علماء امت کے چراغ ہیں
محمدتوحیدرضاعلیمی بنگلور
قرآن وحدیث میں حصول علم دین کی بہت تاکید آئی ہے پارہ 22سورہ فاطرآیت نمبر 28 میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا۔ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ابنِ ماجہ اور مشکٰوۃ شریف میں رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے ہر مسلمان مرد عورت پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے دوسری جگہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہی کیوں نہ ہو یعنی حصول علم کے لیے بہت دور کیوں نہ جانا پڑے۔العلم نور۔علم نور ہے علم روشنی ہے اور جہل تاریکی علم تاریکی کو دور کرکہ راستہ دیکھاتا ہے مال کی حفاظت انسان کرتا ہے اورانسان کی حفاظت علم۔مال تقسیم سے گھٹا ہے اور علم بڑھتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے ہمارے لئے علم ہے اور جاہلوں کے لیے مال۔عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے ۔شیطان پر عالمِ دین عابد سے زیادہ سخت ہے۔ ترمذی شریف و مشکٰوۃشریف میں محبوبِ خدا رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک فقیہ یعنی ایک عالم دین شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔علم دین سے دل زندہ ہوتا ہے۔عالم کی فضیلت جاہلوں پر ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت ستاروں پر(فیضانِ شریعت 619ص)حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ جس نے قرآن کاعلم سیکھااس کی قیمت بڑھ گئی جس نے علم فقہ سیکھا اس کی قدر بڑھ گئی۔
جس نے حدیث سیکھی اس کی دلیل قوی ہوئی جس نے حساب سیکھا اس کی عقل پختہ ہوئی جس نے نادر باتیں سیکھی اسکی طبیعت نرم ہوئی اور جس نے اپنی عزت نہیں کی اسے علم نے کوئی فائدہ نہ دیا (مکاشفۃ القلوب)
کیاعالم اور جاہل دونوں برابر ہیں
قرآنِ مقدس میں یہ واضح انداز میں ہماراخالق ومالک رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ کیاعالم اور جاہل دونوں برابر ہیں مطلب و مقصد صاف عیاں ہے کہ عالم نوروالاہے اور جاہل اندھیرے میں ہے اور جہالت موت ہے اور علم زندگی ہے قرآنِ مقدس پارہ نمبر 23 سورہ زمر آیت نمبر ۹میں اللہ نے ارشاد فرمایا۔ تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔ قرآن و احادیث میں جس علم کی فضیلت کو بتایا گیا ہے اور مولا علی شیرِ خدا نے جس علم کو زندگی سے تعبیر فرمایا ہے تو آخر ہم معلوم کریں وہ کونسا علم ہے؟کیا وہ اسکول اور کالج کا علم ہے تو نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ علمِ قرآن و حدیث کا علم ہے شریعت و سنت کا علم ہے وہ علم ہے جس کو پڑھ کر ہمارے مدرسوں کے بچے حافظِ قرآن عالم دین بنتے ہیں ،جلیل القدر محدث حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایاکہ بے شک یہ علم(یعنی قرآن وحدیث کاعلم) دین ہے۔محترم دنیاوی تعلیم کا حصول منع نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ دین و ایمان سلامت رہے عالم حافظ مفتی قاری اس وقت بنتے ہیں جب وہ اپنے شہر سے اپنے گاؤں سے ماں باپ بھائی بہن رشتہ داروں کو چھوڑ کر برس ہا برس کسی دینی درسگاہ میں قابل علماء کی نگرانی میں بڑی محنت ومشقت سے رات دن ایک کرکہ وقت کی پابندی کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لئے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے جب تک کہ واپس لوٹ نہ آئے۔سیدنا حضرت ابو داؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص علم تلاش کرنے کے لئے کسی راہ پر چلتا ہے اللہ عزوجل اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور بے شک فرشتے طالب علم کے عمل پر رضامند ہوتے ہیں اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں زمین وآسمان کی ہر چیز حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں عالم کے لئے طلب مغفرت کرتی ہیں عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو تمام ستاروں پر فضیلت حاصل ہے ترمذی مشکٰوۃابوداؤد شریف میں ہے کہ ہمارے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک علماء انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث(نائب) ہیں اور انبیائے کرام علیہم السلام دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے وہ علم کا وارث بناتے ہیں پس جس نے علم حاصل کیا اس نے اچھا خاص حصہ پایا۔جب علم ہی نہیں تو عمل کیاہوگا۔جس خیاباں میں شجر نہیں تو پھل کیاہوگا
مفتیء اعظم کرناٹک مفتی انور علی علیہ الرحمہ کی 52سالہ دینی خدمات
عالِم کی موت عالَم کی موت ہے عالِم کی موت بہت بڑا نقصان ہے عالِم کی موت ایسی مصیبت ہے جس کی تلافی نہیں ہوسکتی اور ایسانقصان ہے جو پورا نہیںہوسکتا مفتی ء کرناٹک علم کی دنیا کا روشن ستارہ تھے اور وہ ستارہ ماند پڑگیا اور ایک پورے قبیلے کی موت ایک عالِم کی موت سے ہلکی ہے علماء امت کے چراغ ہیں توایک گراں قدروناقابل فراموش چراغ بجھ گیا حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انور علی حشمتی رضوی قبلہ نور اللہ مرقدہ جماعت اہل سنت کے مشہورو معروف عالم دین وریاست کرناٹکاکی عظیم علمی شخصیت تھے جنہوں نے ریاست ِ کرناٹکا میں52 سالہ خدمتِ دین کے فرائض انجام دئے اور اپنی زندگی کااکثرحصہ قوم وملت کوعطافرمایا مفتی صاحب نرم مزاج و عمدہ اخلاق کے مالک تھے آپ ریاست کرناٹک کے سب سے بڑے عالم دین تھے، ان کا زہدوتقویٰ وطہارت اور علم بڑااعلیٰ تھا، علم حدیث وفقہ پر کامل دسترس حاصل تھی آپ کا وصف خاص یہ ہے کہ آپ سائل کے سوال کا شافی وافی وکافی جواب عطافرماتے تھے حتی کہ اگرموقع ومحل پرجا کر مسئلہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتے تو آپ بلاتکلف وہاں پہنچ کر مسئلہ کی شرح وبسط کے ساتھ وضاحت فرمادیتے۔آخری وقت تک آپ نے وعظ ونصیحت کی محفل گرم رکھی یہاں تک کہ ضعف ونقاہت کے باوجود جلوس محمدی ﷺ رام نگرم کے اختتام پر پہنچ کرعوام وخواص کو دین وسنت پر قائم رہنے کی تلقین فرمائی اور مفتی ء کرناٹک جلالت العلم حضور حافظِ ملت حضرت علامہ عبدالعزیز مرادآبادی علیہ الرحمہ کے شاگردخاص رہے آپ کے دل میں اہل سنت کے تعلق سے بڑادرد تھا کہ یہ عقائد واعمال میں مضبوطی پیداکریں اور اسی پرقائم ودائم رہیں۔آپ علماء سے بہت محبت فرماتے تھے اور آپ ہرچھوٹے بڑے سے بڑی خندہ پیشانی سے ملاقات فرماتے آپ کی ذات یقینا نمونۂ اسلاف تھی۔آپ استقامت کے ایک کوہ گراں تھے۔آپ غیروں کے لئے جتنے سخت تھے اس سے بڑھ کر اپنوں کے لئے رحم دل ومہربان تھے۔آپ کی ذات صرف مرجع عوام وخواص ہی نہیں بلکہ مرجع العلماء بھی تھے آپ نے ہمیشہ اہل سنت کے درمیان باہم اتحاد واتفاق پر زوردیا مگر جن کے عقائد بگڑے ہوئے تھے یا جو لوگ راہ ِ راست سے ہٹے ہوئے تھے ان سے اتحاد تو دور کی بات ان کانام لینا بھی پسند نہیں فرمایا۔