم کا پروانہ اللہ پاک کا کرم ہے ۔
میرا مجال کیا ، بس رحمت خدا وندی میں شامل رہنے کی امید میں یہ خاکسار کی ایک ادنیٰ کوشش ہے ورنہ موضوع کے ساتھ انصاف کہاں اور کس کا طاقت ، ہاں ، ہاں یہ کہ معتبر علماء دین رحماللہ علییہم اجمعین کا ، منصب سعادت ہے ۔ دعا ہے کہ’’ اے ہمارے رب العالمین اپنے ، روف و رحیم اور ہمارے پیغمبر نازنین ﷺ،کی عنایت سے ، ہمارا توبہ قبول کرکے ہمیں اپنے مقربین کے ساتھ روز محشر میں شامل رکھکر اپنا فضل کریم نصیب کر۔
آمین ثمہ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں