حج کا مفہوم اور اس کی اہمیت و افادیت 302

حج کا مفہوم اور اس کی اہمیت و افادیت

(حصہ اول)
از قلم شگفتہ حسن
حج کا مفہوم:
حج عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے لغوی معنی ” قصد” کرنا، “زیارت” کرنا یا ” ارادہ” کرنا ہے۔ ارادہ سے مراد سفر کرنے کا ارادہ ہے جو حج کرنے کی غرض سے دنیا بھر کے ہر رنگ و نسل کے مسلمان اختیار کرتے ہیں۔ حج ۹ ہجری میں ہر ایک مسلمان مرد و عورت اور ہر بالغ پر فرض ہوا۔ حج اسلامی سال کے آخری مہینہ ذی الحجہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ۸ ذی الحجہ کی صبح سے شروع ہوتا ہے اور مسلسل پانچ دن جاری رہتا ہے اور ۱۲ ذی الحجہ کی شام کو مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کا عظیم دینی اجتماع ہے۔ یہ ایک ایسی جامع عبادت ہے جو کئی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ عبادات مناسکِ حج کہلاتی ہیں۔ دین اسلام میں حج ایک عالمگیر اور جامع عبادت ہے۔ حاجی سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے گھر بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور دوسرے متعدد مقدس مقامات پرحاضری دیتے ہیں اور فریضۂ حج ادا کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تمہارا معبود ہے اور محمّد ﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ (بخاری شریف)
اسلام نے ان خاص عبادتوں کو فرضِ عین قرار دیا اور انہیں ارکانِ دین یعنی” دین کے ستون” کہا ہے۔ جس طرح ایک عمارت چند ستونوں پر قائم ہوتی ہے اسی طرح اسلامی زندگی کی عمارت بھی ان ستونوں کر قائم ہے۔ گویا اسلام کے پانچ ارکان میں سے حج پانچواں رکن ہے۔ یہ ہر مسلمان کے لئے عمر میں صرف ایک مرتبہ ادا کرنا ضروری ہے اور وہ بھی صرف ان کے لیے جو سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ تک جانے کی طاقت رکھتے ہو۔ (صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
” اور لوگوں پر اللہ کا حق (فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی طاقت رکھے وہ اس کا حج کریں”۔ (آل عمران:۹۷)
بیت اللہ شریف عبادت کا مرکز:
بیت اللہ شریف یعنی اللہ تعالیٰ کا گھر سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں واقع ہے، یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا قبلہ اور عبادت کا مرکز ہے۔ یہ اب سے ہزاروں برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھوٹا سا گھر اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل کو قبول فرمائے، ان کی اولاد میں سے فرماں بردار اُمت پیدا فرمائے، اور اس شہر کو امن و ثمرات کا شہر بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے خلوص اور محبت کی قدر فرمائی اور ان کی دعا قبول فرمائی کہ اس کو اپنا گھر قرار دیا اور فرمایا کہ جس کو ہماری عبادت کرنی ہو وہ اسی گھر کی طرف رخ کر کے عبادت کرے اور فرمایا ہر مسلمان زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ شریف کی زیارت کے لیے آئے اور اسی محبت کے ساتھ ہمارے اس گھر کا طواف کرے جس کے ساتھ ہمارا پیارا بندہ حضرت ابراہیم علیہ السلام طواف کرتا تھا۔
حج کی فرضیت اور اس کی اہمیت و فضیلت:
دینِ اسلام میں حج کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث میں حج ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: اور لوگوں میں سے جو لوگ اس (بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔ اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دُنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے پروا ہے۔‘‘ (سورۂ آل عمران)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’ اے لوگو! تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج ادا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)
قرآن و حدیث میں جہاں فریضۂ حج ادا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے وہی استطاعت کے باوجود فریضۂ حج ادا نہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کرتا تو اُس کے لئے فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی، سب برابر ہے”۔ (ترمذی)
حج کے فوائد:
قرآن و حدیث میں حج کے بے شمار عظیم فوائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے خاص اللہ تعالیٰ کے لیے حج کیا، اس میں نہ کوئی فحش گوئی کی، نہ کوئی گناہ کیا اور اس دوران وہ ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچا تو وہ شخص اُس دن کی مانند (اپنے گھر کی طرف واپس) لوٹتا ہے، جس دن کہ اُس کی ماں نے اُس کو جنا تھا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حج ایک بہت بڑی عبادت ہے کیونکہ حج کے عمل سے اللہ تعالی کے ساتھ خاص وابستگی کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ حج اللہ سے محبت اور شہادت کی دلیل ہے۔
حج مسلمانوں کے دلوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے، حج انسان کی نفسانی خواہشات کو تقویٰ کے راستے پر ڈالنے کا ذریعہ ہے، حج خون ریزی، بد کاری، جھوٹ، چوری، غیبت اور بدزبانی سے بچنے کا ذریعہ ہے، حج باہمی اتحاد اور نظم و ضبط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، حج گناہوں کے کفارے کا اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا بے مثال ذریعہ ہے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
حج اور عمرے کو ملا کر کرو! کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اِس طرح دُور کرتے ہیں جیسا کہ بھٹی سونے، چاندی اور لوہے کے میل کو دُور کرتی ہے۔ اور حج مبرور (یعنی حج وہ حج جس میں حاجی سے گناہ نہ ہوا ہو، اور تمام کام سنت کے مطابق ادا ہوئے ہوں) اس کی جزا (اور اُس کا بدلہ) جنت کے علاوہ (اور) کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ (ترمذی، نسائی)۔ قرآن و حدیث کے مطابق حج کے فائدے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایمان اور جہاد کے بعد سب سے افضل عمل حج ہے۔ (بخاری) حج کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ بندہ برے کاموں، گناہوں اور نافرمانیوں سے خودبخود نفرت کرتا ہے، پچھلے گناہوں پر شرمندگی محسوس کرتا ہے، سجدوں میں رونے لگتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے، ہر وقت عبادت اور ذکر الہٰی میں مشغول رہتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے، روزے رکھتا ہے اور اس طرح اس بندے کا دل اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے عشق اور محبت سے بھر جاتا ہے۔ حج ہر سال زمین کے ہر کونے سے ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی مرکز پر ایک جیسا لباس زیب تن کر کے لاکھوں کی تعداد میں جمع کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے گھر میں لبیک کہنے، اللہ کی بندگی اور اجتماعی عبادت کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے جس کی بدولت آپس میں دین کی محبت قائم ہوتی ہے اور یہ نقش ان کے دلوں میں بیٹھ جاتا ہے کہ مسلمان خواہ کسی بھی رنگ و نسل کے ہوں سب ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں۔ گویا حج ہر رنگ و نسل کا فرق مٹا دیتا ہے۔ حج اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کی تربیت فراہم کرتا ہے۔ مسلمان حج کی بدولت اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے کاروبار، اپنے گھر بار، اپنے عزیزوں اور دنیا کے عیش و آرام کو چھوڑ کر اتنے لمبے سفر کی مشقت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں حاجی شیطان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جس کے ذریعہ حاجیوں کو انسان کے کھلے دشمن شیطان سے حفاظت کا مؤثر سبق ملتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں