عبدل غفار ڈار کانہامی 252

عبدل غفار ڈار کانہامی

صارم اقبال ۔۔رائیار دوھ پتھری
موسیقی کا رواج پوری دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے.زمانہ قدیم سے لے کر آ ج تک دنیا کا ہر فرد بلا مذہب و ملت موسیقی کا دلدادہ ہے.ہماری وادی کشمیر میں جہاں ایک طرف بہت سارے مذاہب کے لوگ بستے ہیں تو وہی دوسری طرف یہاں کے لوگ موسیقی کا نہ صرف شوق رکھتے ہیں بلکہ موسیقی کے تمام قسم کے راگوں کے سننے والے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ موسیقی کے ہر فن و راگ میں دنیا کے باقی خطوں کی طرح کمال مہارت رکھتے ہیں۔

ہماری وادی کشمیر جو ریشوں ،سنتو وصوفی درویشو ں کی مسکن رہی ہیں جس وجہ سے یہاں صوفیانہ موسیقی کے علاوہ کلاسیکی موسیقی اور بجن کافی ذیادہ مشہور ہے.یہاں ہر مذاہب کے لوگ موسیقی کے نہ صرف شوق رکھتے ہیں بلکہ
ہماری وادی کشمیرنے موسیقی کے بے شمار گلوکار پیدا کئےہیں۔ریاست کی مقیم آبادی نےایسی عظیم ہستیوں کو جنم لیا جن لوگوں نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی ایک الگ پہچان بنا لی۔چونکہ زبان و ادب کے حوالے سے ہماری وادی کشمیر میں بے شمار لوگوں نے اپنے روحانی کلام سے بلا مذہب ملت لوگوں جو خود شناسی اور خدا شناسی کی تعلیم دی وہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے ۔۔یہی روحانی کلام یہاں کے فن موسیقی وابستہ گلو کاروں نےاپنی منفرد آواز و آلات سے لوگوں تک پہنچائ جس سے ایک الگ طرح کی کیفیت ظاہر ہوئ اور لوگ باقی دنیا کے حصوں کی طرح فن موسیقی کی طرف راغب ہوئے۔اگرچہ ہماری وادی میں بے شمار فن موسیقی سے وابستہ بیشمار گایکوں، گلوکاروں نے جنم لیا تا ہم ان عظیم ہستیوں میں وادی کے مایہ ناز گلو کار عبدل غفار ڈارکانہامی کا نام سر فہرست ہے جس نے ہر گزرتے لمحے کشمیری فن موسیقی میں ایک الگ روح پھونک کر اپنا ایک منفرد مقام حاصل کیا۔آپ نے اپنی منفرد آواز و طرز پر یہاں کے مختلف شعراء کے کلام گا کر یہاں کی مقیم آبادی کو ہر طرح کے غم و فکر سے دور رکھنے کے ساتھ اپنے نغموں سے ایک خاص قسم کی فضا قائم کی.عبدل غفار کانہامی سے کون واقف نہیں۔۔۔ عبدل غفار کانہامی گاؤں،شہر دہیات کے ہر گھر میں جا جر ایک منفرد آواز بن کر ریڈیو کے ذریعےہر گھر کے دروازے پر دستک دی. عبدل غفار صاحب کانہامی کی منفرد آواز نے لوگوں کو بحثیت گلوکار دن کی تھکاوٹ دور کرنے کا آلہ ثابت ہوا.عبدل غفار کانہامی بٹہ پورہ کانہامی جو کہ ضلع بڈگام میں واقع ہے 1952ء میں پیدا ہوئے۔ آپ دو سال کے ہوئے تو آپ کی ماں کا انتقال ہوا جو آپ کے لئے کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھا.آپ کی پرورش پھر ایک بزرگ خاتون مختی دید(ڈاکٹر شفیعؔ سابقہ ایم ایل اے بیروہ کی پھوپی) نے کی.مختی دید نے غفار صاحب کو وہ تمام ممتا کا پیار اور شفقت و ہمدردی دی جو ایک ماں اپنے سگے بیٹے کو دیتی ہے..غفار صاحب کے مطابق ماں کی تمام حرکات کا اثر اس کے شیر خوار بچے پر براہ راست پڑتا ہے جب ماں اپنے شیر خوار بچے کے سامنے جو بھی حرکتیں کرتی ہیں اس کا نمایاں اثر بچے پر پڑتا ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ مختی دید کو روف ونون کے کافی ذیادہ شوق رکھتی تھی جس وجہ سے جب وہ رمضان المبارک و دیگر ایاموں میں محلے کے باقی عورتوں کے ساتھ نکلتی تھی تو وہ غفار کو کندھے پر بٹھاتی تھی اور روف اور ونون کی وہ سریلی آوازیں، میرے کانوں میں اثر کر گئ اور جس وجہ سے مجھے موسیقی کی طرف کافی ذیادہ رحجان ہونے لگا اور میں نے موسیقی کی دنیا میں اپنا تعارف غفار کے بجائے غفار صاحب کانہامی کروایا۔ غفار صاحب کی ریڈیو سے لے کر وادی میں مشہوری کی کہانی بڑی دلچسپ ہے..جب غفار صاحب نے موسیقی میں آنکھ کھولی تو اس وقت کشمیر کے مایہ ناز فنکار جیسے غلام احمد صوفی مرحوم علی محمد شیخ مرحوم حبیبب اللہ بمبو عبدل غنی ترالی غلام نبی بلبل عبدل سلام عبدل رحیم بٹ محمد سلطان بٹ وغیروہ قابل ذکر تھے. طالب علمی کے زمانے میں غفار صاحب کا گاؤں چونکہ شعرو شاعری و موسیقی کے کافی ذیادہ شوق رکھتے تھے جس وجہ سے غفار صاحب کانہامی جو ماحول ملا جو آپ کو ضرورت تھا۔غفار صاحب کانہامی کے مطابق ایک روز ماڈل اسکول ماگام میں بچوں نے ایک عارضی اسٹیج پر ڈرامے کا انعقاد کیا جس میں پہلی بار غفار صاحب نے حصہ لیا جس میں غفار صاحب نے حبہ خاتون کا کلام گایا….جوں ہی غفار صاحب نے اپنی منفرد آواز اسکولی استاتذہ صاحبان و طلبہ و طالبات کو سنائ تو اسکول کا تمام عملہ آواز و سر سے متاثر ہوا،تقریب میں موجود مقامی لوگ بھی شامل تھے جب غفار صاحب کو سنا تو اس آواز نے تہلکا مچایا اور غفار صاحب کو اچھی خاصی شہرت حاصل ہوی. اس وقت اسکول کے ایک استاد برج ناتھ نے غفار میں ایک موسیقی کی ابدی کرن دیکھی جو بعد میں صیح ثابت ہوی..
اسی طرح سے غفار کانہامی نے اسکولی سطح پر مختلف پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا اور وقت کے ساتھ ہی ساتھ مقامی علاقے کے طالب علموں سے لے کر ماگام علاقے کے لوگوں میں اپنی ایک الگ پہچان قایم کی. چونکہ ماگام اور اس کے گرد نواح میں غفار صاحب کو اچھا خاصا تعارف ملا تھا جس وجہ سے آہستہ آہستہ جب بھی مقامی علاقوں میں لوگوں کا کہیں جلسے جلوس ہوتا تھا تو غفار صاحب بحثیت گلوکار ضرور اپنے فن سے لوگوں کو ایک خاص قسم کی رونق بخشتے تھے۔ ایک روز اسی دوران ماگام علاقے میں ایک سیاسی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت وقت کے حاکم میر قاسم صاحب کر رہیے تھے اور لوگوں نے غفار صاحب کو بحثیت گلوکار دعوت دی چونکہ سیاسی جلسوں میں موسیقی کا آلہ اکثر لوگوں کو جمع کرنے کا ایک آلہ تصور کیا جاتا ہے ۔۔چونکہ ہماری وادی کشمیر میں موسیقی کو اہم مقام حاصل ہے جس وجہ سے یہاں کی اکثر و بیشتر آبادی موسیقی کے فن سے کافی ذیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کر رہیے ہیں۔ہمارے یہاں دور قدیم سے لے کر موسیقی کا رواج عام ہے بلکہ شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر دیگر خوشی کے ایاموں میں موسیقی کا رواج عام ہے۔۔ہمارے یہاں گاؤں دہیات میں اکثر آبادی اپنے بیٹے کے ختنے کے دن بھی موسیقی کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے عزیز و اقارب کودعوت عام دیا جاتا تھا۔۔ مزید وادی کے طول عرض میں پیر و مریدی میں اپنے مرشد کو باظابطہ دعوت دی جاتی ہے اور محفل سماع کا انعقاد کیا جاتا ہے۔۔جو آج بھی بدستور جاری ہے۔۔تواریخ کے اوراق ہمیں اس بات سے باخبر کر رہیے ہیں کہ ہماری وادی میں سماع سے روحانی بیماریوں کا علاج کیا جاتا تھا ۔۔۔حاصل الکلام پورے علاقے ماگام کے لوگوں نے جوق در جوق جلسے میں شمولیت اختیار کی.. اسی دوران غفار صاحب کانہامی کو بحصیت ایک فنکار شرکت کرنے کا موقع ملا. جلسے میں وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ریڈیو کے بڑے بڑے فنکار شامل تھے جن میں شاعرمرحوم حامی کشمیری بھی موجود تھے. غفار صاحب کانہامی نے اپنی منفرد آواز سے مختلف گانے گا کر نہ صرف علاقے ماگام کے لوگوں کے وہ تمام ڈیمانڈز پوری کروائ بلکہ جلسے میں مہمانوں کو اپنی طرف راغب کیا. غفار صاحب کانہامی نے حامی کشمیری کے وہ گانے پیش کئے جن میں علاقے کے لوگوں کی ڈیمانڈز شامل تھی۔ جلسے میں مہمانوں میں سوم ناتھ سادھو نے جب غفار کانہامی کی موسیقی کا پروگرام دیکھا تو آپ غفار سے کافی ذیادہ متاثر ہوئے اور غفار صاحب کو ریڈیو کشمیر آنے کی دعوت دی . اس دن غفار صاحب کانہامی نے شہشاہ موسیقی کے سفر کی طرف باضابطہ سفر شروع کیا ہے۔۔۔ اور وہ آواز اب گھر گھر پہنچنے لگی جو ابھی ماگام کے گرد نواح میں گھوم رہی تھی وہ آواز اب ریڈیو سے گھر گھر پہنچ گئ. اسی دوران ریڈیو کشمیر سرینگر سے یووا وانی سروس کا آغاز کیا گیا تھا اور مختلف یونٹوں کے ذریعے نوجوانوں کو موسیقی کی طرف دھیان بڑھایا گیا۔۔ غفار صاحب کانہامی نے یوتھ کلب بٹہ پورہ کے سائے تلے ایسا نام کمایا کہ غفار صاحب کانہمامی وادی کشمیر کے مردزن میں مشہور ہو گئے. واضح رہیے یہ وہ دور تھا جب یوواوانی سروس میں ایسے گانے پیش کئےگئے جن میں سماج سدھار کی ایک طرح کی تحریک ابھر پڑی. وادی کے اطراف و اکناف سے لوگ ریڈیو سنتے تھے اور یواوانی پروگرام کے تحت نشر ہونے والے پروگراموں کابےصبری سے انتظار کرتے تھے۔ان پروگراموں میں فوک موسیقی کے علاوہ ڈرامے ،داستان ،قصے کہانیاں نشر کئے جاتے تھے جو لوگوں میں اچھے خاصے مقبول ہو گئے ۔ان پروگراموں کا خاص مقصد نوجوانوں کو فن موسیقی کی طرف راغب کرنا ہوتا تھا اور سماجی مسائل جیسے جہیز،نشہ آور چیزوں کی روک تھام تھا۔جب ریڈیو کشمیر سے ایسے پروگرام نشر کئے گئے تو لوگوں کی ریڈیو کے ساتھ دلچسپی بڑھتئ گئ۔
کشمیر کے کونے کونے سے وہ آواز معتبر اور معزز ہو گئیں جو ریڈیو سے بذریعہ موسیقی ڈرامے کی شکل میں سنی جانے لگی جن میں عبدل غفار کانہامی بھی شامل تھے. ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے پروگراموں نے کشمیر کی تمدن ،ثقافت روایت کی ایسی خدمت کی جو صدیوں تک یاد رکھی جائے گی. غفار صاحب کانہامی کا نام ریڈیو سے اتنی مقبولیت حاصل کر چکا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غفار صاحب کو شادی بیاہ پر ایسے دعوت نامے ملنے شروع ہو گئے حتی کہ غفار کا جب خود شادی تھی تو مہندی والی رات علاقے آریگام میں کسی شادی کی تقریب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گا رہا تھا
غفار صاحب کانہامی نے ریڈیو کشمیر سے فن موسیقی کے فوک داستان سے لے کر فوک موسیقی تک وادی کشمیر کے تمام لوگوں میں اپنی منفرد پروگراموں کے ذریعے اپنی الگ پہچان بنائ جو آج تک بدستور قائم و دائم ہے. 1966 ء میں غفار صاحب کانہامی نے انجان کشمیری صاحب کا لکھا ہوا کلام “وفادار موجی” کا ایسا نمونہ پیش کیا جو موجودہ دور میں وادی کے ساتھ ہی ساتھ ملک ہندوستان کے ہر کونے میں مشہوری پا کر پہلے گلوکار کے ساتھ شاعر انجان کشمیری صاحب بھی لوگوں کے ذہنوں میں سما گئے . چونکہ آج کل کے دور میں اگرچہ فوک موسیقی کے شمار گایکوں نے وفا دار موج پر اپنا لوہا منوایا تاہم اس دور میں بھی غفار صاحب کانہمامی نے اپنے منفرد انداز اور طرز پر کشمیر کی فن موسیقی اس کلام کو لازوال بنا دیا. غفار صاحب نے “قال باف کور”…باغِ حسُنچ قال باف کوری.. زِنِہہ مُزُور… یوسف نامہ… نعت رسول مقبول صُلی اللہ علیہ والہ.. تاجدار حرم گا کر طرز اور آواز کو لے کر اپنا نام فن موسیقی کے شہشہاہوں میں درج کر کے وہ مقام حاصل جو صدیوں تک سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں
. غفار صاحب کانہامی نے اپنے فن کے ذریعےرفتہ رفتہ نہ صرف فن موسیقی کو مزید نکھارا بلکہ غفار صاحب کانہامی نےاپنے مختلف ریڈیو پروگراموں کے ذریعے فوک فن موسیقی کو ترقی کی شہراہ پر گامزن کر کے فن کو مزید رفتار دے دی۔۔آپ نے عشق و معشوق کے وصل و فراق، ڈرامہ “اکہ نندن” تعلیم بالغان، سماجی و اسیاسی مسائل کو اجاگر کرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں جاگیر دار نظام، ذریعی اصلاحات قانون، سماج دشمن عناصر وغیرہ وغیرہ موضوعات بنا کر لوگوں میں شعور و آگاہی کی مہم کو جاری و ساری رکھا.. آپ کے اکثر و بیشتر گانے مرحوم حامی کشمیری کے لکھے ہوئے اشعار ہوتے تھے۔چونکہ حامی کشمیری کا تعلق بھی بٹہ پورہ کانہامہ سے تھا ۔موجودہ دور تک اس علاقے نے وادی کشمیر کو مایہ ناز فنکار اور شاعر پیدا کئے ہیں جن میں محمد رمضان معصوم،علی محمد ماگرے، مرحوم غائب کانہامی، نوجوان شاعر مشتاق کانہامی،بزم ادب بٹہ پورہ کے موجودہ صدر محترم خورشید خاموش کے علاوہ غلام نبی شاحین صاحب،وادی کے معروف شخصیت رحیم رہبر،اسی علاقے کے مایہ ناز شاعر عبدل احد دلدار صاحب کے علاوہ علی محمد گوہر وغیروہ وغیروہ اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔چونکہ اس علاقے میں بزم ادب بٹہ پورہ کانہامہ کشمیر پچھلے پچاس برسوں سے ذیادہ زبان و ادب کی جو خدمت کر رہی ہے وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔عبدل غفار ڈار کانہامی بزم ادب بٹہ پورہ کانہامہ کشمیر کے بھی ممبر ہیں جو فن موسیقی میں ایک قابل قدر شخصیت ہیں۔۔۔یہ بات یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غفار صاحب کانہامی نہ صرف ایک گلوکار ہے بلکہ یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ آپ ایک شاعر بھی ہے۔
راقم نے خود غفار صاحب کی زبانی ایک دلچسپ کہانی سنی ہے کہ لوگ کس قدر ریڈیو پروگرام خاصکر یوا وانی سروس سے نشر ہونے والے پروگراموں میں کس قدرذوق و شوق سے سنتے تھے. غفار صاحب کے مطابق ایک روز میں ماءسمہ سے بٹہ مالو تک سائیکل پر سوار تھا کہ اچانک سائیکل Chain میں کچھ خرابی آگئی اور وہ ٹھیک کرنے کے لئے بنڈ کے کنارے جا رکا. اسی دوران بنڈ کے کنارے آپ نے دیکھا کہ ایک مکان کے آنگن میں دو عورتیں آپس میں یواوانی سروس کے کل رات کے نشر ہونے والے پروگرام کے متعلق تبالہ خیال کر رہے تھے.. یہ دو عورتیں دراصل بہو اور ساس تھی اور اتفاقاً کل کے پروگرام میں بہو کا موضوع تھا جس پر کشمیر کے بہو کے متعلق انکی سختیاں میکے میں اجاگر کی گئ تھی ۔ ہروگرام کے حوالے سے بہو نے ساس سے کہا کہ یہ بہو بیچاری کس قدر اپنے میکے میں بے بس ہوتے ہیں جہاں ساس بہو کوطرح طرح کی فضول باتوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ جس پر ساس نے اعتراض ظاہر کیا ہے ۔۔ دونوں ایک قسم کے ایک دوسرے کو طعنے دینے لگے… غفار صاحب دونوں ساس اور بہو کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ کل رات نشر ہونے والے پروگرام میں آپ نے ہی حامی صاحب کا کلام پیش کیا تھا جس کا موضوع “حش تہ نوش” جس میں ساس کا بہو کے ساتھ برے سلوک روا رکھنے کے مسلہ اجا گر کیا تھا… غفار صاحب کانہامی نے ساس کے
غصے کو مد نظر رکھ کر مرحوم حامی کشمیری کے ساتھ اس معاملے پر بات کی اور آنے والے اسی پروگرام میں بہو کا اپنے ساس کے ساتھ نرمی اور شفقت و محبت کے متعلق آگاہی کا پیغام موسیقی کے ذریعے پیش کیا۔ غفار صاحب کانہامی اس موقع پر لوگوں کے سامنے آ گئے جس وقت وادی کشمیر کے اطراف و اکناف سے لوگ ریڈیو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ کافی ذیادہ سنتے تھے.. خاصکر وادی کشمیر کے وہ تمام لوگ جو دستکاری صنعت سے وابستہ تھے جیسے قالین بافی، شال بافی، نمدہ سازی، وغیرہ وغیرہ کاموں میں مشغول عمل تھے اور ریڈیو ایک ایسا ذرائع تھا جو لوگوں کو کافی حد تک تفریح کا سامان میسر تھا.
غفار صاحب کانہامی نے اپنی منفرد آواز میں لوک موسیقی کی جو خدمت کی وہ خوب سے خوب تر رنگ لائی جس کا اثر مقامی لوگوں پر آج بھی بدستور جاری و ساری ہے. غفار صاحب کانہامی نے نہ صرف وادی کشمیر میں موسیقی کے میدان میں اپنا لوہا منوا لیا بلکہ آپ نے ملک کے دیگر ریاستوں میں بھی سرکاری و غیرسرکاری اداروں کی بدولت اپنے فن کا مظاہرہ کیا. جن میں ملک کے نامور ریاستوں کے شہر ممبی، آل انڈیا ریڈیو کلکتہ، چندی گڑھ، ہریانہ دہلی، پنجاب، غازی آباد وغیرہ وغیرہ ریاستوں کے دیگر شہروں میں مختلف پروگراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور کشمیر کی لوک موسیقی و صوفیانہ کلام کو مزید ترقی و ترویج دے کر ریاست موجودہ یو ٹی کے دیگر علاقوں میں میں کشمیری و غیر کشمیریوں کو اپنی زندہ و جاوید ثقافت سے جوڑنے کی تلقین کی. غفار صاحب کانہامی کو فن موسیقی میں مختلف موقعوں پر بہت سارے اعزازات سے نوازا گیا جس کی ایک لمبی فہرست ہے البتہ ہر موکھ ایوارڈ، شیش رنگ ایوارڈ، رحمان راہی وغیرہ وغیرہ اعزازات ملنے سے آپ کے فن کو مزید کمال پہچا.. حال ہی میں غفار صاحب کانہامی کو سرینگر کے ٹیگور حال میں گورنر منوج سنہا و ڈویژنل کمشنر کے ہاتھوں اعزازات سے نوازا گیا.. اس کے علاوہ ضلع بڈگام کی ایک ادبی تنظیم نے غفار صاحب کانہامی کو “شہنشاہ موسیقی” کے اعزازات سے بھی نوازا. آج ہماری وادی میں جہاں فن موسیقی کا نام آتا ہے تو وہاں غفار صاحب کانہامی ایک درخشندہ ستارے کی طرح نمودار ہوتا ہے ۔
المختصر عبدل غفار ڈار اس وقت بھی فن موسیقی کے پروگراموں میں لوگوں کے دل اپنی منفرد انداز میں وہی سرور پیدا کر رہا ہے جو آج سے پہلے سرور تھا.آج بھی یوتھ کلب بٹہ پورہ کے صدر محترم عبدل غفار ڈار کانہامی ریاست کے ہر کونے میں جا کر موسیقی کی دنیا میں وہی کارنامے انجام دے رہا ہے جو آج ہماری زبان و ادب و فن موسیقی میں پوری دنیا میں یہاں کی آبادی کو سرخرو ہونے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں