پلوامہ میں کلچرل ہال اور پریس کلب تعمیر کیا جائے 104

پلوامہ میں کلچرل ہال اور پریس کلب تعمیر کیا جائے

ادب نوازوں اور صحافیوں کی ضلع ترقیاتی کمشنر پلوامہ سے اپیل
عبدالرحمان فدا
لیتہ پورہ پلوامہ

جنوبی کشمیر کا ضلع پلوامہ جو قدرت کی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہے اور گذشتہ کئی صدیوں سے اپنی خصوصیات کی وجہ جن میں مہکتے ہوئے زعفران زار، شالی کی وافر مقدار گھنے گھنے جنگل اور جنگلوں میں قد آور درختان دیور، دودھ کی بکثرت پیداوار، میوہ باغات قسم وار، سبزہ زاروں اور کوہساروں کی وجہ سے مشہور ہے ۔وہیں اس ضلع کی مٹی علم و ادب کے حوالے سے زمانہ قدیم سے کافی ذرخیز رہی ہے اور آج بھی خدا کے فضل و کرم سے اپنی شان برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کشمیری زبان میں شعر و شاعری کی ابتدا یہاں سے ہی ہوئی جس کا سہرا عالمی شہرت یافتہ للہِ عارفہ کے سر جاتا ہے۔ ان کے بعد کئی نامور ادبی شخصیات نے اسی سرزمین سے جنم لیا ارو للہِ عارفہ کے مشن کو آگے لے جانے میں اور اپنی مادر زبان کو بام عروج پر پہنچانے میں نمایاں رول ادا کیا اور اپنا نام ادبی دُنیا کے اُفق پر رقم کیا جن میں حبہ خاتون، وہاب کھار ، ہادی کھار ، ریش اسماعیل، مومن صاب، قادر گور، سوچھ کرال، کبر میر، ولی بٹ، ثُنہ میر، غلام احمد مہجور، عاشق ترالی، رجب حامد، سید غلام محی الدین نواز، سید شمس الدین غمگین، سید غلام محی الدین خوشباش، سید غلام رسول غیور، عبدالرحمان آزاد، غلام حسن بیگ مفتون، سید غلام مصطفے امید عبدالغنی مسکین، غلام احمد حیا، ٹھاکر سنگھ زخمی، محمد یاسین مخفی، عبدالرشید قرار اور افضل شفیق کے نام قابل ذکر ہیں وہیں اس سر زمین سے آج بھی ایک بہت بڑا کاروان عملی میدان میں کافی لگن کے ساتھ رواں دواں ہیں، جو اپنی مادر زبان کا دامن وسیع سے وسیع تر کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان قلمکاروں میں مایہ ناز افسانہ نگار ، مکالہ نگار اور ڈرامہ نویس بھی شامل ہیں۔
فخر کی بات ہے کہ ضلع پلوامہ صحافت کے میدان میں بھی کئی گنا آگے بڑھ چکا ہے اور یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ آج یہاں سے جو اخبارات شائع ہورہے ہیں اُن کی تعداد نصف درجن سے زیادہ ہے۔ پلوامہ سے شائع ہونے والا ایک اور اخبار ہفت روزہ ندائےکشمیر ہے ۔یہ ہفت روزہ 24صفحات پر مشتمل ہے اور اس ہفت روزہ میں کم از کم 18صفحات ادب کیلئے ہی وقف رکھے گئے ہیں۔ جس میں کشمیری، اردو اور انگریزی شامل ہے۔ اور یہ اخبار ادبی دنیا میں صف ائول کا درجہ رکھتا ہے۔ اس ہفت روزہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف مقامی یا غیر مقامی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی ادبا بھی اپنی نگارشات شائع کرانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ضلع پلوامہ کا ماضی انتہائی تابناک، درخشندہ اور گراں قدر رہا ہے اور الحمد اللہ زمانہ حال میں اُس سے بھی کئی گنا آگے بڑھ چکا ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ضلع پلوامہ میں ابھی تک کلچرل اور پریس کلب ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ راقم الحروف نے ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے کئی بار ذمہ دارانہ ادبی پلیٹ فورموں سے ارباب اقدار سے کلچرل ہال اور پریس کلب کی مانگ جتلائی ہے جو صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ حالانکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے میری گذارشات کو من و عن ذمہ داراں تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی مگر جواباًکہا گیا کہ اراضی کی نشاندہی ہوچکی ہے کبھی کہا گیا کہ فنڈس بھی اس مقصد کیلئے واگذار ہوئے ہیں جو صرف کھوکھلے وعدے ثابت ہوئے اور زمینی سطح پر کچھ بھی نہ ہوا۔
اب ہم پھر ایک بار ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر بصیر الحق چودھری سے ملتمس ہیں کہ وہ اس معاملے میں ذاتی دلچسپی سے کام لے کر ضلع میں ایک کلچرل ہال اور پریس کلب تعمیر کروانے کے احکامات صادر فرمائیں تاکہ ادبی تقریبات، سمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد آسانی سے ہوا کرے جس سے علم و ادب اور صحافت فروغ پائے ۔ اب تو ہم ایسے مجالس کو تعلیمی اداروں میں عملی جامہ پہناتے ہیں مگر کبھی ایسا ہوتا کہ ہمیں بے آبرو ہوکر وہاں سے واپس لوٹنا پڑتا ہے اُن کی اپنی مصروفیات کو مد نظر کھتے ہوئے۔
یہ بات چشم کُشا ہے کہ جس رفتار سے ہمارے ضلع میں تعمیر و ترقی ہورہی ہے چاہے تعلیمی نظام میں، طبی شعبے میں، آب رسانی یا سڑک رابطے وغیرہ غرض کہ عوام کو جو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں وہ قابل ستائش ہیں مگر یہ سب کچھ وثوق سے موجودہ ڈی سی صاحب کی ذاتی کائوشوں کا نتیجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ضلع پلوامہ کو متواتر گذشتہ، دو سال سے گوڈ گورننس کے زمرے میں لایا گیا ۔ امید ہے کہ علم و ادب اور صحافت سے جڑے افراد کی فریاد اب کی بار نتیجہ خیز ثابت ہوگی اور ہمارا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوکر رہے گا۔ انشا اللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں