‌‌کراماتی گھوڑا ( دوسرا پڑاؤ ) 0

‌‌کراماتی گھوڑا ( دوسرا پڑاؤ )

ملک منظور قصبہ کھل کولگام
( دوسرا پڑاؤ)

سرگوشیوں کے جنگل کی سیر کرنے کے بعد سب سحر واپس لوٹی تو ٹک ٹک نے اسکو جنگل کے راجا شیر کی دربار میں پیش کیا ۔وہاں شیر کے اردگرد جنگل کے سارے جانور جمع ہوگئے تھے ۔چیتا کافی غصے میں تھا ۔بھالو بھی ناراض تھے ۔پاس میں ہرنیں گھاس چر رہی تھیں وہ بھی سحر کو نفرت کی نظروں سے دیکھ‌ رہی تھیں۔دوسرے شیر بھی آگ بگولہ ہوگئے تھے۔ٹک ٹک کو دیکھ کر راجا نے پوچھا ” بتاؤ ٹک ٹک یہاں کیسے آنا ہوا ؟”
” جناب میں اس ننھی پری سحر کو آپ کی عدالت میں انصاف کے لئے لایا ہوں ” ٹک ٹک نے کہا
” کیسا انصاف ؟” راجا نے پوچھا
” جناب اس چیتے نے اس معصوم سحرپر حملہ کر کے مارنے کی کوشش کی ۔” ٹک ٹک نے کہا
” یہ تمہاری نظروں میں معصوم ہے ۔لیکن ہماری نظروں میں یہ ہمارے جانی دشمنوں کی نسل نو ہے جو لالچ میں اندھے ہو کر کرہ ارض کی جغرافیائی توازن کو بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ چیتا غصے سے لال اس لئے ہوا ہے کیونکہ ان انسانوں نے اس کی کھال حاصل کرنے کے لئے ان کی پوری ذات ہی ختم کردی ہے ۔ان‌کی آبادی گھٹ کر اب معدوم ہونے کی کگر پر پہنچ گئی ہے ۔اتنا ہی نہیں ان کی وجہ سے ہمارے گھر اجڑ گئے ہیں۔انہونے‌ہمارے‌لئے‌ زمین تنگ کردی ہے ۔ قدرت نے ہمیں ‌فضول پیدا نہیں کیا ہے۔ہم بھی کسی مخصوص کام کو انجام دے کر ایکولوجیکل توزان برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔”
” ہاں مگر وہ تو اس بچی کے بڑوں نے کیا ہے ۔ اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔اس بچی کی مدد سے آپ کی زندگی میں پھر سے بہار آسکتی ہے ” ٹک ٹک نے کہا
” وہ کیسے ؟ ” شیر نے پوچھا۔
” لوگوں کو سمجھانے سے خاص کر نسل‌ نو کو تمہاری اہمیت سمجھانے سے ” ٹک ٹک نے کہا۔
” ہاں شیر انکل ہم سب بچے آپ کو ذندہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔” سحر نے کہا ۔
” ٹھیک ہے لیکن کیسے ؟ ” شیر نے پوچھا۔
آپ کواپنے گھر کی حفاظت کے لیے کچھ کرنا ہے، اس لیے آپ کو انسانوں سے بات کرنی‌ہوگی۔ میراخیال ہے کہ اگر ہم انسان جنگل اور اس کے باشندوں کی اہمیت کو سمجھیں تو ہم اس کی بہتر دیکھ بھال کریں گے۔ اس لئے ہمیں انسانوں سے بات کرنی ہوگی۔ آپ سب میرے ساتھ آئیے ۔
“ٹھیک ہے اس تجویز پر بھی عمل‌کرکے دیکھتے ہیں ۔
یوں سحر جنگل کے جانوروں کے ساتھ امن و آشتی کے خاطر ایک مشن پر نکلی۔
سب سے پہلے، وہ لوگوں کے ایک گروپ سے ملے جو درخت کاٹ رہے تھے۔ “درخت صرف لکڑی نہیں ہیں، یہ پرندوں، گلہریوں اور کیڑوں کے گھر ہیں۔ یہ ہمیں سانس لینے کے لیے آکسیجن دیتے ہیں اور ہماری ہوا کو صاف رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔” عقلمند الو نے درخت کاٹنے والوں سے کہا۔
اس کے بعد، انہوں نے ایک فیکٹری کا دورہ کیا جہاں لمبی چمنیوں سے دھواں اٹھتا تھا۔ شہد کی مکھیاں فیکٹری کے مالک کے گرد گونجتی رہیں اور کہنے لگیں، “آلودگی ہم سب کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ ہمارے پانی اور ہوا کو زہر آلود کر دیتی ہے، جس سے ہمارے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمیں پینے کے لیے صاف پانی اور جرگ لگانے کے لیے پھولوں کی ضرورت ہے۔”
پھر، وہ ایک بڑے شہر میں گئے جہاں کاروں کے ہارن بج رہےتھے اور اونچی عمارتوں نے سورج کی کرنوں کو روکا تھا۔ ہرن نے آگے بڑھ کر کہا، “ہمیں آزاد گھومنے پھرنے کے لیے جگہ کی ضرورت ہے۔ جب آپ سڑکیں اور عمارتیں بناتے ہیں تو آپ ہمارے گھر اور کھانے کے ذرائع چھین لیتے ہیں۔ ہم سب اس ماحولیاتی نظام سےجڑے ہوئے ہیں۔”
اس کے بعد سحر نے ان سب جانوروں کو اپنے اسکول کے بچوں سے ملوایا ۔بچے پہلے بہت ڈر گئے لیکن سحر کی یقین دہانی نے ان کو اطمینان بخشا اور وہ شیر، چیتے اور دوسرے جانوروں سے ملنے کے لئے راضی ہوگئے ۔
بچوں کی معصومیت کو دیکھ کر شیر نے نرم لہجے میں کہا” دوستو خدا نے دنیا کی کسی بھی مخلوق کو فضول نہیں بنایا ہے بلکہ ہر کسی مخلوق کے ذمے کوئی نہ کوئی مفید کام رکھا ہے ۔جیسے یہ ہرن جنگلوں اور بیابانوں میں اگ رہے گھاس کو کھا کر ایک بڑی آفت کو ٹال رہی ہیں ۔جنگل میں اگر گھاس سوکھ گئی تو اچانک ایسی آگ لگ سکتی ہے جو دنیا کی کوئی طاقت بجھا نہیں سکتی ۔پھر ہرنوں کی آبادی کو قابو میں رکھنے کے لیے شیر اور چیتے پیدا کئے گیے۔اس طرح مختلف قسم کی مخلوقات ایکولوجیکل توزان برقرار رکھنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں ۔امید ہے آپ بچے ہماری اہمیت کو سمجھ کر ہماری پناہ گاہوں کو نہیں مٹائیں گے اور نہ ہی ہمارا شکار کریں گے۔”
بچوں نے جانوروں کی بات غور سے سنی اور محسوس کیا کہ سچ مچ ہم انسان ان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے طریقے بدلنے اور جنگل کی حفاظت کے لیے جانوروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔
اسکول کے سارے بچے بھی سحر اور دیگر جنگلی حیات کے ساتھ شکاریوں کے پاس گئے۔ شکاریوں نے جب بہت سارے جانور ایک ساتھ دیکھے تو انہونے بندوقیں نکالیں ۔ جانور ڈر گئے ۔چیتا بھاگنے لگا ۔جنگل کا راجا شیر بھی گھبرانے لگا ۔ہرنوں نے چھلانگیں لگائیں ۔اسی اثنا میں بچوں نے ان شکاریوں کو پہچان لیا ۔کچھ ان کے والدین تھے کچھ دوسرے رشتے دار۔سارے بچے جانوروں کے بچاؤ میں آگے آئے اور والدین سے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے ۔” ان جانوروں نے آپکا کیا بگاڑا ہے ۔چند پیسوں کے لئے آپ ان کا بےرحمانہ قتل کرتے ہیں ۔ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہیے ۔بس ان جانوروں کو بخش دیں انہیں جنگل میں خوشی خوشی جینے دیں ۔نہیں تو ہمارے آنیوالے بھائی بہن ان کو دیکھ بھی نہیں پائیں گے”
بچوں کی حلیمانہ گزارش نے شکاریوں کے دل نرم کردئیے ۔انہونے‌ آئندہ شکار نہ کرنے کا عزم کیا اور جانور خوشی خوشی جنگل واپس لوٹ گئے۔
اس دن سے، انسان اور جانور جنگل کی دیکھ بھال کے لئے مل جل کرکام کرنے لگے۔ انہوں نے درخت لگائے، ندیوں کی صفائی کی، اور جانوروں کے گھومنے کے لیے کافی جگہ چھوڑنے کو یقینی بنایا۔
بچو انسانوں اور جانوروں کے درمیان تعاون اور حد بندی کی بدولت جنگل ایک بار پھر پروان چڑھ سکتے ہیں ۔جانور گھاس کے میدانوں میں پھر رقص کرسکتے ہیں۔جنگل قہقہوں اور خوشیوں سے پھر گونج سکتے ہیں۔گلوبل وارمنگ میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔گلیشروں کے پگھلنے کی رفتار بھی دھیمی ہوسکتی ہے۔بشرطیکہ ہم سنجیدگی سے نوٹس لیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں