تصویر غربت 0

تصویر غربت

محمد نعیم خان

یہ تصویر غربت کی تصویر یے
یہ تقدیر کی ماری تفسیر ہے

یہ قسمت سے نالاں ہے بیزار ہے
یہ مفلس ہے نادار و لاچار ہے
یہ بگڑے مقدر کی تحریر ہے

ہے عاجز یہ،ہمت اسکی چور ہے
مگر جینے کے ہاتھوں مجبور ہے
ہاں اس درد کو موت اکسیر ہے

یہ رشتہ و پیوند سے ہے جدا
یہ دنیا کی رسموں سے نا آشنا
ملی کس خطا کی یہ تعزیر ہے

یہ دردر کی ٹھوکرکی خوگر ہے ہاں
ہے مایوسی کا ایک پیکر میاں
غریبی ہی تو جرم و تقصیر ہے

ہیں بے معنی اسکے لیے سب،دھرم
فریب ایک اس کے لیے ہے حرم
جدا اس کا نالہء شب گیر ہے

یہ اپنی ہی بستی میں ہے اجنبی
اور اپنوں میں ہی اسکو ہےبےبسی
نہیں اسکی عزّت و توقیر ہے

سفر اسکی غربت کا ہے ناتمام
غموں کا ہے روشن دیا صبح و شام
غریبی فقط اس کی جاگیر ہے

یہ مہذب زمانے کی ہے اک مثال
کیا خلق نے ہے اسکو پامال
یہ راہ صعوبت کا رہ گیر ہے

ہے تہذیب نو کا یہی اصل روپ
ہے محرومیوں کی اسکے سرپہ دھوپ
بجھا دل ہے اس کا یہ دلگیر ہے

یہ دکھ درد کا ہے نشاں بے گمان
نعیم بدنصیبی کی ہے داستاں
پریشان خوابوں کی تعبیر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد نعیم خان
سیر ہمدان اننت ناگ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں