غلام نبی پروانہ
تیرے سپنوں کے بھارت پر گاندھی موذی چھایا ہے
سونے کی چڑیا تھا اک دن پلٹ گئی اب کایا ہے
بھارت دھرتی شیو شنکر کی گوتم نانک چستی کی
سب کا فلسف وحدت یکتا گیت صدا یہ گایا ہے
چندر گپت مہاراج اشوکا اکبر ٹیپو شاہجہان
سب نے پیار محبت بانٹا اب نفرت کا سایا ہے
ہندو مسلم سکھ عیسائی اب انسان کی ہے پہچان
اشرف تھا تخلیق میں آدم ظالم نے بہکایا ہے
صدیوں کی تہذیب میں لپٹا ملک ہے میرا ہند استھان
ِبھارت کی دولت کا دشمن اب نظریں للچایا ہے
دین دھرم اور مندر مسجد سے اونچے اپنے افکار
سانجھے دکھ سکھ سانجھی خوشیاں ہی اپنا سرمایہ ہے
انسانی لاشوں کا سودا بھارت دشمن کا ہے کام
پہلگام کے جنگل وادی خون میں جو نہلایا ہے
بہت سہا ہے اب نہ سہیں گے سن کشمیر کے دشمن سن
جل مر جانا امن کی خاطر پروانے کو بھایا ہے