نہ سمجھیں گے تو مٹ جانا طے ہے 0

نہ سمجھیں گے تو مٹ جانا طے ہے

شمشاد کرالہ واری

انسان کو ترقی کی اس منزل پر پہنچ کر سوچنا چاہیے تھا کہ اس ترقی کو دوام بخشنے کے کیا اقدام کرلئے جائیں کہ آنے والی نسلیں بھی اسکے فوائد حاصل کر پائیں لیکن انسان نے اتنے مسائل پیدا کئے کہ خود کی ہی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے جس کو ترقی یہ معکوس کا نام دیا جاسکتا ہے۔کیونکہ انسان نے اپنے اہداف پانے کے لئے قدرتی وسائل کو بلا سوچے سمجھے لٹا دیا نتیجہ کے طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کا ایسا شدید بحران پیدا ہوا کہ انسانیت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا خطرہ یہی بناہواہے۔ کیا کسی کے ذہن میں کوئی شک ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ہماری آئندہ روزمرہ کی زندگی کا تعین اور اسکی تشکیل کا دارومدار اسی پر ہو گا۔ ایسا بحران اب تک انسان نے نہیں دیکھا ہے انسان کی پریشانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ایسی باتیں آپ کو تکلیف دہ لگ سکتی ہیں لیکن ہماری آج کی زندگی کا یہی سچ ہے۔ اللہ تعالٰیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنادیا لیکن اس نے اس بڑائی کا غلط فائدہ اٹھا کر اپنی ہی زندگی کے لئے نہیں بلکہ ساری کائنات کے لیے خطرہ پیدا کر دیا۔ اگر ہم وقت پر نہیں سمجھیں گے تو کل ہمارے پاس سمجھنے کےلئے وقت نہیں ہوگا ۔
عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں ایک کتاب تالیف کی گئی ہے ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف موسمیاتی قلمکاروں کے موسمیاتی تبدیلیوں پر لکھے گئے 100 مضامین شامل ہیں، جنکا محا صل یہی ہے کہ موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران انسانیت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کتاب میں موسمیاتی ماہرین نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ ساتھ اس سے نمٹنے کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
گریٹا تھیونبرگ پہلے باب کے ابتدائی کلمات میں کہتی ہیں کہ حالانکہ گزشتہ چند سالوں میں موسمیاتی بحران کو دیکھنے اور اس کے بارے میں بات کرنے کا ہمارا طریقہ بدلنا شروع ہوا ہے۔ لیکن ہم نے شدت اختیار کرتے ہوئے ہنگامی حالات ٹھیک کرنے کے بجائے انہیں نظر انداز کرنے میں کئی دہائیاں ضائع کردی ہیں، اس لیے ہمارے معاشرے اب بھی موسمیاتی تبدیلی کو تسلیم کرنے کے حوالے سے انکار کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ خیر اس مواصلاتی انقلاب کے دور میں آس پاس کی سچائی جاننے میں دیر نہیں لگتی ہے یہ کہنا عجب لگتا ہے کہ جو ممالک زیادہ تر دانشمندی کی دہائی دیتے ہیں اور ماحولیات کو سدھارنے کے نعرے بلند کرتے ہیں وہی اس خرابی کے زمہ دار بج بھی ہیں ۔
بالکل اسی طرح سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے اور کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والے اکثر ممالک کو خود کو موسمیاتی رہنما بھی کہتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود آب و ہوا کے حوالے سے کوئی بھی قابلِ اعتبار پالیسیاں موجود نہیں ہیں۔ جو ممالک ماحولیاتی بیداری پیدا کرنے کےرہنمامانتے ہیں وہ ماحولیاتی ڈھونگ رچانے والوں کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔
زندگی میں کوئی مسئلہ بیک وقت رنگ نہیں بدلتا ہے ۔ دراصل ہمارے مسئلے جانچنے کا بنیادی اصول ہی غلط ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے سماجی حدود موجود ہیں جن کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیے۔
ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے معاشرے اللہ نے پائیداربنائے ہیں جب وہی چاہیے گا ہر چیز فنا ہوگی ۔اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرت کاملہ اسی کے ہاتھ میں ہے لیکن اسی نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے ۔ کیا اسی نے نہیں کہا ہے کہ ہر چیز میں میزان رکھا ہے کیا گھر میں ہم ہر چیز میں تناسب کا خیال نہیں کرتے ہیں اگر آپ ڈل کی سطح پر جمی یخ بستہ پتلی تہہ پر چلنے کی کوشش سے کنارہ پر پہنچے کی چا ہ بھریں گے تو وہ تہہ آپ کا وزن اٹھائے گی یا ٹوٹ جائے گی۔ آپ کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے یا پھر گہرے، تاریک، سرد پانی میں ڈوب جائیں گے اور اگر ہماری دنیا کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کوئی بھی زمین کا قریبی ساتھی سیارہ ہماری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ جس طرح سے ڈل میں گرے آدمی کو ہم بالکل تنہا چھوڑ تے ہیں۔ ہم بھی تنہا رہ جائیں گے لیکن اپنے ساتھ ان کو بھی ناکردہ گناہوں کی سبب سے تباہی کریں گے۔
اس سلسلے میں جو بھی ہماری توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہے چاہیے کوئی فرد ہو یا انجمن حکومتی ادارے ان کو ترقی دشمن قرار دیکر رد مخلوق بنا دیتے ہیں۔
اُبھرتے ہوئے وجودی بحران کے بدترین نتائج سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ترقیاتی کاموں میں شامل کیا جائے اور فہم و فراست والے لوگوں کا ایک ایسا تنقیدی گروہ بنایا جائے کہ جو مطلوبہ تبدیلیوں کا مطالبہ کرے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں عوام میں تیزی سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب بھی عام لوگوں میں اس خوفناک صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ضروری جانکاری اور بنیادی علم کی کمی ہے۔ ہم سبھوں کو تبدیلی لانے کی کوششوں کا حصہ بننا چاہیے۔
میں نے اپنے براڈکاسٹنگ کے دور میں ریڈیائی لہروں کا استعمال کرکے موسمیاتی بحران کے حوالے سے دستیاب بہترین سائنسی معلومات پر مبنی ایک مقبول پروگرام “زون پائے” فریب دیا جو پندرہ سال تک جاری رہا لوگوں ے مثبت ردعمل دکھایالوگ برابر کے شریک بننے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ آپ انہیں اپنے ساتھ لے جانے کی سعی کریں گے اب ” دی کلائمیٹ بک “ایک ایسی کتاب آئی ہے جو آب کو ہوا، ماحولیات اور پائیداری کے بحران کا مکمل طور پر احاطہ کرتی ہے۔ کیونکہ آب و ہوا کا بحران ایک بہت بڑے بحران کی علامت ہے۔جس میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ اگر مختلف سرکاری اداروں اور لوگوں میں تال میل پیدا کیا جائے تو موسمیاتی بحرانوں کو سمجھنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کا حل ضرور نکل آئے گا۔
ہمیں تو شیخ العالم نے پہلے ہی کہ دیا ہے کہ
” ان پوشی تیلہ ییلہ ون پوشی”
تیز رفتار فیشن سے لے کر حیاتی تنوع کا نقصان، وبائی بیماریوں سے لے کر غائب ہونے والے جزائر، جنگلات کی کٹائی سے لے کر زرخیز مٹی کے ضائع ہونے تک، پانی کی کمی سے لے کر مقامی افراد کی خودمختاری تک، مستقبل کی خوراک کی پیداوار سے لے کر کاربن بجٹ تک لکھے گئے مذکورہ کتاب کے مضامین، کارروائیوں کو بے نقاب کرتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کی ذمہ دار ہیں اور جو ان لوگوں کی ناکامی ظاہر کرتے ہیں جنہیں دنیا کے لوگوں کے ساتھ ان معلومات کو پہلے ہی شیئر کردینا چاہیے تھا۔ماحولیاتی اداروں اور تعلیمی اداروں کو ایس کتابوں کو شامل نصاب کیا جانا چاہیے ۔
ہمارے پاس اب بھی بچنے کا وقت ہے کیونکہ یہاں جو تباہی ہوئی ہے اس کی بھر پائی ممکن ہے امید تو ہے لیکن اگر ہم اسی طرح مست رہے تو امید ختم ہوجائے گی دنیا کی قومیں ایسی تباہی سے مٹ چکی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں سنجیدگی سے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں حقائق پیش کرنا ہوں گے اور کسی مصلحت سے کام نہیں لینا چائیے ۔ہمیں سوچنا ہوگا کیا ہمیں کاربن کا اخراج کم کرنا ہے یا ہم ایسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جیسی ہم جی رہے ہیں؟ کیا ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیئے کچھ چا رکھا تھا کہ نہیں تو ہم آئندہ نسلوں کے لئے اپنے پیچھے کیا چھوڑ رہیں ہیں ۔انہوں نے ہمارے لیئے سب کچھ محفوظ رکھا کیا ہمارے لیئے ماحول پروری ممکن نہیں ہے؟ اور کیا ہم ایک تنگ و محدود سیارے پر لامحدود اقتصادی ترقی کی خواہش میں زندگی کو داؤ پر لگا سکتے ہیں؟
ہم میں سے دنیا کی ایک فیصد امیر ترین آبادی اتنا کاربن کا اخراج کرتی ہے جتنا کہ دنیا کی غریب آبادی کا نصصف اخراج کرتی ہے جن کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے ان کے پاس تو شاید امید وہ چیز نہیں ہے جس کی آپ کو سب سے زیادہ ضرورت ہو یعنی دوسروں کو آرامدہ زندگی فراہم کرنے کی خواہش ۔
ہاں ہم سنتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے حوالے سے کچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ کچھ ممالک اور علاقے کاربن کے اخراج میں حیرت انگیز کمی کی خبر دے رہے ہیں۔ کم از کم ان سالوں میں جب دنیا نے پہلی بار اُن اہداف کی بات چیت شروع کی جو عالمی پیمانے پر مقرر کیئے گئے تو اس میں مثبت پیش رفت دیکھی گئی۔
ہماری ریاست میں اڈھائی ہزار سے بھی زیادہ NGO رجسٹرارڑ ہیں ان کو کام پہ لگا جائے اور دیگر لوگوں کی شمولیت بڑھادی جائے ۔ سال بھر میں دو علامتی دن مناکر اپنے آپ کو زمہ داری سے آزاد تصور نہیںکیا جائے آج نہیں تو کل جواب دینا ہوگا۔
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں