ملک منظور
گاؤں کی ایک پارک میں بچے جوق در جوق آرہے تھے ۔یہ رش توقع کے برعکس تھا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں الگ الگ قسم کی کتابیں تھیں ۔کسی کے ہاتھ میں سائینس کی کتاب تھی تو کسی کے ہاتھ میں میتھ کی کتاب تھی ۔کوئی کمپیوٹر بک لایا تھا تو کوئی ہسٹری کی ضخیم کتاب۔نہ امتحان کا وقت تھا اور نہ ہی کوئی ٹیوشن سینٹر ۔سب بچوں نے ایک بڑا دائرہ بنایا تھا ۔دائرے کے اندر سینٹر میں فہیم اور اس کا خالہ زاد بھائی روبو تھا ۔روبو کی ذہانت نے سب بچوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا ۔اس کی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیتوں نے بچوں کو کافی متاثر کیا تھا ۔سارے بچے ایک ایک کرکے روبو سے سوالات پوچھ رہے تھے ۔کوئی کمپیوٹر کا مشکل ترین سوال پوچھتا تھا تو کوئی ہسٹری کا بہت پرانا سوال ۔میتھس والے تو سوال پوچھ پوچھ کر اب ہار گئے تھے جبکہ سائنس والوں کے ذہہن میں اب کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا تھا ۔
تمنا نے گھر آکر اذہان کو یہ بات بتائی تو وہ بھی پلک جھپکتے ہی پارک میں پہنچ گیا۔اذہان ایک چالاک بچہ تھا ۔اسکول میں سب اس کو ائنسٹائن کے نام سے پکارتے تھے۔وہ ذہین بچہ تھا ۔اس نے فہیم سے پوچھا ” یہ لڑکا کون ہے ؟ ”
” یہ میرا خالہ زاد بھائی روبو ہے ۔” فہیم نے کہا
” ہیلو روبو ” اذہان نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا
” ہیلو ” روبو نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا
اذہان نے روبو کے ہاتھ کو تھوڑا دبایا اور پوچھا ” کیا آپ میرا نام بول سکتے ہیں ؟” اذہان نے پوچھا
” نہیں ، میں آپ کو نہیں جانتا ۔” روبو نے کہا
” پھر باقی سوالات کے جوابات کیسے جانتے ہو ؟” اذہان نے پوچھا۔
” میں آپ کے نام کے بغیر سب کچھ بول سکتا ہوں ” روبو نے کہا
اذہان نے بھی کچھ سوالات پوچھے ۔جوابات سن کر وہ بھی حیران ہوگیا ۔اسکو یقین نہیں آیا کہ روبو اتنا ذہین ہوگا ۔وہ روبو کو دیر تک غور سے دیکھتا رہا ۔جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو اس نے نظام شمسی کے بارے میں جانکاری حاصل کی ۔پھر دنیا کے بڑے ممالک کے بارے میں بھی پوچھا ۔ان سب سوالوں کے جوابات سن کر اذہان دنگ رہ گیا ۔وہ جب گھر پہنچا تو ابو اور امی سے پوچھا ” کیا دنیا کا کوئی انسان اتنا ذہین ہوسکتاہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہو”
” نہیں ایسا ممکن نہیں ہے ۔” امینےکہا ۔
” کچھ لوگ غیر معمولی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں جیسے کہ تم۔ ” ابو نے کہا ۔
” کیا میرے جیسا لڑکا اتنا قابل ہوسکتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہو۔” اذہان نے پوچھا۔
” تمکہنا کیا چاہتے ہو ؟ ” امی نےپوچھا ۔
” فہیم کا خالہ زاد بھائی روبو سب سبجیکٹز کے بارے میں جانتا ہے ۔وہ بڑے کلاسوں کے سوالات کے جوابات بھی جانتا ہے” اذہان نے کہا۔
” لیکن فہیم کی خالہ کا تو کوئی بچہ ہی نہیں ہے ” امی نے کہا ” اس کے شوہر ایک ورلڈ کلاس سافٹ ویئر کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز ہیں ” ابو نے کہا ۔
اگلے دن اذہان نے اپنے ساتھ کچھ کیلے ،ٹافیاں اور چاکلیٹ اٹھائے۔ پارک میں پہنچتے ہی اس نے روبو کو پھر غور سے دیکھا ۔ بچے آس پاس بڑے شوق سے دیکھ رہے تھے کہ اذہان کیا کرنیوالا ہے ۔اذہان نے روبو کو کیلا کھانے کو دیا ۔اس نےانکار کیا ۔پھر ٹافیاں دیں ۔اس نے وہ بھی کھانے سے انکار کیا ۔پھر آخر میں اپنی من پسند چاکلیٹ آفر کی لیکن روبو نے کھانے سے انکار کیا ۔
” تم کیا کھانا پسند کرتے ہو؟ ” اذہان نے پوچھا
” میں کوئی بھی چیز نہیں کھاتا ۔” روبو نےکہا
” پھر ذندہ کیسے رہتے ہو؟ ” تمنا نے پوچھا
” میں آپ کیپرطرح کھانا نہیں کھاتا” روبو نے کہا
” مطلب تم ہماری طرح نہیں ہو۔” اذہان نے پوچھا
” میں آپ کی طرح سوچ سکتا ہوں ۔کام کرسکتا ہوں ۔بولسکتا ہوں ۔لیکن کھا نہیں سکتا ” روبو نے کہا
” کہیں تم جادو تو نہیں ہو ؟ ” ایک لڑکی نے پوچھا
” نہیں میں حقیقت ہوں ۔بالکل آپ کی طرح” روبو نے کہا
” مطلب تم ہماری طرح ہو لیکن ہمارے جیسے نہیں ہو ” اذہان نے پوچھا۔
” ہاں بالکل صحیح فرمایا ۔لیکن میں آپ کے ساتھ ہی رہنےوالا ہوں کیونکہ میں نے آپ کے ساتھ ہی جنم لیا ہے۔اور میں بیٹری پر چلتا ہوں۔” روبو نے کہا۔
سارےلڑکے یہ سن کر پریشان ہوگئے ۔بیٹری پر انسان زندہ کیسے رہ سکتا ہے ۔لیکن اذہان سمجھ گیا کہ یہ انسان نہیں ہے بلکہ انسان کی طرح دکھنے والی مشین ہے ۔
اذہان نے فہیم سے کہا ” فہیم آپ کی خالہ کا تو کوئی بچہ نہیں تھا ۔پھر یہ کہاں سے آگیا ؟ ”
وہ خاموش ہوگیا ۔کچھ کہہ نہیں پایا ۔وہ بھی حیران تھا کہ خالہ نے روبو کہاں سے لایا۔ اور روبو اتنا ذہین کیسے ہوسکتا ہے ۔لیکن دوستوں میں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لئے اس نے خاموشی اختیار کی تھی ۔
بات اسکول میں اساتذہ تک پہنچی تو کمپیوٹر سر نے کہا
“الله تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا نام اسی لئے دیا ہے کہ وہ اپنی عقل سے ہر ناممکن کو ممکن میں بدل سکتا ہے ، لیکن ساری خدائی تو خدا واحد کے ہاتھ میں ہوگی۔
آگ، پہیہ، کھیتی اور کمپیوٹر سسٹم کی دریافتوں کے بعد مصنوعی ذہانت انسانی ذندگی کی سب سے بڑی اور دلچسپ ایجاد ہے ۔اس ایجاد کی وجہ سے دنیا بھر میں حیران کن کام انجام دئیے جاسکتے ہیں ۔اس کی مدد سے ناقابل یقین مشاہدات کئے جاسکتے ہیں ۔مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت انسان کے متبادل کام کرے گی ۔پھر چاہیے کاروباری خدمات ہوں یا گھریلو کام کاج ، نگرانی ہو یا صاف صفائی ۔خیال رہے یہ انسان کا نعم البدل ہے لیکنانسان نہیں ہے۔
بچو مصنوعی ذہانت الگورتھم اور کوڈنگ کی بدولت وجود میں آئی ہے ۔اس ایجاد کی مدد سے سائینسدانوں نے ایسے روبوٹ تیار کئے جو بالکل آپ جیسے ہوتے ہیں ۔مصنوعی دماغ بالکل انسانوں کی طرح سوچ سکتا ہے اور محسوس کرسکتا ہے ۔یہ انسانوں کے مقابلے میں زیادہ جلدی جواب دے سکتا ہے ۔اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔یہ دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی لانے والی چیز ہے۔ آپ کو آنیوالے زمانے میں اس کے بارے میں پڑھایا جائے گا۔
یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک ہندوستان میں مصنوعی ذہانت سے بنی معلمہ بھی ہے جو بنگلور کے ایک اسکول میں بچوں کو درس دینے لگی ہے۔مصنوعی ذہانت کے بہت سارے فائدے بھی ہیںلیکن کچھ خدشات بھی ۔جیسے اس کے زریعے کسی کی بھی ہوبہو آواز نکالی جاسکتی ہےجس کی بدولت آن لائن فراڈ انجام دئیے جاسکتے ہیں۔
آج کے اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں ٹیکنالوجی سے ناواقفیت سب سے بڑی نادانی ہے ۔آپ سب کے لئے یہ بات ناگزیر ہے کہ آپ ہر نئی ڈیولپمنٹ سے آگاہ رہیں اور خبردار رہیں۔اساتذہ سے دریافت کریں اور اپنی ذہانت کا استعمال کریں۔بصورت دیگر تباہی کا شکار ہونا طے ہے۔ابھی آپ بچے ہو لیکن ذہنی لحاظ سے آپ کو بالغ ہوناچاہیے مطلب شعور دکھنا چاہیے ۔”
سارے بچے انوکھے لڑکے کی اصلیت سمجھ گئے اور ایک دوسرے سے کہنےلگے کہ اب موبائل فون چلانے میں اور ذیادہ محتاط رہنا ہوگا ۔ورنہ ہماری بچکانہ حرکتوں سے کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔یہ ٹیکنالوجی تو ہمیں ایک نئی دنیا میں لےجانےوالی ہے۔