تجزیہ کار: اشہرؔ اشرف
ادب خواہ نثری ہو یا منظوم، ہر دو صورت میں تخلیقت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ معیار کو بنیاد بنا کر ادب کی درجہ بندی تو کی جاسکتی ہے لیکن زمرہ بندی قطعی ممکن نہیں ہے۔ ادب نہ حقیقت کی ہوبہو عکاسی کا نام ہے نہ براہ راست کسی صورتِحال یا واقعہ کے بیان کا۔ اگر ایسا ہوتا تو ادبی زبان اور صحافتی زبان کے مابین حدِ فصیل کھینچنا ممکن نہ تھا۔صحافت اور کہانی گوئی میں صاف اور شست زبان کا استعمال کیا جاتا ہے جو سامع یا قاری کو بغیر کسی ابہام اور الجھن کے حقیقتِ حال اور ممکنہ واقعہ سے آگاہ کرے۔ جب کہ تخلیقی ادب زبان و بیان اور اظہارِ خیال کی تخلیقی خصوصیات سے مزین ہوتا ہے۔ تشبیہات و استعارے، اور علامات و ادبی محاورات تخلیقی زبان کی بنیادی اور اہم خصوصیات ہیں۔ ان کے بغیر کسی فن پارے کی تخلیقی اہمیت اور معیار کا تعین کرنا لاحاصل بحث ہے۔ یہیں وہ محرکات ہیں جن کی بنیاد پر ہر حقیقت پسند محقق و ناقد کے نزدیک ہر منظوم تحریر شاعری نہیں ہے اور نہ ہر ایک بیانیہ افسانہ کہلاتا ہے۔ یاد رہے، ادب محض ذریعہ ترسیل نہیں ہے بلکہ انسانی قلب و ذہن کے لئے فرحت بخش ہونے کے ساتھ ساتھ غور و فکر کی صلاحیتوں کو متحرک کرنے کا وصیلہ بھی ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ صحافتی اور ترسیلی تحریر کے لئے حالات اور واقعات کے علم کے علاوہ ظاہری آنکھ اور بصارت کا ہونا ضروری ہے جب کہ تخلیقی تحریر کی تعمیر کے لئے گہرے مشاہدے اور فکری بصیرت کے ساتھ ساتھ مطالعہء کائنات بنیادی اینٹیں فراہم کرتا ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ شعری تخلیقات کی بات کی جائے تو شاعر کا متعلقہ زبان کے قواعد و ضوابط کا علم اور اصولِ تقطیع و بنیادی بحور سے آگہی کے علاوہ شعری رموز پر نظر ہونا ضروری ہے۔ ایک تخلیق کار کی زبان جس قدر فصاحت و بلاغت کی حامل ہوگی اس قدر تخلیق کا معیار و مقام بلند ہوگا۔ شعر میں جتنی خوبصورتی کے ساتھ علمِ بدیع کو برتا جائے اس قدر معنوی تہہ داری کی فضا قائم ہوگی۔ کلاسکی شاعری کا حوالہ اسی لئے آج بھی دیا جاتا ہے کہ اس میں صنعت گری کا برجستہ و بر محل استعمال ملتا ہے۔ یہ علمِ بدیع کا ہی کمال ہے کہ صدیوں بعد بھی شعر کی اہمیت و معنویت برقرار رہتی ہے۔ موضوعات کی نوعیت خواہ قدیم ہو یا جدید، پیشکش میں انفرادیت اور انداز بیان میں ندرت اور تازگی کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔ جب معاصر اردو شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو بہت کم شعراء کا کلام مذکورہ خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے۔ ان میں ریاستِ جموں و کشمیر کی نئی نسل کے نمائندہ شاعر جناب سلیم ساؔغر ہر اعتبار سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں روایت کی پاسداری بھی ملتی ہے اور جدت طرازی کی اعلی مثالیں بھی موجود ہیں۔ یہ جدت عروض اور آہنگ کو مجروح کر کے پیدا نہیں کی گئی بلکہ شعری رموز کا خوبصورت و برجستہ استعمال شعر میں ظاہری حسن و نزاکت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ معانی و مطالیب کے کئیں دریچے وا کرتا ہے۔ سلیم ساغؔر ایک ماہر طبیب کی طرح الفاظ کے نباظ شناس ہیں۔ معنوی سطح پر الفظ کی کاری گری سے مُخْتَلِف النَّوْع تصاویر بنانے میں انھیں ملکہ حاصل ہے۔ الفاظ کے معمولی سے ہیر پھیر سے کلام میں نئے نئے زاوے پیدا کرنا ان کا خاصا ہے۔ بقولِ میرؔ؎
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیےگا۔ سلیم ساؔغر کی بیشتر شاعری پڑھ کر ایک ذی حس و باذوق قاری حقیقت میں دیر تک سر دھنتے رہے گا۔
سلیم ساؔغر کے اب تک تین عدد شعری مجموعے مصنہء شہود پر آکر ہر حلقہء ادب سے وابستہ قارین سے دادِ تحسین پا چکے ہیں۔ پہلے دو شعری مجموعے اب تک میری نظر سے نہیں گزرے لیکن ان کا تیسرا مجموعہ کلام بعنوان ” برگِ نوا” حال ہی میں ایک مختصر سی ملاقات میں انھونے تحفہ براہِ مطالعہ عنایت فرما کر مجھے محاسن و محاکات سے بھر پور معیاری شاعری سے آشنا کرایا۔ مذکورہ مجموعے کا عنوان ہی اس کے معیار اور شعری شش جہات کی غماز ہے۔ سلیم ساغر کو نہ صرف زبان و بیان پر دسترس حاصل ہے بلکہ ان کی خاموش طبیعت میں ایک ہمہ گیر فکر انگیز سنجیدگی بھی ہے۔ ان کے یہاں داخلی کرب و اندوہ کے پہلو بہ پہلو اجتمائی شعور کی حامل خارجی کشمکش بھی ہے جو جمود کے بجائے تحریک بخش ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ موصوف کسی خطیب یا واعظ کا رنگ اختیار کرتے ہیں بلکہ موضوع کسی بھی نوعیت کا ہو ان کے یہاں جمالیاتی حس کہیں بھی مجروح نہیں ہوتی ہے۔ موصوف حسن و عشق، رنج و الم کے علاوہ سیاسی و سماجی شعور سے پیراستہ مضامین کو بھی قلم کی جنبش سے قابلِ توجہ بناتے ہیں۔موصوف متنوع موضوعات کے شاعر ہیں۔ جس میں جہدِ مسلسل بھی ہے سفر کی تھکان بھی۔ خزان کا شکوہ بھی اور امید بہار بھی۔ طنز کے تیر بھی ہیں اور صدائے احتیاج بھی۔ جہاں عشق میں دیوانگی کی حدیں فلانگتے نظر آتے ہیں وہیں حیات و ممات کے قابلِ غور اسرار کی تئیں غور و فکر کی دعوت بھی ہے۔ ان کی شاعری میں موصوف کی ہمہ گیر شخصیت جلوہ افروز ہے۔ ان کا کلام پہلی نظر میں بلاشبہ مشکل پسندی کا عندیہ دیتا ہے لیکن باریک بینی سے غور کیا جائے تو مشکل و دقیق مضامین سے معانی و مطالیب کے کئیں ایک چشمے ابلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علم بدیع کا خوبصورت استعمال ان کے کلام کو کثیر الجہات بنانے میں کار فرما ہے۔ کہیں کہیں ایسا ابہام پیدا ہوتا ہے کہ قاری شعر کی معنوی جہتوں میں الجھ کر رہتا ہے۔ میں اپنے دعوے کی دلیل میں ” برگِ نوا” میں شامل پہلی غزل سے درج ذیل اشعار بطورِ نمونہ پیش کرتا ہوں۔
کسی طلسم سے کوئی عدو نہیں کھلتا
غبارِ دشت پہ رازِ نمو نہیں کھلتا
بظاہر طلسم، عدو اور غبارِ دشت و نمو عام بول چال میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ محض عروض کی پابندی میں رہ کر ایک آہنگ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب مذکورہ اصطلاحوں کی معنوی جہات پر اور شعر میں ان کی ترکیب و تنظیم سازی پر غور و فکر کرتے ہیں تو شاعر کی قادر الکلامی کا اعتراف کئے بغیر آگے بڑھنا دشوار ہوتا ہے۔ ایک ماہر فنکار کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کی در و بست کا اس طرح خیال رکھتا ہے لاکھ کوشش کے بعد بھی کوئی تفاوت نظر نہیں آئے۔ اتنا تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ انسان جس معاشرے میں سانس لے رہا ہوتا ہے وہاں اس کے آس پاس اپنے بھی ہوتے ہیں اور بیگانے بھی۔ بظاہر تو زندگی کے معاملات میں ہر کوئی اپنا پن اور ہمدردی دکھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن درونِ صدر کیا چل رہا ہوتا ہے یہ جاننے سے ہر کوئی قاصر ہے۔ بقولِ سلیم ساغرؔ کہ یہ کوئی ایسا معمہ تو نہیں ہے کہ جو کسی جادو یا سحر سے کھول دیا جائے۔ جب شعر کا دوسرا مصرع دیکھتے ہیں تو شاعر کا کمال نکتہ عروج پر نظر آتا ہے۔ یعنی جس طرح شبدہ بازی یا سحر انگیز گفتگو یا پھر کسی جادو ٹونہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان دشمنوں یا اپنے مخالفین کا پتہ لگائے اسی طرح غبارِ دشت یعنی ویراں و بیابانوں کی مٹی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ لذتِ افزائشِ گل و بوٹے سے آشکار ہو جائے۔ یہاں اگر صنعتِ ایہام کو خیال میں رکھا جائے تو شعر کے معانی غبارِ دشت کی قید سے نکل کر خود غرض اور مادہ پرست انسانی معاشرے کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتے ہیں۔ جس طرح پھول و پھل اور اناج اگانے کے لئے زمین کا نم ہونا اولین شرط ہے اسی طرح افزائش انسان کے لئے آدمی کے دل و نگاہ کے پاک ہونے کے علاوہ خیالات و نظریات کا ذرخیز ہونا لازمی ہے۔
سلیم ساغؔر خاموش طبع انسان ہیں جو انھیں ہر وقت اپنی اصل کی جستجو میں محوِ سفر رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں حسن و عشق جیسے آفاقی مضامین کے پہلو بہ پہلو تصوف یا تصوف آمیز اشعار کی خاصی تعداد نظر آتی یے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجے۔
رہِ سلوک میں عمریں گزار آئے ہیں
دل و نظر پہ ابھی اسمِ ھو نہیں کھلتا
زمین زاد ہیں، کبر و ریا سے نفرت ہے
آئے جو وجد میں سرِ محشر فقیرِ مست
جاہ و حشم ہی دیکھے نہ محضرِ فقیرِ مست
ڈالے دھمال، وہ بھی سرِ انجمنِ خرد
کر لے وہ بات جس کا ہے خو گر فقیرِ مست۔
متاعِ فقر و غنا سے دل مطمئن ہے میرا
گلہ جو مجھ کو ہے آسماں سے ذرا الگ ہے
میں دل کی سوچوں ‘ملالِ سود و زیاں ہے تجھ کو
کہ میری دنیا ، ترے جہاں سے ذرا الگ ہے
دولتِ فقر و فاقہ مری جائداد ہے
میں اس میں خود کفیل ہوں اجداد سے الگ
سلیم ساغرؔ کی شاعری فکر و فن اور شعور و آگہی کی غماز ہے۔ اگر چہ انھیں ہر صنفِ سخن پر یکساں دسترس حاصل ہے لیکن غزل اور رباعی ان کی طبیعت کو راس آئے ہیں۔موصوف داخلی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ خارجی کمشکش و ذاتی مشاہدات و تجربات کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ شعری پیکر میں پیش کرنا خوب جانتے ہیں۔ موصوف مُقتَضِیات سخن سے آشنا ہیں۔ اپنے شعور و ادراک کو بروئے کار لاکر غزل کو جدید تقاضوں اور مطالبات سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف النوع رنگ بھرنے میں مصروف ہیں۔ ‘برگِ نوا میں شامل بیشتر غزلیں اس امر پر دال ہیں۔ چند ایک اشعار بطورِ نمونہ ملاحظہ کیجے۔
عریانئی وجود ذرا آبرو تو ہو
چاکِ قبا میں صورتِ کارِ رفو تو ہو
شاخِ و شجر پہ صحنِ چمن میں نمو تو ہو
کوئی نشانِ فصلِ گلِ مشک بو تو ہو
وہ تند خو اگر چہ بہت بدگماں سہی
گویا تو ہو کبھی وہ کہیں رو بہ رو تو ہو
اک گوشہء مشکبار بنے آرزو سے دل
یہ دل کی آرزو ہے دلِ آرزو تو ہے
چاہے نصیب ہو نہ چمن تا حد نگاہ
اک کنجِ ریگ زار میں جام و سبو تو ہو
متذکرہ بالا غزل کے تمام اشعار ایک طرف کلاسکی شعری روش کے ساتھ پیوستہ ہیں تو دوسری جانب مضامین و ندرت بیان کے اعتبار سے جدت سے لبریز ہیں۔ مقطع کا یہ شعر ایک طرف موصوف کی فطرت کو درشاتا ہے تو دوسری طرف معاصر انسانی رویوں اور دنیاداری کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔
آخر ہے یہ بھی مظہرِ ہستی کا ایک روپ
ساغؔر برائے نام سہی رنگ و بو تو ہو۔
وہ خال و خدِ حسن کی تمثیل نہ ہو
چشمِ تخیلات میں تشکیل بھی نہ ہو
دل میں ابھارتا ہے کوئی بے خودی میں سر
احساس اس طرح کہ ترسیل بھی نہ ہو
سلیم ساؔغر خالق سے شکوہ کناں بھی ہیں اور دنیا میں اپنے وجود پر نازاں بھی۔ ان کے نزدیک اگر دنیا سے آدم کو نکالا جائے تو یہ پھر ویراں اور بے رونق ہوجائے گا۔ موصوف کو گلہ ہے کہ وجودِ آدم سے دنیا میں چہل و پہل اور ہنگامہ آرائیاں قائم ہیں اور آدم زاد ہی معاصر دنیا میں سب سے ارزاں و بے مروت ہے۔ اتنے بڑے فلسفے کو محض دو مصرعوں میں اس قدر خوبصورتی سے سمیٹنا سلیم ساغرؔ کی سلیقہ شعاری پر دال ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
متاعِ زیست ہمیں، زیبِ داستاں ہم ہیں
الگ یہ بات کہ حد درجہ رائگاں ہم ہیں
لپٹ کے بیٹھ نہ جانا نشانِ خیمہ
غبارِ دشت نہ تکنا کہ بے نشاں ہم ہیں
ہر ایک بوند میں پنہاں وسعتِ دریا
سمیٹ کون سکے گا کہ بے کراں ہم ہیں
ہماری یاد دلاتے ہیں تاج و تخت کئی
جہاں میں ہے جو کہیں کوئی بے اماں ہم ہیں
جس طرح ہر شادی شدہ آدمی اپنی شریکِ حیات سے شکوہ کناں و بدگماں نظر آتا ہے ٹھیک اسی طرح ہر شاعر کو زندگی سے نالاں پایا۔ جہاں غالبؔ کو پچاس سالوں سے قیدِ ازدواج میں بندھے رہنے کا گلہ رہا وہیں سلیم ساغرؔ جیسے خاموش طبیعت اور کم گو شاعر کو بھی سفرِ حیات کی پُر خار راہوں پر چلنے کا رنج ہے۔ جہاں ان کی ہر خواہش کی تکمیل کی راہ میں کوئی غیر مرئی طاقت آڑے آئی۔ یہاں قابلِ غور امر یہ ہے کہ یہ رنج و ملال ان کے واسطے جمود کا موجب نہیں بنتا ہے بلکہ باوجود ناکامیوں کے موصوف آنے والے کل سے خوش گماں ہیں۔ اس قبیل کے درج ذیل اشعار سے حظ اٹھائے۔
ہر ایک موڑ پہ تجھ سے ہزار رنج ملے
رہِ حیات مگر پھر بھی خوش گماں ہم ہیں
ابھی تو دشت و گریباں ہیں موجِ برہم سے
مگر یقین ہے اتنا کہ کامراں ہم ہیں
غزل قدیم ہو یا جدید، اگر تذکرہء حسن و عشق اس سے نکال دیا جائے تو یہ بے ثمر و سایہ شجر کی مانند اپنی طرف متوجہ تو کر سکے گی لیکن متاثر نہیں۔ عشق شاعری میں ایک آفاقی و لامتناہی موضوع ہے۔ اس سے کسی ناقد کو انکار نہیں ہے۔ یہ رنگ و نسل اور زمان و مکاں کی طرح معانی و مطالب کی قیود سے بھی مبرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں یہ شعراء و داستاں گوؤں کا مرعوب موضوع رہا ہے۔ حسن و عشق کی رعنائیاں اور دل فریب یاں ہر شاعر کے یہاں ممتاز مقام پر نظر آتی ہیں۔ تو آئے دیکھتے ہیں کہ سلیم ساغرؔ کے یہاں عشق کون سی صورت لئے جلوہ افروز ہے۔
محتاظ باش کھیل نہیں یہ بیانِ عشق
موجود زیرِ دامِ بلا ہے جہانِ عشق
کم دو جہاں ہیں شیر گاہِ عشق کے لئے
سمجھے گا کون حرمتِ آوارگانِ عشق
دنیائے بےکراں ! تری وسعت سے بے نیاز
گوشہء دلِ صمیم میں ہے وہ جہانِ عشق
میزانِ خرد و ہوش ادھر کام میں نہ لا
ہر شے سے بے نیاز ہیں یہ رہ روانِ عشق
یہ ابتدا سے پہلے یہی انتہا کے بعد
مجبورِ قیدِ وقت نہیں ہے زمانِ عشق
ہر ذرہء کائنات میں ہے عشق کا وجود
ہر ذرہء کائنات یے اک نغمہ خوانِ عشق
دل عشق پیشہ بھی ہے یہ افتاد جاں بھی ہے
سیلِ روانِ تیز بھی کوہِ گراں بھی ہے
اے عشق شاد باش ! مرے دل میں کر بسر
تو درد آشنائے دل ناتواں بھی ہے۔
عشق میں قیمت جاں نہیں دیکھی جاتی
یہ تجارت ہے کوئی سود و زیاں سے آگے
اس کو نصیبِ عشق سے وابستہ کر شمار
بارِ الم نہ ہو کوئی سنگِ گراں سہی
فلسفہ عشق کو بیان کرتے ہوئے موصوف عشق کی ازلی فطرت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جہاں عشق ہے وہاں ہنگامہ آرائی ہے۔ عشق اور سکوں کبھی ساتھ ساتھ نہیں رہتے ہیں۔ عشق ہی وہ عنصر ہے جس سے کائنات متحرک رہتی ہے۔ اس نوعیت کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔
عشق سرکش کو ہے ہنگامہء وحشت زیبا
اس کو بھاتی ہے کہاں بزمِ سکوں آلودہ
مذکورہ اشعار میں موصوف نے فلسفہ عشق کو مخلتف زاویوں سے بیان کیا ہے۔ مطلع میں موصوف خود ہی عشق کی پُر پیچ راہوں کا مسافر ہیں اور خود ہی ناصح۔ اسی لئے آغازِ مصرع ” محتاط باش” کہہ کر کیا۔ یعنی قافلہء عشاق میں شامل ہونے کے لئے انجامِ عشق سے باور ہونا ضروری تو ہے لیکن فکر کرنا نہیں۔ یہاں وہی اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں جنھیں انجام کی فکر نہ ہو۔ اگلے شعر میں اہلِ خرد و عقل کو خبر دار کیا گیا کہ عشق کی تجارت میں سود و زیاں اور نفع و نقصان نہیں دیکھا جاتا ہے۔ رہ روانِ عشق کو دنیا داری اور عقل و خرد کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ یہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر عشق میں غوطہ زن رہتے ہیں۔ موصوف کے نزدیک دنیا کے وجود کی دلیل بھی عشق یے۔ اگر محبوبِ خدا کا وجود مقصود نہ ہوتا تو دنیا کا تصور ممکن نہ تھا۔ اس دعوے کی تکمیل اگلے شعر سے ہوتی ہے۔
ہر ذرہء کائنات میں ہے عشق کا وجود
ہر ڈرہء کائنات یے اک نغمہ خوانِ عشق
عشق کی شش جہات کو موضوعِ شعر بناتے ہوئے سلیم ساغرؔ رقمطراز ہیں کہ عشق کوئی من چاہا عمل نہیں ہے جو ہر کس و ناکس اپنی قوتِ ارادیت سے پانے کی سعیء لا حاصل کرے۔ بلکہ ان کے نزدیک عشق خداد ہے۔ اس قبیل کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے
عشق ہے کارِ خداداد کوئی کھیل نہیں
اور میں کارِ خدا داد سے آگے نہ گیا۔
پیش بندی جو میں کرتا تو یہ تعظیم نہ تھی
مکتبِ عشق میں استاد سے آگے نہ گیا
سلیم ساغرؔ کے یہاں تصورِ عشق انفرادیت سے نمود پاکر اجتمائی رنگ اختیار کر کے پوری انسانیت کو اپنی تحویل میں لیتا ہے۔ اس طرح موصوف انسان اور کائنات کے باہمی رشتے کو استوار کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہاں عشق میں وصل اور ہجر کی کار فرمائی نظر نہیں آتی ہے۔ ان کے نزدیک عشق ایک پاکیزہ جذبہ انسانی ہے جو عبد اور معبود کے تعلق کو استحکام عطا کرتا ہے۔ انسان ایک حیوانِ ناطق ہے۔ یہ دوسرے انسانوں میں رہنا پسند کرتا ہے جہاں کچھ اس کی پسند اور کچھ محبوب چہرے ہوتے ہیں۔ زندگی کے شب و روز اس کے تلخ و شیریں تجربات میں اضافہ کرتے ہیں۔ اب جو تخلیقی جوہر کا خالق ہو وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو حوالہ قرطاس کرکے آگے بڑھتا ہے۔ موصوف اپنے رفقاء و دوستوں کے تلخ تجربات کو کچھ اس طرح شعری پیکر عطا کر کے حوالہ قرطاس کرتے ہیں
وہ شخص بد نہاد بھی ہے بد گماں بھی ہے
کیا کیجیے کہ حاصلِ عمر رواں بھی ہے
میں دل سے مات کھاؤں گا اک روز دیکھنا
گر چہ مقابلے میں صفِ دشمناں بھی ہے
سر بھی کریں وہ معرکہ جو دشمناں سے ہو
لیکن مقابلہ جو صفِ دوستاں سے ہو
ساغرؔ سمیٹتا ہوں میں دامن میں آگ
کچھ اس میں کام دوست سے اور کیا عدو سے ہے
کس توقع پہ کوئی کیجیے بھروسہ ساغرؔ
دشمنِ جاں بھی وہی، دل کا طلب گار بھی ہے
سلیم ساغرؔ کے نزدیک انسان دشمنوں کا مقابلہ تو کسی بھی حال میں کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ظاہر ہوتے ہیں لیکن جب مقابلے میں دوست ہی ہوں تو لڑنے کے بجائے شکست تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے۔ کسی بھی باشعور آدمی کے نزدیک دوستوں کے کے سامنے صف آراء ہونا اپنے آپ میں رسوائی ہے۔اگر چہ جستہ جستہ ان کے کلام میں ظاہری دہراؤ بھی کئی مضامین کے حوالے سے نظر آتا ہے لیکن توجہ کے ساتھ غور و فکر کرنے کے بعد معنوی سطح پر اس کا ازالہ ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنا یا تو موصوف کی مجبوری رہی ہوگی یا محض ایک اتفاق ہے۔ اس قبیل کے درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجے
وہ شخص بد نہاد بھی ہے بد گماں بھی ہے
کیا کیجیے کہ حاصلِ عمرِ رواں بھی ہے
حسن سلوک کیسے کرے گا کسی کے ساتھ
وہ شخص بد نہاد بھی ہے بد گماں بھی ہے
عجب بات ہے ساغرؔ ابھی ملا ہی نہیں
جو شخص مجھ سے بہت بدگماں بنا ہوا ہے
سلیم ساغؔر کو اعتراف ہے کہ ایک تخلیق کار تخیل کی بھٹی میں اتار کر اپنی قوتِ متخیلہ سے کائنات کی مصوری جس سطح اور معیار کی کرنے کا خواہاں ہے اس سے وہ عاجز ہے۔
ابھر تو آتا ہے کاغذ پہ خواب کا پیکر
جو دل میں ہے وہ مگر ہو بہ ہو نہیں کھلتا
سلیم ساغؔر نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں اور بچپن سے لیکر جوانی تک کا سفر جن پُر خار و دشوار گزار راستوں پر چلتے ہوئے طے کیا اور جن سنگلاخ زمینوں میں اپنی حیات کی کاشت کی، ان کے کلام میں یہ ساری روداد و بو باس محسوس کی جا سکتی ہیں۔ موصوف کے یہاں بدلتے ہوئے انسانی رویوں اور چیرہ دستیوں کے خلاف طنز کے ساتھ ساتھ صدائے احتجاج بھی ہے۔ یہاں پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ موصوف حسارِ ذات سے نکل کر جزُ سے کل کی جانب سفر باندھ لیتے ہیں۔ یہ طنز و احتجاج کسی خطاب یا نارہ بازی کی صورت میں نمودار نہیں ہوتا ہے بلکہ استعارے اور کنائے کا پیراہن اوڑ کر فنی رنگ اختیار کرتا ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے
تھمتا نہیں ہے ظلمتِ شب کا یہ سلسلہ
جلتے ہیں اس دیار میں گو چار سو چراغ
کیا کیا مہاجرت میں ہوا، کھو گئے جو دوست
رکھتے تھے گاہ گاہ سرِ آبِ جو چراغ
کوئی ثبوت حق میں نہ کوئی دلیل ہے
ناحق بتا رہا ہے تو اپنا عدو چراغ
لڑتا رہے ہواؤں سے تا دمِ آخریں
کہلائے جا کے پھر کہیں سرِخ رو چراغ
کچھ داستانِ زیست میں بھر لیں لہو سے رنگ
کوئی تو بہرِ نامِ خدا ہی عدو تو ہو
شامِ ناکام نہیں جہدِ مسلسل کا نصیب
صبحِ نوشاد ہے کارِ جہاں سے آگے
موصوف کے یہاں اپنے وطن کی تئیں محبت آہ و فگاں کی صورت اختیار کرتی ہے۔ اپنی شکست خوردہ قوم کی زبوحالی کا غم انھیں بیقرار رکھتا ہے۔جب ضبط کے پُل ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں تو صدائے احتجاج کچھ اس طرح بلند ہوتی ہے
تن میں لہو کی بوند نہیں، اے فشارِ خوں
مجھ ناتواں یہ فرض غمِ جاوداں بھی ہے
ہوتی ہی جا رہی ہے اگر چہ زمین تنگ
دل مطمئن ہے’ چیز کوئی آسماں بھی ہے
اک دشتِ بے حصار میں ہے آمدِ بہار
اک گلستاں، بہار میں گریہ کناں بھی ہے
کجا شجاعت ، کجا یہ واعظ کی لن ترانی
فرازِ دار و رسن تو منبر سے مختلف ہے
انھیں زندگی کی اُجڑتی ہوئی فصل کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ اپنی ناموس کی خاطر کٹتے ہوئے سروں پر ماتم کناں نہیں ہیں۔ انھیں عزت و آبرو سے غرض ہیں۔ وہ موت اور زندگی کی کشمکش میں آرزو اور امید کو لازم قرار دیتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے
دل میں نہ آرزو ہو تو کیا مرگ ، کیا حیات
یہ کشمکشِ زیست فقط آرزو سے ہے
پیش نگاہ کچھ تو ہو ناموسِ آدمی
ورنہ ہمیں کیا بیر کوئی کاخ و کُو سے ہے
کچھ غم نہیں کہ جان کے لالے پڑے رہیں
جاتی ہے جان جائے غرض آبرو سے ہے۔
ان کے نزدیک انسانی جسم کے وجود کے لئے سر کا ہونا لازم ہے لیکن اگر سر کی پکڑی ہی اچھالی جائے تو ایسے میں سر کی بھی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ایک شعر ملاحظہ کیجیے
سرجسم و جہاں کے واسطے لازم سہی مگر
قیمت نہیں ہے اس کی بھی دستار سے الگ
اگر سر بطورِ استعارہء راہنمائے قوم لیا جائے اور جسم و جاں سے قوم مراد لی جائے تو موصوف قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک باوقار و با کردار رہنما کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر راہنما ہی ضمیر فروش اور بکاؤ نکلیں گے تو ایسے راہنماؤں کا ہونا نہ ہونا یکساں ہے۔ ہر خاص و عام شاعر کے کلام میں معاصر منفی رویوں اور بدلتے ہوئے انسانی برتاؤ کے خلاف احتجاج نظر آتا ہے۔ سماج اور معاشرے کے فرسودہ نظامِ حیات پر وار کرنا ہر ادیب کی فطرت میں ہے۔ تو کیسے ممکن تھا کہ سلیم ساغرؔ کی “برگِ نوا” اس صفت سے عاری ہو۔ موصوف ایسی صورت حال کی عکاسی کچھ اس طرح کرتے ہیں
گلوں میں سانپ دکھائی دیں ابرو آب میں سانپ
کہاں سے آئے ہیں میرے ہر ایک خواب میں سانپ
میں اب تو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
کہ چھپ کے بیٹھے ہوں جسیے ہر اک کتاب میں سانپ
وہ شخص مجھ سے بظاہر خوشی سے ملتا ہے
جو بھیج دیتا ہے اکثر مرے عتاب میں سانپ
مزاجِ حضرت انسان بدلتا رہتا ہے۔
جو ہے حضور میں ساتھی وہی غیاب میں سانپ
خدا بچائے کہ پہچان سخت مشکل ہے
ہے کس نقاب میں انساں تو کس نقاب میں سانپ
وہ گرد باد سے بچ بھی گیا تو کیا ساغرؔ
لٹک رہا ہے خو خیمے کی ہر طناب سے سانپ
ہوتی جارہی ہے ہے اگر چہ زمین تنگ
دل مطمئن ہے چیز کوئی آسماں بھی ہے
کہیں پہ دھند کہیں پہ دھواں بنا ہوا ہے
یہ کیا غبار ہے جو آسماں بنا ہوا ہے
اس طرح کے کئیں ایک اشعار موصوف کے کلام میں موجود ہیں۔ بخوفِ طوالت یہاں حوالہ دینا ممکن نہیں ہے۔لیکن درج ذیل شعر موصوف کے فہم و ادراک کی خوب عکاسی کرتا ہے
یہ کس نے آنکھ کو بنجر کیا سدا کے لئے
یہ کون شخص ہے جو درمیاں سے گزرا ہے
یہاں درمیاں سے گزرے ہوئے شخص سے اگر توجہ ہٹادی جائے تو شعر اپنے وسیع تر مفہوم کے ساتھ کھل جائے گا۔ گزرے ہوئے شخص سے اگر معاصر حالات اور ان کو پیدا کرنے والے محرکات سمجھ لیا جائے اور آنکھ کے بنجر ہونے کے معانی سوچنے سمجھنے اور غور فکر کرنے کی صلاحیتوں کا مسدود ہونا مراد لیا جائے تو شعر کا کینواس وسعت اختیار کرتا ہے۔ یہاں بنجر کا استعارہ انفرادی سطح سے اٹھ کر اجتمائی صورت اختیار کرتا ہے۔ آنکھ کے بنجر ہونے سے یہ بھی مراد ہے کہ اپنے پسندیدہ شخص یا محبوب کی آنکھوں سے اوجھل ہونے کے بعد عاشق کو کچھ اور دیکھنا گوارہ نہیں ہے۔ گویا کہ آنکھیں بینائی ہی کھو چکیں ہیں۔مگر یہ استعارے کے محدود معانی ہیں۔
ان کی شعری کائنات کا مطالعہ خیالات و مضامین کی حد تک ہی قابلِ توجہ نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں صنعتوں کا خوبصورت استعمال جگہ جگہ ملتا ہے۔ جیسے متذکرہ بالا اشعار کی تراکیب میں حضور، غیاب، پٹاری، سپیرا سانپ ، خیمہ و طناب، دھند و دھواں اور زمین و آسماں وغیرہ میں صنعتِ تضاد بھی ہے اور صنعتِ ایہام و مراعات النظیر بھی۔ اس طرح موصوف کے کلام میں جابہ جا علم صنائع کا دلکش استعمال ملتا ہے۔ جس سے ان کے کلام میں کہیں غالبؔ کی مشکل پسندی کا گماں ہوتا ہے تو کہیں میرؔ کی سادگی غالب آتی ہے۔ جس کی مثال درج ذیل شعر میں بخوبی نظر آتی ہے۔
مہک رہا ہے وہ جانے کہاں سے گزار آئے
ضرور کوچہء آرامِ جاں سے گزرا ہے۔
یہاں موصوف نے صنعتِ تجاہل عارفانہ کا برمحل استعمال کر کے شعر کے جمالیاتی پہلو کو اجاگر کیا۔ اگلے شعر میں صنعتِ تکرار و صنعتِ تضاد کی خوبصورت مثالیں موجود ہیں
حسابِ جاں سے ، حسابِ جہاں سے گزرا ہے
دلِ فقیر سود و زیاں سے گزرا ہے۔
الغرض سلیم ساغرؔ کی شاعری تمام شعری لوازمات سے آراستہ ہونے کے علاوہ فنی پختگی سے بھر پور ہے۔ ان کے بیشتر اشعار میں تخلیقت کا جوہر عیاں ہے جو اردو شعراء میں ان کے قد کاٹھ کا تعین کرنے میں کار فرما ہیں۔ ان کے نزدیک سخن سرائی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ مسلسل تین دہائوں سے طبع آزمائی کرتے ہوئے ان پر کچھ راز فاش ہوئے جن کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں
ہم پر سخن سرا میں ہوا منکشف یہ راز
کارِ سخن عذابِ جاں بھی، رائگاں بھی ہے
کاِ کشیدِ خوں ہے رگِ جاں منحصر
کارِ سخن کی آب اسی آبِ جو سے ہے
انسانی سماج اور معاشرے کو اپنے مشاہدات میں لانے کے علاوہ سلیم ساؔغر شعر و سخن کے گرتے معیار اور قافیہ پیمائی کو حدفِ تنقید بناتے ہیں۔ جس کا اشارہ درج ذیل اشعار میں ملتا ہے
فاعلاتن فعلاتن پہ رہی مشقِ سخن
شعر تک آنہ سکا، داد سے آگے نہ گیا
کتبے ہاتھوں پہ لگا خونِ تغزل ہے ادھر
کوئی واعظ ہے یہاں ، کوئی گلوکار بھی ہے۔
اتنی خبر ہے فن کے لئے وقف ہم ہوئے
پاتا ہے کون خلعت و اسناد کیا خبر
معاملہ صاف ہے کہ موصوف کے نزدیک شاعری نہ بحر و قافیہ پایمائی کا عمل ہے نہ ہی شاعر کا کردار واعظ اور خطیب کا ہے۔ شعر میں جمالیاتی حس اس قدر نمایاں ہونا چاہے کہ قاری و سامع کو یک لخت محسور کرے۔ اس طرح شعر فکر و نظر اور شعور و ادراک کو متحرک بھی کرتا ہے اور قلب و ذہن کے لئے راحت کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔ جہاں دوسرے شعراء کے یہاں فلسفہ حیات و ممات کو موضوعِ شعر بنایا گیا وہیں سلیم ساغرؔ نے بھی اپنی فنی بساط کے تحت زندگی کے حادثات و تجربات اور گردشِ لیل و نہار کو پیکرِ شعر میں سمیٹبے کی سعی کی۔ چند اشعار بطورِ نمونہ پیش ہیں
آبلہ پائی بھی ہے راستہ پُر خار بھی بھی ہے
کوئی دل جو کہ سرِ مرحلہء دشوار بھی ہے
دشمنی کے لئے کیا خوں کی شراکت کم تھی
مسئلہ بیچ میں اب سایہء دیوار بھی ہے
رہ رو زیست، بہر حال مسافر ہو تم
راہ میں دشت بھی ہے، شاخِ ثمر دار بھی ہے
مشکل میں جاں ہے گردشِ لیل و نہار سے
گو عارضی ہزار یہ آزارِ جاں سہی
آبلہ پائی رہِ زیست کا مقسوم مگر
ضبط والے ہیں کہیں گریہ کُناں سے آگے
دامنِ صبر ذرا تھام! پریشاں راہی
راہ ہموار بھی سنگِ گراں سے آگے
رکتا نہیں ہے آبلہ پائی کے باوجود
یعنی نظر میں سایہء دیوارِ ضبط ہے
مذکورہ اشعار میں موصوف نے فنی ہنر مندی سے زندگی کے نشیب و فراز اور دشوار گزار مرحلوں کی مرقع کشی کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں زندگی سے فرار کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرنے کے برعکس مسائل و مصائب کے حال پر غور و فکر نظر آتا ہے۔ موصوف مشکل حالات کا سامنا صبر و استقامت کے ساتھ کرنے پر مائل کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ زندگی ایک تو عارضی ہے دوسرے یہ کہ جہاں سختی ہے وہیں آسائش و آرام بھی ہیں۔ اگر زندگی کے سفر میں کہیں کہیں دشت و بیاباں ہیں تو وہیں شجرِ سایہ دار بھی ہیں اور شاخِ ثمر دار بھی۔ ان کے یہاں حالات کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجز مقابلہ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ موصوف آبلہ پائی کے ہوتے پُر خار و دشوار گزار راہیں دیکھ کر گھبرانے کے بجائے آگے بڑھنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ خار زاروں پر چلتے چلتے چھالے جب پھوٹ پڑیں گے تو کانٹوں کی نوک نرم پڑ جائے گی تو پاؤں راحت محسوس کریں گے۔ بقولِ غالبؔ
ان آبلوں سے پانو کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
مذکورہ شعر میں غالبؔ نے صنعتِ معنوی کی ترکیب لاکر تضادِ بیانی سے تضاد فہمی پیدا کی۔ مطلب منفی پہلو کو بیان کر کے مثبت نتیجہ اخذ کیا علمِ بدیع میں یہ صنعتِ تطابق کہلاتی ہے۔ اگر چہ غالبؔ کے شعر کی پرواز بہت اونچی ہے لیکن سلیم ساغؔر کی سعی بھی قابلِ تحسین ہے۔ ان کے کلام میں صنعتِ تلمیح کے استعمال کا اچھوتا انداز ملتا ہے۔ جس کی مثال درج ذیل اشعار میں موجود ہے
شوق کم تھا کہ میسر نہ لہو تھا تن میں
کوئی کیوں مانی و بہزاد سے آگے نہ گیا
توڑا گیا نہ کچھ بھی اُس سے ماسوائے سنگ
تیشہ بدست تھا بھی وہ فرہاد کیا خبر
مانی جو کہ قدیم ایرانی مذہب ‘مانویت’ کے بنیاد گزار تھے جو کم و بیش ایک ہزار سال تک قائم رہا۔ بہزاد جو ایک مشہور و معروف ایرانی مصور تھا۔ جس کے فنِ مصوری کے چرچے عام تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مانی کے مقابل تھے۔ یہاں موصوف یہی کہنا چاہتے ہیں کہ کیا فنِ سخن میں اب وہ جوش اور ولولہ پیدا نہیں کیا جاسکتا جو خونِ جگر کا تقاضہ کرتا ہے۔ کوہکن اور قصہء نہرِ شیریں سے تو ہر قاری واقف یے۔
سلیمِ ساغؔر نے کم و بیش زندگی سے جڑے ہر خاص و عام موضوع کو زیرِ بحث لایا۔ موصوف گھر اور مکان میں فرق، زندگی کی ہنگامہ آرائیاں اور ناپیداری کے علاوہ والدین اور اولاد کے تعلق کو ادب کے حسین قالب میں ڈال کر حقیقتِ حال سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس قبیل کے درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے
صرف دو چار برس کی یہ کوئی بات نہیں
گھر تو اک عمر میں بنتا ہے مکاں سے آگے
اپنے بچوں سے بہت پیچھے رہا جاتا ہوں
تیر نکلے گا بہر حال کماں سے آگے
میں نے بھی اپنے آپ سے کوئی وفا نہ کی
مجھ سے مکر ہی جائے جو اولاد کیا عجب
اچھا سلوک کر نہ سکا خود سے اور کرے
کیسا معاملہ میری اولاد کیا خبر
موصوف زندگی کو ایک تیزگام ریل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ زندگی کے سفر میں ہر خاص و عام کے ساتھ باہمی تال میل قائم رہے۔ انھیں جنگ و جدل سے ذہنی کوفت ہوتی یے۔اپنے خیالات کا کچھ اس طرح نقشہ اتار دیتے ہیں
دل چاہتا ہے سب سے رہے باہمی خلوص
کوئی ہو دوست یا وہ صفِ دشمناں سے ہو
اصل حیات ہیں یہی لمحاتِ تیز گام
گزریں جو سایہء وحشت و افتاد سے الگ
غافل مباش، جان مری! کچھ خبر بھی ہے
عرصہء حیات تیز رو بھی ، مختصر بھی
سلیم ساغؔر کی شاعری کا خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ انھونے انفرادی و علاقائی تجربات کے ساتھ ساتھ اجتمائی و عالمگیر مسائل کو اجاگر کیا۔ ان کی بیشتر شاعری جمالیاتی خصوصیات کی حامل ہونے کے علاوہ دعوتِ تفکر بھی دیتی ہے۔
‘برگِ نوا’ کا مطالعہ کرتے ہوئے کئیں ایک شعر فارسی آمیز زبان کے محتمل نظر آتے ہیں جو قاری کی طبیعت پر گراں گزرتے ہیں۔ عام قاری شعر کے حسن سے حظ اٹھانے کے بجائے زبان کی پیچیدگی کو سلجھانے میں رہ جاتا ہے۔ باوجود اس کے, مذکورہ مجموعہ کلام میں سلیم ساغرؔ کی زبان دانی اور بو قلمونی عیاں ہے۔