مفتی صاحب ادارہ شرعیہ کرناٹک کے صدر تھے اور تادم آخر اسی منصب پر فائز رہے۔آپ حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضاخان علیہ الرحمہ کے معتمد خاص تھے۔حضور محدث کبیر مدظلہ العالی بھی آپ پر کامل اعتماد وبھروسہ فرماتے ۔ایک مرتبہ فرمایا کہ جس جلسہ میں مفتی کرناٹک شامل ہوں وہ ہرطر ح کے گھال میل سے پاک ہوگا تبھی وہ شریک ہوتے ہیں۔مذہب اہل سنت اورمسلک رضا کی ترویج واشاعت کے حوالے سے پورے صوبۂ کرناٹک کی ایک آن اور شان کا نام حضور مفتی کرناٹک تھا آپ تقویٰ وطہارت ،خوف وخشیت الٰہی اور عشق رسول ﷺ میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔،ہردور میں فتنے اٹھے توعلماء نے ان فتنوں کا منھ توڑجواب دیا مفتی ء کرناٹک نے پوری زندگی وقت کے فتنوں کو کچل کر رکھ دیاہے مفتی صاحب سے جو بھی سوال کیاجاتا مفتی صاحب فوراََمدلل ومفصل جواب عنایت فرماتے مفتی صاحب ساری زندگی ایقائے حق وابطال باطل کرتے رہے مرکز اہل سنت جامعہ حضرت بلال بنگلور آپ کی محنتوں،کوششوں اور کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔اس کا اعتراف تو بانی جامعہ الحاج اے امیرجان قادری نے بارہا کیا بھی ہے۔اس میں دارالافتاء اور دارالقضاہ کا قیام بھی آپ ہی کے مرہون منت ہے۔آپ کی ذات ایک چلتی پھرتی لائبریری اور جامعہ تھی۔جامعہ حضرت بلال میں ایک مرتبہ فسخ نکاح پر فقیہ النفس مناظراہل سنت مفتی مطیع الرحمن رضوی قبلہ ۔مبلغ اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی اور مفتی کرناٹک علیہ الرحمہ کے مابین کئی گھنٹوں تک بحث ومباحثہ جاری رہا۔علامہ قمرالزماں اعظمی نے وقت رخصت فرمایا حضرت مفتی کرناٹک پڑھائی کے زمانہ میں بھی بہت تیز تھے مگراتنا عرصہ گزرنے کے باوجود گفتگوسے اندازہ ہوتاہے کہ آ پ کا علم آج بھی زندہ وجاوید ہے۔
انتقال کی رات آپ نے اپنے قریبی علماء ومتعلقین کو کچھ وصیت فرمائی کہ جیساکہ تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ طویل علالت کے باعث ضعف ونقاہت کی وجہ سے بعذرشرعی میری کچھ نمازیں قضاہوگئیں ہیںجن کا میں نے حساب لگالیاہے اور ان کا فدیہ تقریبا ایک لاکھ روپیوں سے کچھ زیادہ ہے لہذامیں نے وہ فدیہ بھی اٹھارکھاہے میرے وصال کے بعد اس کو دینی کاموں میں خرچ کردینا۔اس بات کی گواہی محفل میں موجود مولانا فخرالدین نظامی نے دی کہ میں اس وقت موجود تھا جب آپ نے یہ وصیت فرمائی۔یہ بات ہمارے لئے یقینا مشعل راہ ہے مفتی ء کرناٹکاکی رحلت کی غمناک خبرسے سارے سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں میں گہرے غم کی لہر ڈوڑپڑی یہ امت مسلمہ کے لئے عظیم خسارہ رہا مفتی انور علی علیہ الرحمہ بسڈیلہ گائوں بستی ضلع یوپی میں پیدا ہوئے اور رام نگر شہرکرناٹکامیںیکم اکتوبر ۲۰۲۳بروز اتوار صبح ۴۵۔۴ منٹ پر دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے اگلے ہی دن بروز پیر حضرت مفتی صاحب کی نماز جنازہ پڑھی گئی جن کی نمازِ جنازہ میں کثیرتعدادمیں علماء عمائدین عوام و خواص حاضر رہے او رام نگرشہر ہی میں مدفن کیا گیا مدفن سے پہلے ہی قبر میں خوشبو پھوٹ رہی تھی حالانکہ مفتی صاحب کو ابھی مدفن نہیں کیاگیاتھا اور کرناٹکا کے مخطلف علاقوں کی مساجد مدارس اور دیگرجگہوں پرقرآن خوانی ودعائیہ مجلس اور تعزیتی اجلاس منعقد کئے گئے شہربنگلورمیں 10اکتوبربروز منگل بعد نماز عشاء مفتی سید ذبیح اللہ نوری صاحب کی صدارت میں ایک تعزیتی اجلاس میں مفتی محمداسلم مصباحی چیف قاضی ادارہ شرعیہ کرناٹک حضرت علامہ مفتی اصغرعلی رضوی رام نگر حضرت علامہ مولانا حافظ و قاری مفتی سید ذبیح اللہ نوری اورحضرت مولانا حافظ و قاری ذوالفقاررضانوری اورمولاناسید ربانی صاحب مولانا عاقب رضانوری وحضرت حافظ وقاری اجمل خوشحالی صاحب اور دیگر علمائے اہل سنت نے حضرت مفتی انور علی حشمتی رضوی کی وفات پر تعزیت کا اظہارکیا اوریہ تحریر انہیںمفتیانِ کرام و علمائے ذوی الاحترام کی تقاریر کا نچوڑہے اور دارالعلوم شاہ جماعت ہاسن کے شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی مظہرالحق نوری نے بھی ہاسن سے تعزیت کا اظہارکیاہے
حضرت مفتی شریف الرحمن رضوی بنگلور نے کہاکہ یقینا مفتی انور علی علیہ الرحمہ موت العالم موت العالم کے مصداق تھے وہ عالم شریعت و طریقت نباض قوم وملت تھے صوبہ کرناٹک میں جن کا نام جن کی ذات دینیات کے حوالے سے ایک اتھارٹی کی حیثیت سے تسلیم کی جاتی تھی اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے حضرت مفتی کرناٹک سے میرے درینہ اور گہرے تعلقات تھے دین وسنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کے کار میں ہم شانہ بشانہ رہتے تھے ایام علالت میں بھی وقتاََ فوقتاََ عیادت و مزاج پرسی کے لئے حاضر ی ہوتی تھی یہ چند سطور عزیز گرامی حضرت محمدتوحیدرضاصاحب کی فرمائش پر قلم بند کردیا ہے مولانا نے مفتی کرناٹک کی ذات وشخصیات پر مضمون تحریر کیا ہے اسی تناظر میں بطور تاثرباتیں عرض گزارکردی ہیں مولانا کے مضامین اکثرموقعوں پراخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیںاسی کی یہ بھی ایک کڑی ہے ۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
محمدتوحیدرضاعلیمی نے کہاکہ ریاست کرناٹکا کے معروف عالم دین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انور علی حشمتی رضوی قبلہ نور اللہ مرقدہ کئی سالوں تک ریاست کرناٹکا کے مفتی ء اعظم کرناٹک بنے رہے اورمفتی ء کرناٹک ریاست کرناٹکا کے کئی علاقوں میں خدمت دین کے فرائض بحسن و خوبی سر انجام دئے ہیں مفتی صاحب کی باون سالہ خدمت دین میں مسائل شرعیہ میںعوام تو عوام حفاظ علماء ومفتیان شرح متین نے کئی طرح سے استفادہ حاصل کرتے رہے مفتی صاحب کی حیات میںمسلمانان اہل سنت یہ فخرسے کہتے کہ ہم میں مفتی ء کرناٹک موجود ہیں جب بھی جو بھی مسئلہ درپیش ہوتا تو مفتی ء کرناٹک اسے قرآن و سنت کی روشنی میں مدل و مفصل تسلی بخش جواب عنایت فرماتے مدارس اسلامیہ و مساجداہل سنت وتنظیمات اہل سنت کے علمائے کرام وذمہ دارحضرات اور عوام اہل سنت سے برابررابطے میں رہتے ہمیشہ دین متین کی ترویج و اشاعت کی خاطر لیل و نہار کوشاں رہتے علماء و عمائدین کی دعوت پر سخت علالت میں بھی جلسہ گاہ تشریف لاتے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے اب ریاست کرناٹک میںایک عظیم جیدوقابل مفتی اعظم کے وصال کے بعد خلاء محسوس کیاجارہاہے
علم کے فنکار ہیں انور علی
حق کی ایک للکار ہیں انور علی
سچ تو یہ ہے اہل باطل کے لئے
حشمتی تلوار ہیں انور علی
تحریر۔محمدتوحیدرضاعلیمی بنگلور
مرکزاہل سنت جامع حضرت بلال بنگلور
نوری فائونڈیشن بنگلور
tauheedtauheedraza@gmail.com
9886402786