اسرائیل۔۔ آنے والا کوئی طوفان ہے بڑا 0

اسرائیل۔۔ آنے والا کوئی طوفان ہے بڑا

رشید پروینؔ سوپور

طاقت کے نشے میں چور ،تکبر اور غرور کی ایک ایسی مثال جو صرف یہودی تاریخ کا ہی حصہ ہے اور اس طرح کی سفاکی ، وحشیانہ پن ، ہٹ دھرمی اور ضد دنیا کی کسی قوم کا خاصا نہیں رہا ہے ،اسی لئے یہ قوم کئی بار اللہ کے عذاب کی مستحق ہوچکی ہے ، اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہونا چاہئے کہ زمانہ یا وقت اپنے اختتام کی طرف بڑی تیزی سے سرک رہا ہے اور اس آ خری مرحلے کے لئے سٹیج بڑی تیزی سے اسرائیل تشکیل دے رہا ہے کیونکہ اسرائیل اب سائنس ، ٹیکنالوجی اور طاقت کی اس انتہا پر پہنچ چکا ہے جس کے بارے میں یہ ارشادہوچکا ہے کہ آخر زمانے میں یہ قوم تقریباً ناقابل تسخیر ہوگی ، لیکن یہی بات ہے جو ان کو دوکھے اور فریب میں رکھے گی ،کیونکہ مادی وسائل کے بغیر بھی ایک دنیا ہے جسے دجال کی آنکھ دیکھ نہیں پائے گی کیونکہ دجال کی ایک آنکھ صرف مادیت کو ہی دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس لئے یہ قوم یہود آخر اپنے انجام کو پہنچے گی ، جو پہلے ہی سے احادیث اور قرآن پاک کی رو سے طئے ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہودی اپنا تیسرا معبد بنانے کے لئے بہت زیادہ اوتاولے ہورہے ہیں اور ان کے علماء کے مطابق یہ بہترین وقت ہے جب ان کا تیسرا معبد بنایا جانا نا گزیر سی بات ہے ، پہلا معبد حضر ت سلیمان علیہ السلام نے دسویں صدی قبل مسیح میں بنایا تھا اس کو بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ۱۲۷ قبل مسیح میں مکمل تباہ کیا تھا ، دوسری بار ۵۱۵ قبل مسیح میں یہودی قوم نے اس سے بنایا تو جنرل ٹائیٹس نے اس سے بھی مکمل مسمار کیا ، یہودی قوم کا قتل عام کیا اور بچے کھچے آدمیوں کو غلام بناکر لے لیا ۔اس معبد کی ایک دیوار محفوظ رہی تھی جس سے دیوارِ گریہ ، کہا جاتا ہے ، یہ تیسرا معبد جس سے بنانے کی مکمل تیاری ہوچکی ہے ، مسجد اقصیٰ کی جگہ بنے گا اور اس کی جگہ وہی ہوگی جہاں آج ’’قب الصخرہ ‘‘ قائم ہے ، ۔ سرخ گائے یا ہائی فر، جس کی آجکل دھوم ہے اسی آخری سلسلے کی کڑی ہے ، یہود کا اعتقاد ہے کہ سرخ گائے کی قربانی ہی نئے معبد کی تعمیر کی کلیدی چابی ہے اس ہائی فر گائے سے مطلب وہ سرخ گائے ہے جو مکمل ۱۰۰ فیصد سرخ ہو، جس کے گلے میں کبھی رسی نہیں ڈالی گئی ہو ، اور بیل سے دور رہی ہو اور اس کی عمر کم سے کم تین برس کی ہو ، اس کے لئے ایسی پانچ گائیں پہلے ہی امریکہ کے شہر ٹیکساس سے اسرائیل پہنچائی جا چکی ہیں جو کسی خاص مقام پر پالی جارہی ہیں۔ قربانی کے بعد اس کا گوشت جلایا جائے گا پھر اس راکھ کو پانی میں ڈالا جائے گا اور اس پانی کا چھڑکاؤ ان جوانوں پر کیا جائے گا جو مسجد اقصیٰ کو منہدم کریں گے ، اور پھر بھی یہ لوگ اس پانی کی وجہ سے گناہوں سے پاک ہی رہیں گے ، یہ مکمل عمل جبل زیتون پر جو مسجد اقصیٰ کے سامنے ہے عمل میں لایا جائے گا اور پھر یہودی اعتقاد کے مطابق حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا جو ساری دنیا پر جیوش حکومت قائم کریں گے جس کا ہیڈ کوارٹر یرو شلم ہوگا ،،یہاں یہودی سوچ و فکر اور اپروچ کو بڑی اہمیت اور افادیت حاصل ہے اور پہ چند جملے یقینی طور پر مناسب رہیں گے۔
یہود ی مذہبی اوربنیاد پرست شاس پارٹی کے رہنما کے ساتھ یہ بیان منسوب ہے جو اس نے ۵اگست ۲۰۰۰ کو اپنے ایک خطبے میں دیاتھا ،’’اسماعیلی تمام لعنت زدہ ہیں اور گنہگار ہیں ،خدائے واحد اور اس کی عظمت میں اضافہ ہو وہ اسماعیلیوں کو تخلیق کرکے پچھتارہا ہے ‘‘( نقل کفر ۔ کفر نہ باشد )ایک اسرائیلی اخبار کے مطابق ۔اسی اخباری اطلاع میں عواد یا یوسف کوبراک حکومت کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی معاہدے کی کیا ضرورت ہے ؟، وہ وزیر اعظم براک کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ (براک تم ان سانپوں کو ہمارے دوش بدوش کیوں لانا چاہتے ہو ، ، تمہیں ذرا بھی عقل نہیں) ،اور یروشلم پوسٹ ۵ اگست ۲۰۰۰ کی اطلاع کے مطابق مجمع نے تالیوں کی گونج سے ان ریمارکس کو سراہا ، یہ چند جملے اہل یہود کی سوچ و فکر اور یرو شلم سے متعلق ان کے نقطہ نگاہ کی وضاحت کے لئے کافی ہونے چاہئیں ۔ ریاست اسرائیل کا وجود یورپین یہودیوں نے توریت کی اُن آیات کو بنایا ہوا ہے جن میں ارض مقدس ان کو عطا کئے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہاں سب سے پہلے حضرت داؤد نے سلطنت قائم کی تھی ،ڈیوڈ بن گورین ، اسرائیلی پہلے وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عہد نامہ عتیق ہماری سر زمین اسرائیل کی ملکیت کی دستاویز ہے ، یروشلم جو مسلمانوں کا ایک مقدس شہر ہے یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے بھی محترم شہر ہے اور یہ شہر وقت یا تاریخ کے اختتام کے سلسلے میں بہت ہی کلیدی اور اہم کردار ادا کرنے جارہا ہے ،اسلام ، یہودیت اور عیسائیت اس ایک نقطے پر متفق ہے ،آج تاریخ کا آخری دور ہے اور یہ دور کب تک چلنے والا ہے یہ رب کائنات کے بغیر کوئی نہیں جانتا لیکن آثار و قرائن سے صاف ظاہر ہے کہ بہت سارا زمانہ باقی نہیں رہا ہے بلکہ وقت بڑی تیزی سے اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے،،۔ یروشلم متضاد دعوؤں کا مرکز ہے اور ہر فریق کا دعویٰ ہے کہ وہی درست اور صحیح ہے ۔ یہود سمجھتے ہیں کہ مسیحا آئیں گے۔ یروشلم ان کی سلطنت کا پایہ تخت ہوگا ، عیسائی دعویٰ ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو یروشلم کو مرکز بنا کر وہ ساری دنیا پر حکو مت کریں گے اور اس طرح سے ان کے اعتقادات ، تثلیث، حلول اور صلیب وغیرہ کی تصدیق کریں گے ، مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ ازل سے ہے ہی یروشلم دین حق اوراسلام کو صحیح اور درست ثابت کردے گا کیونکہ یروشلم ہی اصل میں کسوٹی ہے جہاں سے نبی آخر الزماں ﷺ کی حقانیت سارے زمانے پر آشکارا ہوگی ،اس کا اشارہ پہلے ہی معراج کی رات میں موجود ہے جہاں نبی برحقﷺ نے تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی ، عیسیٰ بہر حال حدیث مبارک کی روشنی میں امت محمدی بن کر آئیں گے ، نہ کہ بحیثیت کسی نئے پیغمبر کے ، اور اس میں مسلمانوں کی دو رائیں نہیں کہ یہ وہی عیسیٰ علیہ السلام ہیں ، جن کے بارے میں یہودیوں نے فخر کے ساتھ کہا کہ انہیں صلیب دی ہے ،، اور جس مسیحا کو انہوں نے صلیب دی ہے وہ مسیحا نہیں ہوسکتااور اس نے یروشلم میں حکومت بھی نہیں کی اس لئے یہود کو اس کا انتظار ہے اور( اسی لئے وہ اُ س عیسیٰ کو نبی تسلیم نہیں کرتے ) تاکہ وہ آکر اہل یہود کی مدد کرکے ساری دنیا پر یہود کی حکمرانی کا آغاز کرسکے ،، اور یہود کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ جب تک ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں ہوتا تب تک مسیحا نہیں آئیں گے یہی وجہ ہے کہ یہودی اب چاہتے ہیں کہ ان کا وہ مسیحا آجائے اور ساری دنیا پہ ان کی حکمرانی قائم ہوجائے اب جیسا کہ حالات سے ظاہر ہے کہ یہود اب مزید اور انتظار کی تاب سے محروم ہوچکے ہیں اس لئے سرخ گائے بھی ذبح کی جارہی ہے اور حالات کو بھی اپنے اندازے کے مطابق اس قالب میں ڈھالا جارہا ہے جو عیسیٰ کے آنے سے مطابقت رکھتے ہوں ’ مسیحا اسرائیل میں ایک حکومت قائم کرے گا جو تمام دنیا کی حکومتوں کا مرکز ہوگی اور تمام غیر یہودی اقوام اس کے ماتحت اور غلام ہوں گے (ایسیاہ ۔۲۔ ۱۲ ) اب اس بیان کو یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کی افتتاحی تقریب پر ٹرمپ کے سفیر پادری جان ہیکی کے بیان کے ساتھ ملاکر دیکھئے’’ اب ہمیں اس سر زمین میں مسیحا کے نزول کی بات کرنی چاہئے ۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولتا ۔کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی خارجہ پالیسی اسی ’’بشارت ‘‘ سے اخذ کی جاتی ہے ‘‘،، یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ سابقہ کئی امریکی صدور نے کھل کرعراق ۔ ایران ،افغانستان اور شام کی جنگوں اور ان ممالک کی تباہی کو صلیبی جنگوں سے تعبیر کیا ہے ۔ اس لئے خوابوں کی دنیا میں رہنے سے بہتر یہ تھا کہ عرب ممالک اور عالم اسلام یہ بات سمجھ لیتا کہ گریٹر اسرائیل اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں صیہونی کسی بھی طرح کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ، معاہدات اور کبھی کبھی بہ ظاہر امن و اماں کے دکھاوے بھی اسی منصوبے کا جز لائینفک ہیں ، انہیں اب تک دو بار سزا مل چکی ہے اور اب یہ آخری اور حتمی سزا ہوگی جس کے لئے وہ خود حالات اور حجت تمام کر رہے ہیں ،،(، سورہ بنی اسرائیل ۴ تا ۱۷ ) میں اس کی پوری تفصیل دی گئی ہے ،(لیکن اگر تم نے اپنی شرائط و وراثت پامال کیں اور اپنی حرکت دہرائی تو ہم اپنی سزا کو دہرائیں گے (بنی اسرائیل ۸ )یروشلم کی تقدیر اس آیہ کریمہ میں صاف اور واضح بیان کردی گئی ہے، اور آج کی جو استحصالی ، ظالم و جابر اسرائیلی حکومت وہاں قائم ہے وہ کسی طرح سے اللہ کے احکامات کی نہ تو پابند ہے اور نہ ابراہیمی دین پر قایم ہے بلکہ ایک ایسی ریاست ہے جس کا وجود ہی سودی معاشیات پر استوار ہے ،ظلم وجبر پر استوار ہے ، بے گناہوں اور معصوموں کے لہو سے رنگین اور منقش ہے۔ یورپی صیہونیوں کی دلچسپی الگ نوعیت کی ہے وہ خدا بیزار اور مذہب بیزارمعا شروں کو تشکیل دے چکے ہیں اور اپنی علمی اور منطقی چادروں سے الحاد اور کفر کو حقیقت اور اصلیت کا روپ دے چکے ہیں ، آج کا یروشلم ابراہیمی دین پر استوار معاشرہ ان کے کسی بھی تصور سے میل نہیں کھاتا ، اور ہمارے مسلم معاشرے بھی اس دین کی بنیادوں پر استوار نہیں سوائے اس کہ یورپی اس پردے میں پیٹرول پر قابض ہونا چاہتے ہیں ، ، ’کالے سونے ‘‘ کی جنگ ہی آخری جنگ ہوگی اور اس پر قبضے کی کوشش میں تمام اقوام فنا ہوں گی ،، قرآن آل عمران ۶۸اس بات کا اللہ کی طرف سے واضح اعلان تھا کہ یہ قوم کبھی راست روی اختیار کرنے کی طرف گامزن نہیں ہوگی ، ، اور اپنی انا اور خود پسندی کے خول میں پہلے بھی ہزاروں برس مقید رہی ہے اور اب آخری دن تک اسی بھرم میں مبتلا رہے گی کہ وہ اللہ کی برگذیدہ اور معتبر قوم ہے ، چاہئے ان کے اعمال اور طرز معاشرت دین ابراہیمی کے مخالف اور متضاد ہی کیوں نہ ہوں ،،،ہٹلر نے اسی بر گزیدگی کے عالم میں جرمنی کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اسرائیل کی حتمی اور آخری تباہی بڑی خوفناک ہوگی جب حدیث مبارکہ کے مطابق اس خطے میں ۱۰۰ میں سے نناوے لوگ قتل ہوں گے ،،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں