154

لداخ کی تاریخی اہمیت

افتخار گیلانی

جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پسماندہ لداخ خطہ ، جہاں اسوقت چینی اور بھارتی فوج برسرپیکار ہے۔ ایک صدی قبل تک خاصا متمول اور متحدہ ہندوستان ، تبت، چین ، ترکستان و وسط ایشیا کی ایک اہم گذرگاہ تھا۔ خوبصورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک رنگ برنگے اونچے پہاڑ، بنجر اور ویران لمبے چوڑے میدان، خاصی حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثل ہیں۔ پچھلے سال اگست میں بھارت نے اس خطہ کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام کر دیا۔ دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطے کا رقبہ نقشہ پر 97,872مربع کلومیٹر ہے۔ مگر اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر تصرف ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف 58,321مربع کلومیٹر ہی ہے۔ اکثر لکھاری اس خطے کو بدھ اکثریتی علاقہ گردانتے ہیں جبکہ 2011ءکی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی دو لاکھ 74ہزار کی آبادی میں 46.40فیصد مسلمان اور 39.65فیصدبدھ مت کے پیروکار ہیں۔ اس خطے کی نامور شخصیت اور تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا ، کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کیلئے ترکستان یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کیلئے لداخ ایک اہم زمینی رابط تھا۔ لیہہ شہر میں بدھ خانقاہ نمگیال سیمو گمپا اور اس سے کچھ فاصلے پر تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے رہتے ہیں۔لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق کشمیر کی طرح لداخ بھی 20 ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کی بقا ،ترقی ، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند دروں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کیلئے کھولنے میں ہی مضمر ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے کے بلند و بالا پہاڑوں سے ہوکر گذرتی تھی۔ چین کے ذریعے 1949ءمیں مشرقی ترکستان یعنی سنکیانگ پر اور پھر 1950ءمیں تبت پر قبضہ کے بعد آہنی دیوار کھڑا کرنے سے راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان 1947ءمیں تقسیم ہند اور تنازع کشمیر کی وجہ سے خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔ 1962ءکی بھارت چین جنگ سمیت، یہ خطہ پانچ جنگیں جھیل چکا ہے۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی روابط منقطع کروا کے اسکو غریبی اور افلاس میں دھکیل کر رکھ دیا ہے۔ نویں صدی کی ایک فارسی قلمی دستاویز حدود عالم کے بقول وسط ایشیاءکے جو لوگ حج پر جاتے تھے ،لداخ ان کیلئے ایک اہم پڑاؤ ہوتا تھا، ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطہ کے ایک ذریعہ کے بطور رائج ہوگئی تھی۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ارغون کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد قابل ذکر ہیں۔ 90ءکی دہائی تک لداخ میں مسلم اور بدھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مغل دور میں لداخ کے باج گذار نمگیال خاندان کے فرمانروا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لداخی بدھ البتہ ڈوگرہ ہندوؤں کے تئیں خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں پار ہے تھے کہ جب 1841ءمیں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر جو ں جوں بھارتی سیاست کے عنصر لداخ میں پروان چڑھتے گئے، دونوں فرقوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بدھ فرقہ کو بتایا گیا کہ ان کی پسماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم یعنی 0.89فیصد تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔ اسلئے 90ءکے اوائل میں یہاں کی بد ھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرنے اور مرکز کا زیر انتظام علاقہ بنانے کیلئے ایجی ٹیشن شروع کی۔ مسلمانوں نے اسکی جم کر مخالفت کی۔ اس کے رد عمل میں بد ھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی ، جو 1994ءتک جاری رہا۔یہ شاید دنیا کی تاریخ میں کسی بھی فرقہ کے خلاف طویل ترین بائیکاٹ ہوگا۔
لداخ کا خطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض 620مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بدھ کلچر کا حصہ ہیں۔ خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بھارت پاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ 1999ءکی کرگل جنگ کے بعد جب دیہاتوں کی سرکاری طور پر پیمائش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ میں ہی نہیں ہیں۔ اس لیے2001کی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب 47فیصد ہے اور بدھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بدھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھاری ابھی بھی پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے یہاں کی زمینوں و جائیداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ لداخ کو باقی دنیا سے ملانے والے دو راستے سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھ ماہ کےلئے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اسکردو کے درمیان 192کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروں اور قافلوں کا پچھلی کئی دہائیوں سے انتظار کر رہے ہیں۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان یعنی دو اونٹ والے کوہان ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے چند برس قبل سلیم بیگ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزوین کرکے اس کے متصل تین منزلہ میوزم بنایا۔ یہ میوزیم اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیاءکے درمیان تاریخی روابط کا شاہکار ہے۔ترک ارغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس میوزیم کی نذر کیا۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات جامع مسجد سے یہاں منتقل کئے گئے۔ 17ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔فی الوقت چینی اور ہندوستانی فوجوں کے کشمکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک ترک ارغون غلام رسول گلوان کے نام سے موسوم ہے، جو ایڈونچر کے شوقین برطانوی سیاحوں کےلئے گائیڈ کا کام کرتے تھے۔ 1892ءمیں ایرل آف ڈیمور کی قیادت میں سیاحوں کے قافلہ کو جب و ہ گائیڈ کر رہے تھے، تو یہ قافلہ برفانی طوفان میں گھر کر بھٹک گیا۔ اپنی کتاب ”لداخ کی تہذیب و ثقافت“میں عبدالغنی شیخ لکھتے ہیں کہ گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔ایرل آف ڈیمور نے اس وادی، جس کو انہوں نے دریافت کیا تھا، گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔
افغانستان کی طرح یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یعنی گریٹ گیم کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور بعد میں برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہ راست علمداری کے بجائے اس کو ایک بفر علاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ پوری آبادی اب ایک الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گذارنے سے عاجز آچکی ہے۔جب لداخ کو کشمیر سے الگ کیا گیا، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کے لیے بھیجا گیا، تو تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ زور زبردستی سے ان کو اس مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے کیڈر میں شامل کیا گیا۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق ہندوستان، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوجی نقطہ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ خط ایک بار پھر تجارت، روابط اور تہذیبوں کے ملن کا مرکزبن سکے۔ اس کےلئے اشد ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پر امن حل تلاش کیا جائے تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔
(بشکریہ: دی وائر اردو)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں