0

حکام اور عوام سے…. ٹریفک حادثات روکئے!

ش م احمد سری نگر
7006883587

حال ہی میں شہر سری نگر کے مضافات ٹینگہ پورہ میں اپنی تیز رفتار گاڑی مہندرا تھار میں سوار دو نوخیز لڑکے ایک دہلانے والے اور ڈراؤنے سڑک حادثے میں برسر موقع کام آگئے‘ تیسرے زخمی لڑکے کا علاج ومعالجہ ہورہاہے‘ اُس کی شفا یابی کے لئے جا بجا دعائیں ہورہی ہیں۔ ہم سب کی دعائے قلب ہے کہ اللہ تعالیٰ زخمی لڑکے کی چڑھتی جوانی پر رحم فرمائے‘ اُسے صحت یاب ہوکر ہنسی خوشی گھر لوٹا دے اور جن دونوعمر لڑکوں نے موت کا بے رحم پیالہ پی لیا‘ وہ ننھے فرشتے جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوں ‘ اُن کے غم زدہ والدین اور دیگر سوگواروں کو صبر وسکون عطا ہو۔
اس وقت سوشل میڈیا سے لے کر مین اسٹریم میڈیا تک میںسال ۲۰۲۴میں سری نگر میں اپنی نوعیت کا یہ ڈراؤنا ٹریفک حادثہ گرماگرم بحث ومباحثہ کا موضوع بناہوا ہے۔ میرواعظ ِکشمیر ڈاکٹر عمر فاروق صاحب‘ مفتیٔ اعظم ناصرالاسلام صاحب‘ دیگر علمائے کرام ‘ خطیبوں‘ ائمہ مساجد ‘ سماجی وسیاسی شخصیات سے لے کر ایس ایس پی ٹریفک سری نگر اور عوام الناس تک سب نے اس الم انگیزحادثے پر نہ صرف دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور غم زدہ خاندانوں سے تعزیت پرسی کی بلکہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں بعض
سر بر آوردہ شخصیات لوگوں کو آئندہ ایسےقابل صد تاسف جانی نقصانات سے بچنے کی زور دار فہمائشیں بھی کر رہے ہیں ۔ انتظامی مشنری کے متعلقہ ذمہ دارن‘ مذہبی علما اور سماجی اصلاح کار بیک زبان والدین کوشدومد سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ از راہِ کرم اپنے نابالغ اور معصوم بچوں بچیوں کی زندگیاں داؤ پرنہ لگائیں ‘ اُن کی ضد اور ہٹ کے باوجود اُنہیںقطعی طورگاڑی‘ سیکوٹی اور بائیک سے دور رکھئے‘ ایسی ناعاقبت اندیشی اور حماقت آمیزی سے ہر قیمت پر اجتناب کر یئے۔ محکمہ ٹریفک پولیس نے انسدادی تدبیر کے طور یہ برمحل اقدام کیا ہے کہ اب سے کم سن اسکولی بچوں بچیوں پر گاڑی یا سیکوٹی چلا نے کی سخت ممانعت عائدہوگی ‘ جس کسی بچے یا بچی کو اس سرکاری ہدایت کی حکم عدولی کرتے پایاجائے گا‘اُس کے والدین کو اپنے تجاہل ِ عارفانہ کا خمیازہ اُٹھاتے ہوئے جیل تک کی سزا ہوگی اور جرمانہ بھی الگ سے بھگتنا ہوگا۔ اس طرح کی دفاعی حکمت عملی وقت کی اولین پکار ہے ۔ عام لوگ محکمے کی اس موثر کارروائی کا دل سے خیرمقدم کرتےہیں ۔اُمید کی جارہی ہے کہ یہ پالیسی من وعن بغیر کسی رُورعایت کے عملائی جائے گی ‘ خاص کرایسے کم عمر اور بغیر ڈرائیونگ لائسنس لڑکوں لڑکیوں پر کریک ڈاؤن جاری رکھا جائے گا جو سیکوٹیوں‘بائیکوں اور گاڑیوں میں سوار ہوکر اپنی جان کے ساتھ ساتھ اوروں کے لئے بھی شامتوں کا سبب بن جاتے ہیں ۔اس حکم نامے کو ہر جگہ سختی سے عملایا جانا چاہیے تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔
یہ ایک مبنی بر حقیقت عام مشاہدہ ہے کہ کشمیر میں صبح وشام ٹریفک حادثات کی بھرمار ہونےکے سبب سال ہا سال سے موت کا ننگا ناچ سڑکوں پر جاری وساری ہے ۔ حد یہ ہے کہ اب ان حادثات کا کوئی نیوز ویلیو بھی نہیں رہا۔ یہ معمول کا قصہ ہے کہ روز کئی جانیں سڑک حادثوں میں تلف ہورہی ہیں‘ ایسی ہلاکتوں سے قبرستان بھی آباد ہورہے ہیں ‘ ہسپتالوں میں متاثرین کے رَش میں بھی روز افزوں اضافہ ہو رہاہے ‘ زخموں سے چُور لوگوں کے لئےجسمانی معذوریوں کے ساتھ جینے والوں کے لئے زندگی موت سے بدتر ہورہی ہے۔
بہر کیف شایدہی کوئی ہفتہ عشرہ گزرتا ہوگا جب روڑ ایکسڈنٹوں سے متاثرہ خانوادوں کے لئےزندگیاں یک قلم ماند پڑنے کے قصے زبان زد عام نہ ہوتے ہوں ۔ کبھی کبھار یہ بھی دیکھا اور سنا جاتا ہے کہ حادثے میں بچ جانے والے زخمی شفا سے زیادہ موت کے لئے اللہ کے حضور دعاگو رہتے ہیں تاکہ جن عزیزوںپر ایسا بد نصیب مریض ہمہ وقت بوجھ بنا ہوا ہو‘ وہ اس درد وکرب سے چھٹکارا پاسکیں ۔ سڑک حادثات کا یہ دردِ لاعلاج آخر کب تلک ہمارے تعاقب میں یو نہی بھٹکا رہےگا؟
سڑک حادثات کے حوالے سے گھمبیر صورت حال کی جھلک دیکھنی مطلوب ہوتو صدر ہسپتال سری نگر‘ شیر کشمیر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ صورہ سری نگر‘ ضلعی ہسپتالوں کے شعبہ ٔ حادثات جاکر وہاں کوئی چوبیس گھنٹے نہیں بلکہ صرف ایک آدھ گھنٹہ ایکسیڈنٹ متاثرین کی ہمہ وقت آمد ورفت کا آنکھوں دیکھا حال برداشت کرنے کا کشٹ کیجئے‘ پتہ چلے گا کہ کشمیر کے اطراف واکناف میں سڑک حادثات کی گویاآندھی چل رہی ہے اورلگتا ہے جیسے یہاںجابجاانسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کر نے کی ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ افسوس کہ ہمارے یہاں ہر شئے رُوبہ زوال ہے مگر اس نوع کے جان گسل حادثات کا ہیبت ناک سلسلہ تسلسل کے ساتھ رُوبہ ترقی ہے۔آپ کو غیر مختتم سڑک حادثات کے نذر ہونے والے خون سے لت پت بے حس وحرکت لاتعداد انسان ہسپتال کے بیڈ پر کوما میں پڑے ملیں گے ‘ آ پ یہ بھی دیکھیں گے کہ زخموں کی تکلیف اور درد کی ٹیسوںسے جھوج رہے ایسے جان بلب مریضوں کی چیخ وپکار سے فضا سوگواری میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آپ کھلی آنکھ سےیہ مشاہدہ بھی کریں گے کہ کیجولٹی میں تعینات ڈاکٹروں کو حادثہ زدہ مریضوں کے دوادارو میں مشغولیت کے سبب سر پھرنے کی بھی فرصت نہیں ۔ جب آپ دیکھیں گےکہ ایک ہی بیڈ پر ایکسیڈنٹ زدہ دو دو مریض درد سے کراہتے ہوئےدُہائیاں دے رہے ہیں ‘ اورکوئی کوئی کم نصیب مریض بیڈ نہ ملنے کے سبب فرش پر لیٹا ہواہے جیسے قبر کے دہانے کھڑا ہوا چاہتاہے‘ تیمارداروں کے بجھے چہرے اور چہار جانب آہ وبکا کی غم ناک صدائیں آپ کو الگ سے بے حال کر کے چھوڑیں ‘ ؤپ ان بے رحم مناظر سے مایوس ومغموم نہ ہوں ‘ ایسا ممکن ہی نہیں ۔ آپ کا تو کلیجہ منہ کو آئے گا۔ آپ کتنے ہی باہمت انسان یا سنگ دل آدمی ہوں ‘ان قیامت خیز حادثاتی صدمات کی مہیب تصویریں دیکھ کر آپ وہاں زیادہ دیر ٹھہرنے کی جرأت سے خود کو محروم پائیںگے‘ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے دبڈبا جائیں گی‘ آپ کا دل بیٹھ جائے گا ‘ آپ ذہنی طور درد وکرب میں ڈھلے اس پُر تناؤ ماحول میں اتنا ماؤف ہوجائیں گے کہ سوچ کا دروازہ خود بخود مقفل اور عقل کی کھڑکی خودبخود بندہو جائےگی‘ اور اگر آپ کچھ زیادہ ہی حساس طبع واقع ہوئے ہوں تو دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی پریشاں حالی کی ان غم ناک جھلکیوں سے دل برداشتہ ہوکر شاید دنیا سے سنیاس لینے تک کی سوچیں گے اور آپ سمجھ ہی نہ پائیں گے کہ جو نیم مردہ حالت ِغشی میں خاموش ہے اور جو درد سے کراہ رہاہے اس کی چیخوں کا مدعا کیا ہے ؎
صوت کیا شئے ہے خامشی کیا
غم کسے کہتے ہیں خوشی کیا ہے
خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ دیجئے کہ ہمارے یہاںجب ٹریفک حادثات کے حوالے سے زمینی حالات اتنے ہوش رُبا ہوں توکیا یہ ہماری اجتماعی پکار نہیںہونی چاہیے: بس کیجئے‘ بہت ہوا‘ سڑکوں پر موت کا تانڈو بند کیجئے ‘ ریش ڈرائیونگ فوراً ترک کیجئے ‘ بلا لائسنس گاڑیاں سیکوٹیاں بائیک چلانے سے اپنے ساتھ ساتھ راہگیروں کو اپاہچ بناکر زندہ لاشوں کی تعداد بڑھا نے کا شیطانی مشغلہ روک دیجئے۔ شاید زیادہ تر حادثات کے اصل ذمہ دار آوارہ گرد لونڈے لفنگے جانتے بھی نہ ہوں گے کہ اُن کے لمحاتی پاگل پن سے کسی گھرانے کاواحد کماؤ فرد موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لئے سوگیا ہے یا پھرعمر بھر کے لئے ناقابل ِ مندمل زخموں کی بھینٹ چڑھ کر گویا اس کاپورا گھرانہ قبر میں زنددفن ہوچکاہے یا اُن کی احمقانہ ہیروگری سے کو ئی شخص چلتی پھرتی بے کفن لاش بنا مر مر کے جی رہا ہے ۔ بہر صورت اگر ہماری انسانی روح میں زندگی کے آثار باقی ہیں تو آج تک جو ہوا سو ہوا‘ اب آگے دونوںحکام اور عوام کے لئےروڑ ایکسیڈنٹوں کا بے قابو سلسلہ روکنا پہلی اخلاقی و انسانی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہمارے لئے تکریمِ حیات کا تقاضا یہ ہے کہ حادثات سے بچاؤ کام بہت بڑی عبادت ہے اور ہمیں فوراً سے پیش تر اسے خلوصِ دل سےادا کرنا چاہیے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ اہم فریضہ سرانجام دینے کی ذمہ داری کس کے سر ہے ؟ صرف محکمہ ٹریفک پولیس کے سر؟ صرف عوام الناس( والدین ) کے سر؟ یا دونوں کے سر؟ ہم اگر آنکھ بند کر کے یہ کہیں کہ حادثات کے تواترکو روکنے کی ذمہ داری صرف ٹریفک محکمہ پر عائد ہوتی ہے تو میری دانست میںیہ آدھا سچ ہوگااور غیر منصفانہ بات بھی۔پورا سچ اور کھرا انصاف یہ ہے کہ ٹریفک محکمہ چاہے اپنے فرائض اور ذمہ داریاںکتنی ہی خوش اسلوبی سے انجام د یتارہے ‘ حادثات کا منحوس سلسلہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ دے گا تاوقیکہ محکمہ کی فرضی شناسی کے پہلو بہ پہلو لوگ بھی فرض شناسی اور باشعور شہری ہونے کا ثبوت نہ دیں۔ ٹریفک پولیس کے پاس ٹریفک کی نقل وحرکت ریگولیٹ کر نے کے لئے منضبط رولز ہیں ‘ ا س حوالے سے محکمہ لا محدوداختیارات بھی رکھتا ہے مگر ان کے یہاںکوئی ایسا جادوئی چراغ ابھی دریافت نہیں ہوا کہ رگڑ تے ہی فرض ناشناس لوگوں کو سڑک حادثات کےجان لیوا سلسلے کا محرک ہونے سے روکاجاسکے‘ یہ جبھی ممکن ہے جب ہم سب لوگ ذمہ دار شہریوں کی حیثیت سے انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر خود ٹریفک رُولز پر بصدق دل عمل درآمد کرنے والے بنیں۔ اگر بالفرض ہم خود ٹریفک رولز پر سنجیدگی سے عامل ہو نےکو تیار ہی نہ ہوں ‘توہم کسی بھی جادو منتر سے حادثات کےبھوکے دیو کے منہ سے ھل من مزید کی بدصوت مطالبے کی تکرارسے بچ نہیں سکیں گے۔ڈرائیور جو کوئی بھی ہو ‘ چھوٹا ہو یابڑا‘ تجربہ کار ہو یا اناڑی ‘ لائسنس والا ہو یا بنا لائسنس کے ‘ جب تک وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اپنی زندگی کے علاوہ دوسروں کی زندگی سے پیار کر نے والا با ہوش وحواس انسان نہ ہو‘ محکمہ ٹریفک کی فرض شناسی ‘ چالانیں جرمانے ‘ قواعد وضوابط کی گردانیں بے اثر اور صدابہ صحرا ثابت ہوں گی اور اس کی ساری کی ساری سائنٹفک خطوط پر ترتیب دی گئی ٹریفک پلاننگ دھری کی دھری رہ جائے گی۔
تصویر کا یہ رُخ بھی ملاحظہ کریں کہ ایک طرف تانگوں کے لئے موزوں ہماری سو سال پرانی مصروف سڑکیں مزید تنگ اور خستہ حال ہوچکی ہیں ‘اوپر سے شہر سری نگر کی تزئین کاری کے ضمن میں فٹ پاتھوں کو جگہ جگہ توسیع دے کر سڑکوں کو مزید سکیڑا گیا ہے ۔ لطف یہ کہ مصروف سڑکوں کے توسیع شدہ فٹ پاتھوں کو اب زیادہ تر لوگ پارکنگ کے ساتھ ساتھ انہیں دوکانداراپنا مال واسباب سجانے کے کام میں لارہے ہیں۔ زیادہ ترفٹ پاتھ خود غرض دوکانداروں کے تصر ف میں آ جانے سے ‘ ریڑھی والوں اور خوانچہ فروشوں کے ان پر ناجائز قبضے جمائے جانے سے اول شہر کی تزئین کاری کا میگا پروجیکٹ ناکام نظر آرہاہے‘ دوم ٹریفک کی آسان نقل وحرکت اب مکمل طور دیوانے کی بڑ لگ رہی ہے ۔ اُدھروہیکل پالولیشن کا بڑھتا ہوا شہمار بھی پھن پھیلائے ہمارے روڑ وائیڈننگ پلانوں او رپروجیکٹوں کو ڈس رہاہے ۔اِ دھر شیطان کی آنت کی مانند بڑھتے ہوئے ٹریفک مسائل سے موثر طور نمٹنے کے لئے درکار ضروری افرادی قوت یعنی ٹریفک عملے کی انتہائی کمی زمینی حالات کو مزید گنجلک بنارہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عوام بھی سیف ڈرائیونگ کے اُصول وضوابط کی کھلے عام دھجیاں بکھیرنے کا ناہنجار سلسلہ چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ اس دھماچوکڑی میں محکمہ ٹریفک کی جانب سے ٹریفک منیجمنٹ کا نظام جوں توں چلانا واقعی کسی معجزے سےکم نہیں۔ ایسے میں اگر سرکاری سطح پر لاکھ رروکے حادثات سلسلہ تھم جانے کا نام نہ لے تو کسی کو کوئی حیرانگی نہیں ہونی چاہیے۔ ٹریفک پولیس محکمہ نے ٹریفک اصول وقواعد کی خلاف ورزیوں کا موثر سدباب کر نے کے لئے ایک بہترین اور مبارک اقدام یہ بھی کیا کہ محکمہ نے اپنا وٹ از ایپ ہیلپ لائین لانچ کرکے لوگوں کو سہولت دی کہ وہ محکمہ کو آن لائن ایسی تمام خلاف ورزیوں سے آگاہ کریں جو اکثر حادثات کا سبب ومحرک وسبب بنتے ہیں ۔ یہ عوامی مفاد میں اٹھایا گیا اچھا قدم ہے۔ اس سہولت سے محکمے کوعوام کا اشتراک ہی نہ ملے گا بلکہ ہم سب ا یک کنبہ بن کر ٹریفک حادثات کے چنگل سے بچ پائیں گے۔
بے شک سری نگر میں پیش آئے زیر بحث دلدوزحادثے نے خصوصیت کےساتھ وقتی طور تمام لوگوں کو ہلا کر رکھ چھوڑا ۔ اس حادثے کی جوخوفناک فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی‘ اس سے پورے کشمیرمیں صف ِماتم بچھ گئی‘ البتہ وہ لوگ ( نودولیتے) غم وغصہ کا ہدف بنے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ سڑک حادثات معمول کا حصہ بن چکے ہیں‘ پھر بھی وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو قیمتی گاڑیاں دے کر شوق سے اُن کی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہو نے کے مجرم بن جاتے ہیں ۔ چنانچہ تازہ حادثے پر عام لوگ جہاںگاڑی چلا نے والے کم فہم وکم سن بچوں کی دلخراش ہلاکتوں پر اشک بار ہیں ‘ وہیں اُن کے بے فکر گھروالوں کو دل ہی دل کوستے ہیں کہ انہوں نے بچوں کے بارے میں لاپرواہ ہونے کو کس پیمانے سے لاڈ پیار کا متبادل سمجھا ۔ تمام باشعور والدین کے اعصاب پر یہ حادثہ بھاری پڑا ہوا ہے اور ہونا بھی چاہیے‘ خاص کر ان کی فکرمندیاں بڑھنی چاہیں جن کے بچے اور بچیاں بائیکوں اور کاروں میں سکول کالج اورٹیوشن سنٹرجانے اور بلا ضرورت گھومنے پھرنے کے عادی ہو چکے ہیں ‘جو شوقیہ طور ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنی رفتار اتنی تیز کردیتے ہیں جیسے ہوا سے باتیں کرتے ہوں ‘وہ سر را ہ موج مستیاںکر نے سے بھی نہیں شرماتے ‘ بے تکلف ہوکر اور نتائج سے بالکل بے نیاز ہوکر موبائیل چلاتے ہیں‘ بیچ سڑک سٹنٹ کرنےکی دیوانگی کرتے رہتے ہیں ۔تازہ تکلیف دہ حادثے نے خاص کر اُن ماؤں کی پریشانیاں‘ ذہنی عذاب اور نفسیاتی بیماریاں بڑھادی ہیں جن کی بگڑی اولادیں دن بھر گاڑیوں ‘ بائیکوں اور سیکوٹیوں میں آوارہ گردی کرتے پھرتے ہیں ۔ ان کی حوصلہ شکنی کے لئے سرکاری سطح پر امن وقانون لاگو کر نے والی ایجنسی کو مزید فعال اور متحرک کر نا سڑک حادثات روکنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو خدانخواستہ ٹینگہ پورہ سری نگر جیسے ڈراؤنے حادثات قصہ پارینہ نہ ہوں گے بلکہ ان میں اضافہ دراضافہ ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں