استوتی اگروال 84

استوتی اگروال

اردو کی 16 سالہ قلمکار اور”انتساب عالمی“کی نائب مدیرہ

 

تحریر: انیس جاوید

اردو زبان وہ زبان ہے جو اپنی سلاست، روانی، شیرینی اور اس طرح کی گوناگوں خصوصیات کے لئے تمام عالم میں مقبول ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دشمنان اردو اس کو محض مسلمانوں کی زبان مان کر اسے سرکاری اور غیر سرکاری ہتھکنڈوں سےنقصان پہنچانے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں ۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اردو سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ جن میں آٹھ زبانوں میں ای مواد مہیا کروانے کا اعلان ہوا ہے اس میں اردو زبان کا نام ہی نہیںہے۔ اردو کو نقصان پہنچانے کی اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں لیکن اردو ہے کہ اس کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اردو کی بقا اور ترویج میں ان مجاہدین اردو کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو دن رات اس کی ترقی میں ایک کئے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی مجاہدین اردو میں ایک غیر مسلم، غیر اردوداں خاندان کی ایسی لڑکی بھی ہے جس نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود ا اردو زبان کی محبت اور چاہت میں سنسکرت زبان پر اردو زبان کو ترجیح دی اور اپنے میٹرک کے امتحان میں اردو مضمون میں 96 فیصدی نمبرات حاصل کر کے ایک نمایاں کامیابی درج کی۔آج وہ چھوٹی سی عمر میں وہ اردو کی معروف شاعرہ، مضمون و تبصرہ نگاراور انتساب عالمی کی نائب مدیرہ ہیں۔ نام ہے استوتی اگروال۔اردو کی ایسے محبان اردو آج کے دور میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔وگرنہ ایک دور تھا جب اردو کے قد آور ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں میں غیر مسلموں کا دبدبہ ہوا کرتا تھا۔ جنھیں اردو زبان و ادب کی تاریخ سے ذراسی بھی واقفیت ہوگی ان کے سامنے یقیناً ہمارے اس جملے سےڈھیر سارے نام یاد آگئے ہوں گے۔فہرست طویل ہے اس لئے ان سب کا نام نہ لیتے ہوئے یہی کہیں گے کہ ان سپوتوں کے ادبی کارناموں سے اردو ادب کا خزانہ مالامال ہے۔مگر آج تو اردو والے بھی انگریزی زبان کے جنون میںاپنے بچوں کو اردو تعلیم سے ایسے دور رکھے ہوئے ہیں مانو وہ شجر ممنوعہ ہو۔ ایسے افسوسناک دور میں غیر اردو داں گھرانوں کے کسی فرد کا اردو کی بقا و ترویج کے لئے کمر کسنا ریگستان میں نخلستان کے مترادف ہی ہے۔ اردو کی یہ مجاہدہ مدھیہ پردیش کے ودیشہ ضلع کی تحصیل سرونج سے تعلق رکھتی ہے۔ سرونج تاریخی طور پربندیل کھنڈ کے ساحل پر مالوہ خطے کا ایک حصہ تھا اور جین مذہب کی زیارت گا ہ(دگمبر جین ناسیاجی جنوڈیا تھرتھا) رہا ہے۔ دہلی اور گجرات کے درمیان قرون وسطی کے تجارتی راستے کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے ، سرونج میں کافی تعداد میں سوداگر موجود تھے۔ اس طرح کے تاجروں میں سب سے مشہور مہیشوری سماج تھا جو بعد میں جب سرونج کے نواب کے ساتھ اتحاد پیدا ہوا تو اس علاقے کو چھوڑ گیا۔ فرقہ پرستوں کاپھیلایا گیا ایک من گھڑت قصہ بھی مہیشوریوں کے سرونج سے راتوں رات ہجرت کرجانے سے جڑا ہوا ہے کہ ڈولی میں اپنے سسرال جاتی ہوئی مہیشوری سماج کی ایک دلہن کے پاؤں کی ہیروں جڑی ایک جوتی کسی وجہ سے راستے میں گر پڑتی ہے اور وہ جوتی فرماں روامسلم نواب کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ اتنی خوبصورت جوتی کو دیکھ کر وہ کہتا ہے کہ جب جوتی اتنی حسین ہے تو اسے پہننے والی کتنی حسین ہو گی۔ اسے میرے سامنے حاضر کیا جائے۔ یہ بات جب مہیشوری سماج تک پہنچتی ہےتو پورا سماج راتوں را ت سرونج سے یہ قسم کھاتے ہوئے کسی دوسری جگہ کوچ کرجاتا ہے کہ اب سے ہم نہ یہاں کا پانی پئیں گے نہ کھانا کھائیں گے اور نہ ہی کبھی یہاں قدم رکھیں گے۔بہر حال اس فرضی قصہ سے سرونج کے لوگ زیادہ متفق نہیں ہیں اور ہندو مسلمان مل جل کرر ہتے ہیں۔اردو کا ادبی ماحول بھی کافی خوشگوار ہے۔ ڈاکٹر سیفی ؔسرونجی کی کتاب سرونج کا ادبی منظر نامہ کے پیش لفظ میں ایک جگہ پروفیسر محمد نعمان خاں رقم طراز ہیں کہ ’’ یہ حقیقت ہے کہ دور افتادہ ہونے کے سبب آج کی سائنسی اور صنعتی ترقی کے آثار یہاں دکھائی نہیں دیتے ہیں لیکن عہد قدیم کی طرح عہد حاضر میں بھی یہاں کے شعراء ادباء علماء اور دینی مدارس کی شہرت ملکی سرحدوں کو پار کر چکی ہے۔ سرونج کی تہذیب کو آج بھی اردو تہذیب سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ میر تقی میرؔ کے ہم عصر شاعر مرمت خاں مرمتؔ سے لے کر تاحال یہاں زبان و علم و ادب کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ غلام احمد مرتضیٰ نظرؔ کی کتاب آثار مالوہ اور ڈاکٹر شان احمد فخری کاتحقیقی مقالہ سرونج کی ادبی خدمات جہاں اس بستی کی روشن علمی، ادبی، مذہبی، تاریخی اور تہذیبی خدمات کا دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہیں وہیں یہاں کے ادبی افق سے طلوع ہونے والے علمی، ادبی رسالوں میں الریاض ، انتساب، دلکش، اور عالمی زبان ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔سہ ماہی عالمی انتساب نے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان قائم کر لی ہے بلکہ ادبی منظرنامے پر وہ سرونج کی شناخت کا وسیلہ بن گیا ہے۔ سرونج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ فنکاروں میں ڈاکٹر مختار شمیم، ڈاکٹر خالد محمود، شاہد میرؔ اور ڈاکٹر سیفیؔ سرونجی کے نام اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ عہد حاضر کی ادبی تاریخ میں یہ اپنا مقام متعین کر چکے ہیں۔‘ ‘ ڈاکڑ سیفیؔ سرونجی انتساب عالمی کے مدیر اعلیٰ ہیں۔انھیں کی ہونہار شاگرد اور انتساب عالمی کی نگراں کار ہیں استوتی اگروال ہیں جن سے ہم آپ کی ملاقات کروانے جا رہے ہیں۔
