shamshad Kralwari 0

افسران خود ہی جج نہیں بن سکتے ہیں

شمشاد کرالہ واری

ملک میں بلڈوزر چلا کر گھر برائے جانے کے خلاف عدالت عالیہ میں کافی مدت سے چل رہے مقدمے کا فیصلہ لمبے انتظار کے بعد آیا جسے توقع پیدا ہوئی کہ اب بڑی حد تک اس یک طرفہ انتقامی کارروائی پر روک لگے گی لیکن اسی آڈر میں یوپی کی موجودگی سرکار کے لیے ایک راحت بھی ہے کہ جس کے پیش نظر یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سپریم کورٹ کے ‘بلڈوزر انصاف’ کے فیصلے پر مثبت رد عمل ظاہر کیا اس ضمن میں اتر پردیش حکومت نے بدھ کے روز سپریم کورٹ کے “بلڈوزر انصاف” کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، یہ کہتے ہوئے کہ اس سے منظم جرائم پر قابو پانے اور مجرموں میں قانونی نتائج کا خوف پیدا کرنے میں مدد ملے گی حالانکہ سپریم کورٹ نے انہدام کے مسئلے کو روکنے کے لیے رہنما اصول وضع کرنے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو اپوزیشن کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو افسران خود ہی جج نہیں بن سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نےاس اہم فیصلے میں کہا کہ کسی ملزم کی جائیداد کو بغیر کسی شو کاز نوٹس کے منہدم نہیں کیا جانا چاہیے اور متاثرہ کو جواب دینے کے لیے کم از کم 15 دن کا وقت دیا جانا چاہیے۔ یہی نکتہ ہے کہ جس کی بناء پر ادیتیہ ناتھ حکومت نے راحت کی سانس لی اور فیصلے کا خیر مقدم کیا۔درخواست گزار کے وکیل نے سپریم کورٹ کے ‘بلڈوزر ایکشن’ کے فیصلے پر بریفنگ دی کہ کوئی بھی قانون اس قسم کی کاروائیاں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی گھر کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے گھر کو آدمی کے وقار اور سماجی ساخت کے ساتھ جوڈ دیا اور جسٹس گویا نے بلکہ گھر کی اہمیت اجاگر کرنے والے شعر سنا کر ہی اپنے فیصلے کو سنانا شروع کردیا۔ فیصلے میں اگر چہ یوپی سرکار کو نام لے کر نشانہ نہیں بنایا گیا ہے لیکن اشارے تو آدتیہ ناتھ سرکار کی طرف ہی دھیان پھیرتے ہیں کیونکہ یوپی میں ہی اس کھیل کو شروع کر کے سبق سکھانے کی شروعات کی گئی۔ فیصلے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے امید ظاہر کی کہ اتر پردیش میں “بلڈوزر دہشت” اور “جنگل راج” کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یوپی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعریف کی اور واضح کیا کہ وہ اس کیس میں فریق نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم ‘جمعیت علمائے ہند بمقابلہ نارتھ دہلی میونسپل کارپوریشن اور دیگر’ معاملے کا حصہ تھا۔ “اچھی سرکار کی پہلی ضرورت قانون کی حکمرانی ہی ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ مجرموں کے اندر قانون کا خوف مزید بڑھا دے گا، جس سے مافیا عناصر اور منظم پیشہ ور مجرموں کو کنٹرول کرنا آسان ہو جائے گا،”یوپی حکومت کے ترجمان نے کہا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ “قانون کی حکمرانی سب پر لاگو ہوتی ہے۔”
اتر پردیش کی کابینہ کے وزیر اوم پرکاش راجبھرنے بھی اس حکم کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، “حکومت نے کبھی کسی کی ذاتی جائیداد کو منہدم نہیں کیا۔ بلکہ یہ کاروائی ریاستی ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق تھی۔

“عدالت عالیہ نے یوگی کا بلڈوزر ہمیشہ کے لیے گیراج میں کھڑا کر دیا: اکھلیش یادو نےسپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی کانپور کی ایک عوامی ریلی میں اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آدتیہ ناتھ حکومت پر عدالت عظمیٰ کے انہدامی فیصلے کے پیش نظر طنز کرتے ہوئے کہا کہ “سپریم کورٹ نے بلڈوزر کو ہمیشہ کے لیے گیراج میں کھڑا کر دیا ہے۔” اتر پردیش حکومت، جسے “بلڈوزر ایکشن” پر مختلف حلقوں سے تنقید کا سامنا رہا ہے نے اس معاملے پر یہ واضح کیا کہ وہ اس کیس میں شامل نہیں تھی سپریم کورٹ کا حکم آتے ہی کانگریس پارٹی نے بھی کہا کہ یہ فیصلہ یو پی حکومت کو من مانی کر کے گھر توڑنے سے روک دے گا ۔ملک میں ایسی کاروائیاں یو پی سے نکل کر بی جے پی کی دیگر ریاستی حکومتوں کے زیر انتظام پھیل گئی اور اس غیر آئینی عمل کو مرکزی سرکار اور انکے حامی میڈیا والوں نے کھل کر تعریف کر کے حق بجانب ثابت کردیا ۔ یو پی کے آدتیہ ناتھ کو بلڈوزر بابا نام دیا ۔ یہاں تک کی ملک کے پرائم منسٹر نے ایک عوامی ریلی میں کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہدیا ” زرا کانگریس والوں سے کہو یوگی جی سے سیکھو بلڈوزر کہاں کہاں چن چن کر چلانا ہے کہاں نہیں”۔
اب تک کی ایسی کاروائیاں کر کے ساڈھے سات لاکھ لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہےاور راتوں رات اس جگہ کو عوامی پارک ۔سڑک یا کسی بڑے بیوپاری کے لیے وقف کردیا ۔ یوپی سرکار کو اسے پہلے بھی الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ لوگوں کے خلاف سرکاری نوٹس لکھ کر جاری کرتی ہے لیکن وہ نوٹس محض عدالتی غیض و غضب سے بچنے کے لیے برائے ریکارڈ رکھے جاتے ہیں ۔
چونکہ عدالت عالیہ حکمنامے میں کہا ہے کہ اگر پندرہ دن کے نوٹس پیریڈ میں پراپرٹی والے نے کسی عدالت سے ڈٹے نہیں کرایا یا اپنا دفاع کرنے کے لئے حاضر نہیں ہوا تو پندرہ دن کے بعد انہدامی کارروائی پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن کسی کا جرم ثابت ہوئے بغیر وہ مجرم نہیں ہوتا ہے اس صورت میں جو کوئی افسر کاروائی میں شامل ہوگا اسکے خلاف عدالت کے حکم کی عدولی کرنے کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔
اس لئے ان حالات میں بغیر اِجازت نامے کے کسی بھی تعمیری کام کو ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا چاہیے ۔
اس حکمنامے نے ایک بار پھر سے عوام میں امید پیدا کردی ہے کہ ابھی ہمارے عدلیہ میں زی حس اور انصاف پرور جج صاحبان موجود ہیں ۔اور ہمارے ملک میں قانون کی پاسداری کرائی جاسکتی ہے ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی رو سے کشمیر کے ان بے قصوروں کو بھی امید بندھ گئ ہے کہ جن کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں یا تو زمین و مکان سے یا نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا بھر میں ہر مذہب میں انتہا پسند موجود ہیں ۔ دیگر مذاہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے جوانوں کو جب پکڑا گیا تو ان کے والدین انکی گرفتاری یا مارے جانے کے بعد ہی بچے کی کرتوت سے باخبر ہو تے تھے وہاں کی سرکاروں نے انکے والدین یا رشتہ داروں کو اپنے پروردہ کی کاروائی کا زمہ دار ٹھرا کر سزا نہیں دی گئی ۔ یہاں پولیس کی ویریفکیشن بھی نہیں ملتی ہے اگر کوئی نزدیکی رشتہ دار کے ملوث ہونے کی بات ابھر کر آگئ اگرچہ ان رشتہ داروں کی آپس میں بنتی بھی نہ ہو۔ اسکے خلاف قانونی چارہ جوئی سے عوام کے دلوں میں پیدا شدہ خوف دور ہونے اور دیش بھگتی پنپ سکتی ہے ورنہ پچھلے دس سال میں ان لوگوں کو بے یارو مددگاربناکر نفرت کے انگاروں پر رکھ دیا گیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں