مرے خوابوں کے افسانے بکھر جاتے تو کیا ہوتا 0

مرے خوابوں کے افسانے بکھر جاتے تو کیا ہوتا

غزل

توصیف رضا

مرے خوابوں کے افسانے بکھر جاتے تو کیا ہوتا
پرندے عشق کے پل بھر ٹھہر جاتے تو کیا ہوتا
بہانہ کوئی کر لیتے وہ میرے ساتھ رہنے کا
یا میرے دل کے پربت سے اُتر جاتے تو کیا ہوتا
کبھی خاموشیوں میں گنگناتے گیت اُلفت کے
کبھی جو ساز اپنے بھی نکھر جاتے تو کیا ہوتا
کبھی رعنائیاں ہوتی مرے بے رنگ اندھیروں میں
کبھی ہم بھی محبت سے سنوَر جاتے تو کیا ہوتا
مری آوارہ نظروں کی کہانی مطمئعن ہوتی
اَگر وہ میری آنکھوں میں ٹھہر جاتے تو کیا ہوتا
رضا جی دیکھ لیتے اک دفع چہرا جو دلبر کا
تو اُس کے بعد ہم یوں ہی جو مَرجاتے تو کیا ہوتا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں