محمد ہاشم القاسمی
اردو زبان کی ابتدا و آغاز کے سلسلے میں ماہر لسانیات کے مختلف نظریات ملتے ہیں، ان نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر ہند و پاک میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اس کی بنیادی اور ٹھوس استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثر و تاثیر سے ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں “اردو زبان” کہلائی۔ کہا جاتا ہے کہ فارسی کے الفاظ کی حامل ہندوستانی زبان کے لیے لفظ ‘اردو‘ کا استعمال پہلی مرتبہ اردو زبان کے کلاسیکی اور عہدِ قدیم کے شاعر شیخ غلام ہمدانی مصحفی نے 1780 کے قریب کیا تھا ۔ اس زبان کے قواعد مقامی ہندوستانی لہجے ‘کھڑی بولی‘ سے ماخوذ رہی جب کہ اس کے لیے فارسی سے ماخوذ نستعلیق رسم الخط کا استعمال کیا گیا۔ہندوستان پر برطانوی حکومت کے دور میں شمالی ہندوستان میں اردو باہمی رابطے کی سب سے موثر زبان کے طور پر تسلیم کی گئی اور اس طرح سرکاری طور پر اردو نے فارسی کی جگہ لے لی۔ ہندوستان میں اردو کو انگریزی کے ساتھ سرکاری درجہ 1837 میں حاصل ہوا۔ شروع میں یہ زبان مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان موثر ترین پل کے طور پر استعمال ہوتی رہی، مگر 1867ء میں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماؤں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ كیا كہ سرکاری عدالتوں اور دفتروں میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندوؤں نے برطانوی بل بوتے پر زور پکڑتے ہی سب سے پہلا حملہ اردو زبان پر کیا اور ایک شعوری تحریک شروع کی جس کے تحت اُردو زبان سے عربی اور فارسی لفظیات کو نکال کر اس میں سنسکرت الفاظ شامل کر کے ہندی کے نام سے ایک نئی زبان بنائی گئی ۔ اور یہ کہا گیا كہ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس کی جگہ ہندی یا دیوناگری رسم الخط جاری کیا جائے۔ اس لسانی تحریک کا صدر دفتر الہ آباد میں قائم کیا گیا جبکہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں، تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جائے. اس کے اسباب لسانی سے زیادہ فرقہ وارانہ (Sectarian) تھے جن کی جڑیں ہندو احیاء پرستی میں پیوست تھیں۔ بعد میں انھیں عوامل نے ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘ کے نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں کے مذہبی اکثریتی طبقے نے دیوناگری رسمِ خط کی شکل میں اس نئی زبان کو تقویت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں اردو چشم زدن میں محض ایک اقلیتی طبقے کی زبان بن کر رہ گئی، اسی زمانے سے دو قومی نظریے کی باقاعدہ بنیاد پڑنی شروع ہوئی اور 1947ء میں برصغیر کی تقسیم وجود میں آئی۔ اردو زبان کی ابتداء کے سلسلے میں ماہرین لسانیات کے آراء کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں. میر امن لطفؔ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ اور جدید اردو نثر کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، ان کا ماننا ہے کہ “اردو زبان “عہد اکبر میں پیدا ہوئی۔ ان کے مطابق اردو ہندوؤں اور مسلمانوں کے میل جول کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح سر سید احمد خان نے اردو کی ابتدا شاہجہاں کے عہد کو بتایا ہے اور اردو کو مخلوط زبان کہا ہے”۔ محمد حسین آزاد اردو زبان کے مشہور ادیب اور شاعر انہوں نے اپنی کتاب “آب حیات”میں لکھا ہے کہ “اردو” برج بھاشا سے نکلی ہے۔ اور ان کی دلیل یہ ہے کہ مغل بادشاہوں کی حکومت کامرکزی علاقہ آگرہ تھا ، آگرہ اور اس کے آس پاس” برج بھاشا “بولی جاتی تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان برج بھاشا سے نکلی۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کی ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے سماجی، معاشرتی اور سیاسی اختلاط سے اردو زبان بنی ہے”۔حافظ محمود شیرانی اردو زبان کے مایہ ناز محقق اور شاعر نے اپنی کتاب “پنجاب میں اردو” میں اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اردو زبان اور پنجابی کی شکل آپس میں ملتی ہے اس لیے اردو پنجاب میں پیداہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم حکمران ہندوستان میں پنجاب کے راستے سے آئے تھے اور کچھ بادشاہوں نے پنجاب کو ریاست بنائی تھی ۔ مثلاً محمود غزنوی نے لاہور کو راجدھانی بنائی تھی۔ اس لیے وہاں مسلمانوں اورپنجابیوں میں تہذیبی اور سماجی رشتے قائم ہوگئے ہوں گے۔ انہوں نے لمبے عرصے تک وہاں حکومت کی اس لیے عربی، فارسی اور ترکی کے الفاظ پنجابی میں شامل ہوگئے ہوں گے اور پھر وہی زبان فوجیوں ، سپاہیوں اور تاجروں کے ساتھ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پہنچی اور اس طرح اردو زبان بنی۔ محی الدین قادری زورؔ ادیب، عالم، شاعر، افسانہ نگار، ادبی اور لسانی نقاد، تاریخ دان اور معاشرتی مصلح تھے انہوں نے اپنا نظریہ”ہندوستانی لسانیات” میں پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق اردو پنجابی سے نکلی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو اس زبان سے ترقی پاکر بنی جو پنجاب میں بارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ اردو زبان کی بنیاد مسلمانوں کے دلی فتح کرنے سے پہلے پڑ چکی تھی اور جب مسلمانوں نے دلی کو پایہ تخت بنایا تب وہاں یہ زبان پہنچی اور اس کی پہچان ہوئی۔ ” پروفیسر سینتی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نو سو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو”. سید سلیمان ندوی اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اردو زبان سے متعلق ان کا نظریہ یہ ہے کہ اردو سندھی زبان سے نکلی ہے ۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب “نقوش سلیمانی” میں کیا ہے۔ انہوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ باہر سے آنے والے مسلمان سب سے پہلے سندھ میں ہی ٹھہرے تھے وہاں وہ تقریباً چار سال تک حکومت کرتے رہے۔ اس طرح وہاں مقامی لوگوں کے ساتھ ان کا سماجی، تجارتی اور کاروباری میل جول رہا جس سے ایک ملی جلی زبان پیدا ہوئی۔ پھر وہی زبان ترقی کرکے اردو زبان بن گئی”۔ نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کے نامور مصنف، مورخ، محقق اور ماہر دکنیات تھے۔ دکنی ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جس پر نصیر الدین ہاشمی نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ دکن میں اردو اور یورپ میں دکھنی مخطوطات شاہکار تصانیف مانی جاتی ہیں، ان کا نظریہ یہ ہے کہ “اردو زبان” دکنی بولی سے نکلی۔ ان کی کتاب “دکن میں اردو” میں یہ نظریہ موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساتویں صدی میں عرب سے کئی تاجر تجارت کے لیے ہندوستان آئے اور مالابار کے ساحلی علاقوں میں ان کا قیام رہا۔ پھر رفتہ رفتہ وہ لوگ پھیلتے گئے۔ مقامی لوگوں سے انہوں نے اپنے رشتے بھی قایم کیے اور پھر بات چیت میں انہوں نے ملی جلی زبان کا سہارا لیا جس سے عربی کے الفاظ اور مقامی بولیوں کے الفاظ آپس میں مل گئے اور اس طرح ایک نئی زبان بنی۔ پھر یہی زبان ترقی کرکے بعد میں “اردو زبان ” کہلائی۔ لیکن کچھ محققین نے ان کے اس نظریے کو غلط ثابت کیاہے۔شوکت شبزواری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز ماہرِ لسانیات، نقاد، محقق اور شاعر تھے جو اپنی کتابوں اردو لسانیات، اردو قواعد اور اُردو زبان کا اِرتقا کی وجہ سے دنیائے اردو میں شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلے اپنی کتاب “اردو زبان کا ارتقا” میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اردو زبان پالی سے نکلی ہے۔ لیکن بعد میں خود ہی اسے ردکر دیا اور اپنی دوسری کتاب “داستان زبان اردو” میں انہوں نے اردو کو کھڑی بولی پر مبنی قرار دیا ہے۔ اسے انہوں نے ہندوستانی بھی کہا ہے۔ یہ بولی دلی اور میرٹھ کے آس پاس بولی جاتی تھی اور اردو اسی کھڑی بولی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ انہوں نے اس نظریے پر مدلل گفتگو کی ہے اور دوسرے ماہرین کے نظریات پر بھی گفتگو کی ہے”۔مسعود حسین خان ماہر لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سماجییات کے پروفیسر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر تھے ان کا نظریہ یہ ہے کہ اردو زبان کی بنیاد کھڑی بولی ہے۔انہوں نے یہ نظریہ اپنے ایک مضمون میں پیش کیا ہے۔ لیکن انہوں نے اسے خاص نہیں کیا ہے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ اردو کی پیدائش دہلی کے آس پاس ہوئی اور دہلی کے آس پاس چار بولیاں بولی جاتی تھیں۔ وہ چاروں بولیاں کھڑی بولی، ہریانی، میواتی اور برج بھاشا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان چاروں بولیوں نے اردو پر مختلف ادوار میں اپنے اثرات ڈالے۔ اسی پر مسعود حسین نے اپنا نظریہ قائم کیا ہے کہ نواح دہلی کی یہ چاروں بولیاں اردو کا سرچشمہ ہیں اور دلی مولد ہے۔ ان بولیوں میں کھڑی بولی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔سہیل احمد بخاری امریکہ میں مقیم اردو کے ممتاز شاعر، ادبی اور ثقافتی نقاد، ادبی ،محقق، عمرانیاتی نظریہ دان، مقالہ نگار، کہاوت نویس ،مترجم، ماہر عمرانیات اور ماہر جرمیات ہیں، انہوں نے شروع میں اپنے ایک مضمون “اردو کا قدیم ترین ادب” میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے کہ “اردو “کی اصل کھڑی بولی ہے اور اردو ہندی کھڑی بولی کے دو روپ ہیں۔ لیکن بعد میں انہوں نے اپنی کتاب “اردو کے روپ” میں ایک الگ نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ یہ کہ “اردو ہند آریائی نہیں بلکہ دراوڑی خاندان کی زبان ہے اور اس کے پیدا ہونے کی جگہ اڑیسہ ہے”۔ ان کے اس نظریے کو لوگوں نے سراسر رد کیا ہے۔ گیان چند جین اردو کے پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ نقاد، محقق، ادیب اور شاعر کے طور پر شہرت رکھتے تھے، انہوں نے اردو کی اصل کھڑی بولی کو قرار دیا ہے۔ انہوں نے پنجابی، ہریانی، برج بھاشا اور دکنی وغیرہ کے نظریات کو رد کیاہے۔ انہوں نے چند بنیادی الفاظ کو دیکھتے ہوئے اردو، ہندی اور کھڑی بولی کو ایک مانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: “اردو کے آغاز کو دو منزلوں میں ڈھونڈھنا چاہیے۔ اول کھڑی بولی کا آغاز، دوسرے کھڑی بولی میں عربی فارسی لفظوں کا شمول، جس کا نام اردو ہوجاتا ہے۔” اُردو زبان برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ اردو زبان کو پاکستان میں قومی اور رابطہ عامہ کی زبان درجہ حاصل ہے، سرکاری اسکولوں، ضلع انتظامیہ اور عوامی ذرائع ابلاغ میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں 1981 کی مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق اردو بولنے والے کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچتی ہے۔ خاص کر کراچی اور پنجاب میں اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ جبکہ اپنے ملک ہندوستان کے انتیس ریاستوں میں اردو صرف چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ حاصل کر پائی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اردو 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان ہمارے ملک ہندوستان میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اسی لحاظ سے ہمارے ملک کی چھٹی بڑی زبان ہے، جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، اور یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ اردو زبان کو پہچان اور اس کی ترقی کی راہ اس وقت ہموار ہوئی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا تھا ۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ ہندوستان میں 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے استعمال کرنے والے کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی زبان ہے اور جنوبی افریقہ کے آئین میں یہ ایک محفوظ زبان ہے۔ اردو زبان افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، اس کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطی، مغربی یوروپ، اسکینڈنیوائی ممالک (ڈنمارک، ناروے، سوئڈین) وغیرہ میں بھی اردو زبان زندہ ہے. ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 1991 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 4 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ سب سے زیادہ اردو بولنے والے اُتر پردیش میں ہیں۔ اس کے بعد بہار، آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور کرناٹک کا نمبر آتا ہے۔ مشترکہ طور پر ان ریاستوں میں پورے ملک میں اردو بولنے والوں کی 85، فیصد آبادی رہتی ہے۔ شہر دہلی ابھی بھی اردو ادب اور اردو طباعت کا بڑا مرکز ہے۔ اردو سے محبت کرنے والے کے لئے یہ خبر تشویش کا باعث ہوگی کہ پہلی مرتبہ ہندوستان میں اردو کو اپنی مادری زبان درج کرانے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ جہاں ملک کی آبادی لگاتار بڑھ رہی ہے اور تمام بڑی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اردو کے اعداد و شمار ایک الگ ہی داستان بیان کر رہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ نہ صرف اردو کو اپنی مادری زبان درج کرانے والوں کے فیصد میں کمی آئی ہے، بلکہ تعداد میں بھی قابل لحاظ کمی ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد ہر دہائی میں اردو بولنے والوں کی تعداد بتدریج بڑھتی رہی ہے۔ چنانچہ 1971کی مردم شماری رپورٹ میں یہ تعداد 2 کروڑ 86 لاکھ تھی، جو دس سال بعد 1981 میں ساڑھے 3 کروڑ ہو گئی تھی۔ اس کے بعد1991 میں یہ 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس صدی کی پہلی مردم شماری یعنی 2001 میں یہ 5 کروڑ 15 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔مگر2011 کی مردم شماری، جس کی رپورٹس کافی بعد میں آیئں، اور جس میں زبانوں کے اعداد و شمار کے تجزیہ کی رپورٹ جاری کی گئی ہے، اس میں یہ تعداد بڑھی نہیں ہے بلکہ کم ہوئی ہے۔ یعنی اب اردو ہندوستان میں سرکاری اعداد و شمار کی حیثیت سے ساڑھے چار فیصد سے بھی کم لوگوں کی زبان رہ گئی ہے، بظاہر اردو بولنے والوں کی تعداد اس سے گئی گنا زیادہ ہے مگر سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے اردو کا کمزور ہونا، اردو زبان کے لیے نیک فال نہیں ہے۔کچھ لوگوں کو رپورٹس پر شک ہونے لگتا ہے اور اس کمی کے پیچھے بھی سازش نظر آتی ہے مگر حقیقت تلخ ہے۔ یہ سچ ہے کہ زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہندوستان میں عام طور پرمسلمان ہی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کرواتا ہے۔اور گزشتہ کچھ دہائیوں کی مردم شماری سے ظاہر ہو رہا تھا کہ حالات بگڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ یوپی کو اردو کا سب سے بڑا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تقریباً پونے 4 کروڑ مسلمان رہتے ہیں مگر بمشکل 1 کروڑ 8 لاکھ نے اردو کو مادری زبان درج کروایا ہے ۔یہ سلسلہ آج سے پچیس تیس سال پہلے شروع ہو گیا تھا، تب مسلمانوں کی آبادی اور اردو آبادی کا تناسب 50 فیصدی تھا، جو بگڑتے بگڑتے 28 فیصد ی پر آ گیا ہے۔ یعنی یہاں 100 میں سے صرف 28 مسلمان اردو کو مادری زبان درج کروا رہے ہیں۔ ظاہر ہے، وہ نسلیں جن کو اردو سے جذباتی لگاؤ تھا، دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہیں۔ یہی حال راجستھان، مدھیہ پردیش اورشمال کے دوسرے صوبوں کا ہے۔ یہ وہ صوبے ہیں جہاں مسلمان عام طور پر اردو کو اپنی زبان سمجھتا تھا، بہار کی صورتحال اتر پردیش سے بہتر ہے مگر وہاں بھی حالات تسلی بخش نہیں ہیں ، وہاں مسلم آبادی پونے 2 کروڑ ہے، اور اردو گو آبادی ساڑھے 87 لاکھ ہے. جنوبی ہند اور مہاراشٹر کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ یہاں مسلم آبادی اور اردو گو آبادی میں بہت کم فرق ہے۔ تلنگانہ، آندھرا پردیش میں 81 لاکھ مسلمان ہیں اور اردو بولنے والے 75لاکھ، یعنی 90 فیصد مسلمان اردو کو اپنی مادری زبان لکھوا رہے ہیں، جبکہ شمال کے صوبوں میں یہ تعداد تیس اور بیس فیصد سے بھی کم ہے۔ کرناٹک بھی ایسا ہی صوبہ ہے جہاں اردو بے حد مضبوط نظر آتی ہے۔حد تویہ ہے کہ تمل ناڈو میں بھی اردو بولنے والوں کی تعداد راجستھان اور مدھیہ پردیش کے مقابلہ زیادہ ہے۔ گجرات، آسام اور بنگال میں مسلمان کی زبان عام طور پر گجراتی، بنگلہ اور آسامی رہی ہے، مگر شمال کی ان ریاستوں میں تو مسلم معاشرہ میں اردو کا ہی رواج تھا، اس کے بالمقابل ہندی بولنے والوں کے تعداد میں دس سال میں 10کروڑ کا حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ 42 کروڑ سے بڑھ کر یہ تعداد اب 52 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔آٹھویں شیڈیول میں شامل 22 زبانوں میں صرف اردو اور کونکنی کے بولنے والے کم ہوئے ہیں۔ شمال میں ایک بڑی اردو گو آبادی ایسی ہے جو اردو اور ہندی میں کوئی خاص فرق نہیں سمجھتی اور یہ اعداد و شمار اسی رجحان کا مظہر ہیں۔
محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل نمبر :=9933598528