صداقت علی ملک
سوتی بھلیسہ ڈوڈہ
7006432002
زندگی کے کسی بھی شعبے میں کمال حاصل کرنا نہایت محنت، لگن اور استقامت کا متقاضی ہے۔ یہ خوبیاں ہمیں جناب محمد شفیع متو صاحب کی شخصیت اور کارناموں میں نظر آتی ہیں۔ متو صاحب ضلع ڈوڈہ کے چنگا بھلیسہ میں تب پیدا ہوے جب رسل و رسایل کا فقدان تھا۔ وہ بحثیت استاد اور پھر بطور ہیڈ ماسٹر اپنی خدمات انجام دی۔ وہ ایک کہنہ مشق مصنف، محقق، اور ماہرِ تعلیم تھے بلکہ ان کا دل اپنے علاقے، اس کی ثقافت، زبان، اور عوام کے لیے دھڑکتا تھا۔ ان کی زندگی علم، ادب، اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھی، اور ان کی تخلیقات اردو ادب میں ایک بیش بہا اضافہ ہیں۔
جناب محمد شفیع متو صاحب کو علم و ادب کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ ان کے والدین نے ان کی تعلیم کی بنیاد رکھی، اور ابتدائی مراحل میں انہیں میر عبدالغنی مرحوم جیسے استاد کی رہنمائی نصیب ہوئی، جو خوش گفتار، خوش نویس اور بلند پایہ قلم کار تھے۔ استاد مرحوم نے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
محمد شفیع متو صاحب کا ادبی سفر ان کی تخلیق “بھلیس” سے شروع ہوا، جو علاقے کی تہذیب و ثقافت، تاریخ، اور زبان کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ کتاب انہوں نے غلام رسول آزاد مرحوم کو پیش کی، جنہوں نے ان کی تحریر کی بے حد تعریف کی۔ اس کے بعد ان کے مضامین اور کتابچے مختلف علمی و ادبی شخصیات جیسے پروفیسر محمد سلطان خان، الحاج عبدالعزیز بٹ، اور بشیر احمد خطیب صاحب کی نظروں سے گزرے، جنہوں نے ان کے کام کو سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔
محمد شفیع متو صاحب کی تصانیف کا دائرہ وسیع ہے، جن میں نثر، شاعری، اور نعتیہ کلام شامل ہیں۔ ان کے نمایاں کام درج ذیل ہیں:
یادِ رفتہ
یادِ رفتہ، محمد شفیع متو صاحب کی تصنیف، گزرے وقتوں کی یادوں اور تجربات کا ایک دلچسپ اور گہرائی میں اترا ہوا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں بَھلیسہ کے تعارف کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی ان عظیم شخصیات کی زندگیوں اور کارناموں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو تاریخ کے اوراق میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ محمد شفیع متو نے بڑی حساسیت اور باریکی کے ساتھ ان لمحات اور واقعات کو تحریر کیا ہے جو قاری کو ماضی کے ان خوبصورت اور پر اثر لمحات کی سیر کراتے ہیں، جنہیں دیکھ کر اور پڑھ کر ماضی کے اس دور کی ایک زندہ تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
کتاب میں نعتیہ شاعری اور مرثیہ نگاری کے بہترین نمونے شامل کیے گئے ہیں، جو اللہ اور اس کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت اور عقیدت کو الفاظ کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی غلام رسول آزاد اور اس دور کی دیگر عظیم شخصیات کے کارنامے اور ان کی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں، جو کہ بَھلیسہ کی ادبی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
“یادِ رفتہ” نہ صرف ادبی اور روحانی تحریروں کا مجموعہ ہے بلکہ بَھلیسہ کے تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی پہلوؤں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ کتاب ان گزرے وقتوں کی یادگار ہے جو آج بھی بَھلیسہ کی مٹی اور فضا میں موجود ہے اور قاری کو ان شخصیات کے ساتھ ایک روحانی اور جذباتی تعلق میں جوڑتی ہے۔
“آہ وہ چل بسے” غلام رسول آزاد کی سوانح عمری پر مشتمل ایک گہری اور دلگداز تحریر ہے، جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نہایت شفاف اور دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کرتی ہے جس نے اپنے دور میں نہ صرف اپنی محنت اور لگن سے کامیابیاں حاصل کیں بلکہ اپنے علاقے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی بے شمار خدمات انجام دیں۔
غلام رسول آزاد کی زندگی کے نشیب و فراز کو اس کتاب میں بڑی باریک بینی سے بیان کیا گیا ہے، جہاں ایک طرف ان کی ذاتی جدوجہد، حوصلہ اور عزم کی داستانیں ہیں، تو دوسری طرف ان کے معاشرتی اور ثقافتی اثرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کی زندگی میں آنے والی مشکلات اور کامیابیاں قاری کو اس دور کی حقیقتوں سے روشناس کراتی ہیں۔ کتاب میں غلام رسول آزاد کے وہ لمحے بھی شامل ہیں جب انہوں نے بَھلیسہ کی کمیونٹی کے لیے اہم کام کیے اور اس کے لوگوں کی خدمت کی۔
اس کتاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں غلام رسول آزاد کی شخصیت کو محض ایک عوامی یا ادبی شخصیت کے طور پر نہیں پیش کیا گیا بلکہ ان کی روحانی اور انسانی خصوصیات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی زندگی کے وہ لمحے جن میں انہوں نے اپنے اصولوں، ایمان اور وفاداری کی بنا پر فیصلے کیے، ان سب کو اس کتاب میں ایک نیا رنگ دیا گیا ہے۔ یہ سوانح عمری نہ صرف غلام رسول آزاد کی شخصیت کو سمجھنے کا ایک زریعہ ہے بلکہ ایک پورے عہد کے حالات اور ماحول کو بھی عکاسی کرتی ہے۔
“آہ وہ چل بسے” ایک ایسی کتاب ہے جو غلام رسول آزاد کی جدوجہد، قربانیوں اور کامیابیوں کی داستان کو زندہ رکھتی ہے، اور ان کے کردار کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب ایک ایسا یادگار تحفہ ہے جسے پڑھ کر انسان کو اپنے آپ پر فخر اور ان عظیم شخصیات کی قدر کا احساس ہوتا ہے جو اپنے وقت میں معاشرتی تبدیلیوں کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔
“کشمکشِ زندگی” منشی انور اور عبدالعزیز بٹ کی حیات اور کارناموں پر مشتمل ایک نہایت اہم اور دلکش تصنیف ہے، جو ان دونوں عظیم شخصیات کی زندگی کی جدوجہد، قربانیوں اور ادبی خدمات کو انتہائی تفصیل اور باریکی سے بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب ایک ایسے دور کی عکاسی کرتی ہے جب ادبی اور فکری تحریکوں نے معاشرتی و ثقافتی تبدیلیاں متعارف کرائی تھیں، اور یہ دونوں شخصیات اس تبدیلی کا حصہ بننے کے ساتھ ساتھ اس کے اہم رہنما بھی تھے۔
منشی انور اور عبدالعزیز بٹ نے اپنی زندگی میں جو کچھ حاصل کیا، وہ صرف ان کی محنت، لگن اور اپنی قوم کے لیے خدمت کے جذبے کی بدولت تھا۔ کتاب میں منشی انور کی ادبی کاوشوں کا ذکر کیا گیا ہے، جنہوں نے اپنے اشعار، نثر اور تحریروں کے ذریعے نہ صرف ادب کی خدمت کی بلکہ اپنے سماج کی فلاح کے لیے بھی بے شمار اہم کام کیے۔ ان کی تحریریں ایک گہرے فکری اور جذباتی تجربے کی عکاسی کرتی ہیں جو آج بھی قاری کو متاثر کرتی ہیں۔
دوسری جانب، عبدالعزیز بٹ کی زندگی اور کام بھی اس کتاب کا اہم حصہ ہیں۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب ادیب تھے بلکہ ایک انتھائی مخلص اور سچے انسان بھی تھے۔ ان کی جدوجہد میں نہ صرف ذاتی ترقی شامل تھی، بلکہ انہوں نے اپنے زمانے کی سماجی اور سیاسی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے بھی اپنی آواز بلند کی۔ ان کی تحریریں معاشرتی انصاف، انسانیت اور محبت کی جانب رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
“کشمکشِ زندگی” میں ان دونوں شخصیات کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو نہ صرف بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کے ساتھ گزرے ہوئے ان لمحات کو بھی عکاسی کی گئی ہے جب انہوں نے مشکلات کا سامنا کیا، لیکن اپنی غیر متزلزل ارادے اور یقین کی بدولت انہیں کامیابی حاصل کی۔ یہ کتاب ان کی زندگی کے مختلف رخوں کو قاری کے سامنے لاتی ہے اور ایک ایسا پیغام دیتی ہے کہ محنت، لگن اور صحیح مقصد کے لیے جدوجہد ہمیشہ رنگ لاتی ہے۔
یہ تصنیف نہ صرف ان دونوں شخصیات کی عظمت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ ان کی زندگی سے اسباق بھی دیتی ہے جو آج کی نسل کے لیے رہنمائی کا باعث بن سکتی ہیں۔ “کشمکشِ زندگی” ایک ایسی کتاب ہے جس میں منشی انور اور عبدالعزیز بٹ کی محنت، ایمان اور قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی خدمات کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا گیا ہے۔
“مضامین اور نعتیہ کلام” محمد شفیع متو صاحب کی ادبی وراثت کا ایک اہم حصہ ہے، جو ان کی عقیدت، محبت اور فکری بصیرت کا آئینہ دار ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں جہاں ایک طرف عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہرائی اور شدت کی جھلکیاں ملتی ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی تحریریں ایمان و محبت کی ایک بلند سطح کو چھوتی ہیں۔ محمد شفیع متو صاحب نے اپنی نعتوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت اور عظمت کو نہ صرف الفاظ کی صورت میں بیان کیا ہے بلکہ ان کی کلام میں روحانیت اور وجدانی پہلو بھی نمایاں ہیں جو قاری کے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
ان کی نعتوں میں عقیدت کی وہ شدت اور روانی پائی جاتی ہے جو ایک سچے مومن کے دل میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ہوتی ہے۔ ان کے اشعار میں ایک طرف حضور کی شان میں بے شمار معجزات اور کمالات کا ذکر ہے، تو دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت اور پیغامات کو بھی انتہائی ادب اور محبت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان کی نعتیں نہ صرف ایک روحانی اثر رکھتی ہیں بلکہ ان میں محبت، تسلیم و رضا، اور اللہ کی رضا کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی ہے۔
ان کے مضامین معاشرتی مسائل، ادبی موضوعات اور انسانی اخلاقیات پر مبنی ہیں، جو ان کی وسیع تر مطالعہ اور منفرد نقطہ نظر کو ظاہر کرتے ہیں۔ محمد شفیع متو صاحب نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں معاشرتی بگاڑ، انسانوں کے حقوق، اور اخلاقی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا ہے۔ ان کی تحریریں انسانیت کی بہتری کے لیے ایک رہنمائی کا کام کرتی ہیں اور انہوں نے اپنی ادبی کاوشوں کے ذریعے معاشرتی اصلاحات کی اہمیت کو بھی محسوس کیا ہے۔ ان کے مضامین میں نہ صرف اخلاقی و دینی تعلیمات کا تذکرہ ہے بلکہ وہ اپنے قاری کو سماجی انصاف، رواداری اور محبت کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
محمد شفیع متو صاحب کا کلام اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور فکری جستجو کو اپنی تحریروں میں ڈھالا ہے۔ ان کے نعتیہ کلام اور مضامین دونوں میں ایک عمیق فلسفیانہ سوچ اور انسانی جذبے کی حقیقتوں کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کا کلام نہ صرف ادب کی دنیا میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ ایک ایسی دریا کی مانند ہے جو روحانی سکون، سماجی آگاہی اور اخلاقی بصیرت کا پیغام دیتا ہے۔
“مضامین اور نعتیہ کلام” محمد شفیع متو صاحب کی شخصیت اور ان کے ادبی سرمایہ کی ایک اہم جھلک ہے، جس میں انہوں نے اپنی محنت، علم اور عقیدت کو لفظوں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ ان کا کلام آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جو ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
محمد شفیع متو صاحب کا دل اپنے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے دھڑکتا تھا۔ انہوں نے کئی مرتبہ حکومت اور اربابِ اختیار سے اپیل کی کہ ٹھاٹھری-کلہوتران روڈ کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے، تاکہ بھلیس کے دیہاتوں کو مرکزی علاقوں سے جوڑا جا سکے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ بہتر آمد و رفت، صحت افزاء مقامات تک رسائی، اور چھوٹی صنعتوں کا قیام علاقے میں غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
متو صاحب نے ہمیشہ تعلیم نسواں کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھلیس جیسے پسماندہ علاقے میں لڑکیوں کے لیے گرلز ہائی اسکولوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، نیلی، گندو، اور چلی جکیاس جیسے دیہاتوں میں تعلیمی سہولیات فراہم کر کے ہم بچیوں کو ترقی کے دھارے میں شامل کر سکتے ہیں۔
محمد شفیع متو صاحب کی تحریروں میں دیہی ثقافت، اسلامی اقدار، اور انسانی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں بشیر احمد خطیب صاحب کا کہنا تھا کہ ان کے مضامین محمد حسین آزاد اور رتن ناتھ سرشار کی یاد دلاتے ہیں۔
ان کی تخلیقات صرف کتابوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ یہ اردو ادب کے قارئین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی تحریریں آئندہ نسلوں کے لیے ادب، اخلاق، اور سماجی خدمت کے لیے تحریک کا ذریعہ بنیں گی۔
جناب مرحوم متو صاحب کے فرزندان میں سبسے بڑے محمد یعقوب متو صاحب (مدرس)، شمیم احمد متو صاحب (علم و ادب کے شاہکار اور مدرس) شوکت علی متو صاحب (مدرس)، اور شہباز احمد متو(ایجوکیشن بورڈ میں بطور کلرک) اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
محمد شفیع متو صاحب کی وفات سے اردو ادب اور بھلیس کے عوام ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کی خدمات، تخلیقات، اور اخلاقی اقدار ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔۔۔۔۔ آمین
����