نام :استوتی اگروال ، والد کا نام : انل اگروال، والدہ کا نام: گیتا اگروال، آبائی وطن : سرونج (مدھیہ پردیش)، تاریخ پیدائش: 2اکتوبر 2004، تعلیم : دسویں 95%سے کامیاب اور گیارویں جماعت جاری۔استوتی اگروال کی اردو سے دلچسپی کی وجہ یہ رہی ہے کہ گھر میں بچپن سے ہی انھیں اپنے والد انل اگروال کی اردو دوستی کی بدولت ادبی ماحول ملا ۔ ان کے والد انل اگروال گزشتہ بیس برسوں سےمشہور رسالے ’انتساب عالمی ‘ کے سرپرست ہیں ۔ انتساب مدھیہ پردیش کا ایک ایسا واحد رسالہ ہے جو پچھلے 38برسوں سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے ۔ ’انتساب ‘ کے مدیر ڈاکٹر سیفیؔ سرونجی ایک مشہور صحافی نقاد ، محقق،شاعر ،ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ وہ پانچ مرتبہ لندن کا سفر کر چکے ہیں۔ان کی اب تک 78 کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ڈاکٹر سیفیؔ ان کے والد انل اگروال کے خاص دوستوں میں سے ہیں ۔ وہ دونوں گھنٹوں ادبی گفتگو کرتے رہتے ہیں ۔ جب استوتی چار سال کی تھیں تو اکثر اپنے پاپا کے ساتھ سیفی لائبریری جاتی تھیں۔ وہ دونوںباتیں کرتے اور استوتی خاموشی سے سنتی رہتیں ۔ پانچ برس کی عمر میں انھوں نے انتساب پبلی کیشنز کی جانب سے منعقد ہ آل انڈیا مشاعرے میں مدھیہ پردیش گیت پڑھاتھا جس کی وجہ سے خود اعتمادی قائم ہوئی ۔ان کے والد انھیںایک ہی شعرکئی مرتبہ پڑھ کر سناتے اور جب تک وہ انھیں حفظ نہ ہو جاتا دہراتے رہتے۔ اس کے بعد شام کو ڈاکٹرسیفی سے ملنے جاتیںاور انہیں روز ایک شعر سناتیں۔ آٹھ برس کی عمر میں انھوں نے بشیر بدر ، ندا فاضلی ، احمد فراز، شکیب جلالی ، ڈاکٹر سیفی سرونج ، ظفر صہبائی ، منور رانا وغیرہ کے درجنوں شعر یاد کر لئے تھے اور والدکے ساتھ جس محفل میں بھی جاتیں شعر سناکر خوب داد بٹورتیں ۔ دس برس کی عمر میں ڈاکٹر سیفی سرونجی کی مشہور خود نوشت ’یہ تو سچّا قصہ ہے ‘ کا ہندی ایڈیشن مکمل کر لیا تھا ۔ یہ کتاب سیفی صاحب کی سب سے زیادہ اہم اور مقبول کتاب ہے جس پر 100سے زیادہ قلمکاروں نے اپنی رائے لکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کتاب نے انھیں اتنا متاثر کیا کہ وہ اردو پڑھے بغیر نہ رہ سکیں ۔ اس کے بعد انھوں نے ان کا سفرنامہ ’ سرونج سے لندن تک ‘ ہندی ایڈیشن پڑھنا شروع کر دیا ۔ ان کے گھر میں والد کے علاوہ کوئی اردو نہیں جانتا تھا، نہ ہی گھر میں اردو کا ماحول ہے۔والدہ کو چھوڑ کر باقی خاندان کے لوگ ان کے اردو پڑھنے پر اعتراض بھی کرتے رہے ،لیکن اُن کے اعتراض کی انھوں نے پرواہ نہیں کی اور دل میں جو عہد کیا تھا یا جو ان کا خواب تھا وہ اسے پورا کرنے میں ثابت قدم رہیں۔تیرہ برس کی عمر میں انھوںنے اپنی ہم جماعت سے ایک مہینے تک ا،ب ،پ لکھنا سیکھا ۔اس کے بعد دو مہینے تک سیفی صاحب سے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا ۔تین مہینے میں مکمل طور پر اردو لکھنا پڑھنا آنے لگا ۔چھ مہینے کے اندر ان کے مکتوبات فکر و تحقیق ، اردو دنیا ، بچوں کی دنیا ، بیباک ، انشاء ، اردو ہلچل ، زبان و ادب ، ایوانِ اردو ، امنگ،دربھنگہ ٹائمز وغیرہ میں شائع ہونے لگے اور آج ان کی تخلیقات ہندوستان کے تمام بڑے اخبار و رسائل میں شائع ہو چکی ہیں جن میں آ ج کل ،انقلاب ، آگ ، پندار ، قومی تنظیم ، ہندوستانی زبان ، میراث ، سر سبز ، سب رس ، نگینہ ، قومی زبان ، باغیچہ ، تمثیل ، شاعر ، کشمیر عظمیٰ ، اڑان ، لازوال ، ندیم ، تریاق ، رنگ ، رنگ و بو ، پیش رفت ،منصف کے علاوہ 70سے زیادہ رسالے اور اخبارات میں ان کی تحریریں شائع ہو چکی ہیں ۔ وہ ان میں سے تیس سے زیادہ رسالوں کی باقاعدہ خریدار بھی ہیں ۔ دنیا ئے ادب کے تمام بڑے لوگوں سے ان کے ادبی تعلقات قائم ہو تے جا رہے ہیں جن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ،نور الحسنین ، شفق سوپوری ، صادقہ نواب سحر ، پروفیسر اختر الواسع ، چندر بھان خیال ،نور شاہ ، وصی اللہ حسینی ، نعیم کوثر ، رونق جمال ، افتخار امام ، ناظر نعمان ، وشال کھلر حقانی القاسمی ، عبدلحئی ، مشتاق کریمی ،غلام نبی کمارغیرہ نمایاں نام ہیں ۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا مشاعرہ بھی پڑھ چکی ہیں اور آکاشوانی ریڈیو اسٹیشن پر بھی پڑھتی رہتی ہیں ۔ اب تک وہ پانچ اسکول بدل چکی ہیں ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ بچپن سے ہی بہت جدو جہد کر رہی ہیں۔۔انھوں نے جماعت ہشتم میں سنسکرت زبان کی جگہ اردو زبان منتخب کی ۔آٹھویں جماعت کے بعد نویں اور دسویں جماعت کے امتحان انھوںنے اردو میڈیم سے ہی دئے اور میٹرک میں خاص طور پر اردو میں 96نمبر حاصل کئے ۔ فی الحال وہ’انتساب ‘ کی کمپوزنگ بھی کرتی ہیںاور ادارہ انتساب جو’عالمی زبان ‘ بھی شائع کرتا ہے اس کی نائب مدیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ افسانے ، مضامین ، تبصرے ، غزلیں ، نظمیں اور انگریزی سے اردو میںترجمے بھی کر رہی ہیں ۔استوتی اگروال کے متعلق انتساب کے مدیر اعلیٰ اور ان کے استادڈاکٹر سیفی سرونجی کہتے ہیں کہ استوتی اگروال نے بہت کم عرصے میں اپنی پہچان بنا لی ہے۔ وہ نہ صرف شاعری کر رہی ہیں بلکہ تبصرے اور مضامین بھی لکھ رہی ہیں۔ ان کے بہتر مستقبل کے لیے نیک خواہشات….!مفتی حفیظ احمد قاسمی،سرونج کے مطابق استوتی اگروال کا اردو کے تئیں جنون قابل مبارکباد ہے۔ وہ اردو دوستی کے معاملے میں دوسروں کے لئے رول ماڈل کی طرح ہیں ۔محمد قمر سلیم خط کے ذریعہ اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ تمہارے بارے میں اخبار میں پڑھا ہے۔ ذہن اور آنکھوں سے سے کئی پرتیں اتر گئیں۔ تمہارے خطوط اور دوسری تحریریں اکثر پڑھتا ہوں۔تاثر یہ جاتا تھا کہ کوئی ادھیڑ عمر کی محترمہ ہیں۔ پڑھنے کے بعد بہت دیر تعجب میں رہا۔ اپنی اہلیہ اور بیٹی کو تمہارے بارے میں بتاتا رہا۔ خالد محمود صاحب، نعمان صاحب اور سیفی سرونجی صاحب ہمارے معتمد خاص ہیں۔ آپ کے والدین قابل تحسین ہیں جنھوں نے علم کی لو کو روشن کیا۔دعاگو ہوں تمہیں دن دونی رات چوگنی ترقی ملے۔ان کے علاوہ بہت سارے مشاہیر علم و ادب نے بھی اپنے اپنے انداز میں استوتی اگروال کی اردو دوستی، ان کی ادبی کاوشوں کو بے حد سراہا ہے۔
�����۸
انیس جاوید
9869308801

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں