الطاف کشتواڑی کا "سحر سُراغ" تازہ ہَوا کا جھونکا 0

الطاف کشتواڑی کا “سحر سُراغ” تازہ ہَوا کا جھونکا

مضمون نگار: پرویز مانوس

الطاف کشتواڑی کا تعلق جموں کشمیر کے خوبصورت خطے کشتواڑ سے ہے جسے چھوٹا کشمیر بھی کہا جاتا ہے، اُن سے پُرانی شناسائی ہے جب وہ محکمہ پولیس میں ملازمت کرتے تھے اور اُن کی تعیناتی ضلع راجوری میں تھی، میری اور اُن کی تخلیقات ہندوستان کے کثیر لا شاعت روزنامہ ہند سماچار میں شائع ہوتی تھیں اسی لئے مجھے یاد ہے اُن دنو وہ شعر بھی کہتے تھے، اُن کا شعری سفر تقریباً تیس برسوں پر محیط ہے، اُن کا شمار جموں و کشمیر کے اُن معتبر شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے کلام میں مقامی مسائل، سماجی پیچیدگیوں، اور انسان کے باطنی کشمکش کو نہایت حساسیت اور گہرائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ الطاف کشتواڑی کا اولین شعری مجموعہ “سحر سُراغ” میرے ہاتھوں میں ہے ،ایسا لگا کہ کشواڑ سے اک تازہ ہوا کا جھونکا وادئ گلپوش کی جانب آ نکلا، بعد از مطالعہ ان کی شاعری پر کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں الطاف کشتواڑی کے اشعار میں ایک طرف فرد کی تنہائی، محرومی، اور داخلی کرب کا بیان ہے تو دوسری طرف اجتماعی مسائل، جیسے کہ جنگ، غربت، اور ماحولیاتی تباہی کی عکاسی ملتی ہے۔ یہ مضمون الطاف کشتواڑی کے منتخب اشعار کے تناظر میں ان کی شاعری کی مختلف جہات کا جائزہ لیتا ہے۔
الطاف کشتواڑی کی شاعری میں سماج کی تلخ حقیقتیں نمایاں طور پر جھلکتی ہیں۔ ان کا کہنا کہ:
“ہمارے کھیت میں بارُود بو گئے ہالی
کھلے ہیں آگ کے دانے ہماری فصلوں میں”
اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنی زمین کی دکھتی رگوں کو بڑی حساسیت سے محسوس کرتے ہیں۔ ان اشعار میں وہ جنگ اور تشدد کے اثرات کو نمایاں کرتے ہیں، جہاں ہریالی اور خوشحالی کی جگہ تباہی اور موت نے لے لی ہے۔ یہ محض کسی ایک خطے کا نوحہ نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک عمومی پیغام ہے۔
ان کے اشعار میں فرد کی تنہائی اور اس کے باطنی تضادات کا بھی گہرا اظہار ملتا ہے۔
“یہ حادثہ بھی مری جاں کبھی تو ہونا تھا
کہ مجھ کو ٹوٹ کے تنہائیوں میں رونا تھا”
یہ اشعار انسانی زندگی میں موجود ان لمحات کی عکاسی کرتے ہیں جب انسان اپنے دکھوں کے بوجھ تلے تنہا محسوس کرتا ہے۔ یہ کیفیت نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ان کی شاعری میں ابھرتی ہے-
الطاف کشتواڑی کی شاعری میں ماحولیاتی مسائل پر بھی غور کیا گیا ہے۔ ان کا شعر:
“زخم خوردہ ہے زمیں، بس آگ ہی اب آگ ہے
دُودھ پیتے نونہالوں کو زمیں کیا کھا گئی”
انسان کی زمین کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ رویے اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کو بیان کرتا ہے۔ ان اشعار میں وہ اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری زمین، جو زندگی کا سرچشمہ ہے، اب اپنی بقا کے لیے بھی خطرے میں ہے-
الطاف کشتواڑی کی شاعری میں اپنے ثقافتی ورثے کی بربادی کا بھی دکھ ہے-
“چھینے ہیں وقت نے مری تاریخ کے ورق
دھندلا گیا ہے جو کہ ہمارا نصاب تھا”
یہ اشعار ماضی کے کھوئے ہوئے ورثے اور حال کی بے حسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ الطاف کشتواڑی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری تاریخ، جو ہماری پہچان تھی، اب دھندلا رہی ہے، اور یہ ہماری اجتماعی یادداشت کا ایک بڑا نقصان ہے- اُن کی شاعری میں کشمیر کے نامساعد حالات کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے _
الطاف کشتواڑی کی شاعری میں ایک خاص قسم کا طنز بھی پایا جاتا ہے، جو سماجی اور سیاسی نظام کی خرابیوں پر چوٹ کرتا ہے۔
“ترقی یافتہ تہذیب کے سانچے میں گھر ڈالا
زباں تھی کل تلک گھر میں، مگر ہے بے زبانی اب”
یہ اشعار جدیدیت کی اندھی دوڑ اور اس کے نتیجے میں روایتی اقدار کے خاتمے پر ایک نوحہ ہیں۔ شاعر یہاں ترقی کے نام پر ہونے والی تہذیبی بربادی کو ہدفِ تنقید بناتا ہے-
شاعر نے جنگ اور تشدد کے اثرات کو بڑے گہرے اور دردناک انداز میں بیان کیا ہے:
“غزہ میں آج بھی سفاک امن کا دشمن
دئیے حیات کے ہر روز ہی بجھاتا ہے”
یہ اشعار عالمی سطح پر ہونے والے تشدد اور اس کے اثرات کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ محض ایک علاقے کی حالتِ زار نہیں بلکہ ہر اُس جگہ کی تصویر ہے جہاں انسانیت جنگ کی بھینٹ چڑھ رہی ہے جہاں انسانیت ہو یقیناً وہاں ایسے اشعار نکلتے ہیں، انہوں نے انسانیت کے اس درد کو محسوس کیا ہے وہ چاہے فلسطین ہو یا کشمیر –
الطاف کشتواڑی کے اشعار میں انسانی جذبات اور احساسات کی عکاسی ایک اور نمایاں پہلو ہے۔
“تمہارے ہاتھ سے یہ آئینہ نہیں ٹوٹا
یہ میری شکل بکھرنے کے سلسلے ہوں گے”
یہ اشعار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شاعر نے فرد کے داخلی احساسات، اس کی خودی، اور اس کے ٹوٹنے کے عمل کو بڑے خوبصورت اور حساس انداز میں پیش کیا ہے-
کشتواڑی کی شاعری میں ایک طرف گہری تنقید ہے تو دوسری طرف امید کی کرن بھی موجود ہے۔ ان کا کہنا:
“تیری انا کے دوڑتے گھوڑوں کا کیا کریں
آ جائیں گے یہ خود ہی کبھی راہِ راست پر”
یہ اشعار اس بات کا غماز ہیں کہ وقت کے ساتھ انسان اپنی غلطیوں کو سمجھ سکتا ہے اور اپنی اصلاح کر سکتا ہے-
الطاف کشتواڑی کی شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک پورا جہانِ احساس ہے جس میں درد، محرومی، تنہائی، اور امید کے پہلو گہرائی کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ان کے اشعار میں مقامی مسائل سے لے کر عالمی موضوعات تک کا احاطہ ہے، اور یہی ان کی شاعری کی جامعیت کا ثبوت ہے۔ ان کا کلام ایک طرف انسانی جذبات کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف سماج، سیاست، اور ماحولیات کے مسائل پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کی شاعری کشمیری ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے، جو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے گا-
الطاف کشتواڑی کے اشعار میں استعارات کا بھی استعمال نہایت گہرائی اور تخلیقی فنکاری کا مظہر ہے۔ ان کے استعاراتی بیانات انفرادی اور اجتماعی مسائل کو نہ صرف واضح کرتے ہیں بلکہ قارئین کو ان پر سوچنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں موجود استعارات مقامی سطح پر انسانی زندگی کی مشکلات کو بیان کرنے کے ساتھ عالمی سطح کے موضوعات کا بھی احاطہ کرتے ہیں-
الطاف کشتواڑی کے اشعار ایک منفرد انداز میں گہرائی اور وسیع موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ان کے اشعار میں جو استعارات استعمال ہوئے ہیں، وہ ان کی تخلیقی مہارت اور گہری فکری بصیرت کا ثبوت ہیں۔ درج ذیل میں ان اشعار میں استعمال ہونے والے اہم استعارات کی وضاحت کی گئی ہے:
زمین اور کھیت کا استعارہ
“ہمارے کھیت میں بارُود بو گئے ہالی
کھلے ہیں آگ کے دانے ہماری فصلوں میں”
یہاں زمین اور کھیت زندگی، امن، اور خوشحالی کا استعارہ ہیں، جبکہ بارود اور آگ جنگ، تباہی، اور انسان کی خود غرضی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ استعاراتی اظہار زمینی وسائل کے استحصال اور جنگ کے نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔
آئینہ اور بکھرنے کا استعارہ
“تمہارے ہاتھ سے یہ آئینہ نہیں ٹوٹا
یہ میری شکل بکھرنے کے سلسلے ہوں گے”
آئینہ یہاں انا، شناخت، یا رشتے کا استعارہ ہے۔ آئینے کا ٹوٹنا انسان کے باطنی انتشار یا تعلقات کے ٹوٹنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چراغ اور دل کی بستی کا استعارہ
“جب چراغوں نے ہی دم توڑا تو پھر
دل کی بستی میں ٹھہر کر کیا کروں”
چراغ یہاں امید، روشنی، اور زندگی کی علامت ہے۔ دل کی بستی کا مطلب انسان کی اندرونی دنیا ہے، جو چراغ کے بجھنے کے بعد اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔
برف اور پہلو کا استعارہ
“پتھر ہے اگر تُو ذرا ایسا بھی نظر آ
پہلو میں کبھی برف کی مانند پگھل جا”
پتھر سختی، انا، یا بے حسی کی علامت ہے، جبکہ برف کا پگھلنا نرمی، ہمدردی، یا محبت کے جذبات کا اظہار ہے۔
سورج کا استعارہ
“میرے اندر کر لیا سورج نے گھر
تو بھی پگھلے گا مگر میں کیا کروں”
سورج یہاں قوت، روشنی، اور طاقت کا استعارہ ہے، لیکن یہ اندرونی تناؤ یا شدید جذبات کی طرف بھی اشارہ کر سکتا ہے جو انسان کو جلا دیتے ہیں۔
زخم خوردہ زمین کا استعارہ
“زخم خوردہ ہے زمیں، بس آگ ہی اب آگ ہے
دُودھ پیتے نونہالوں کو زمیں کیا کھا گئی”
زخم خوردہ زمین تباہ شدہ ماحول اور انسانی رویوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بربادی کا استعارہ ہے۔
اونی لباس اور دستار کا استعارہ
“اونی لباس عظمتِ دستار ہم سے ہے
ہم لوگ اپنے دور کی پہچان الگ ہیں”
یہاں اونی لباس اور دستار ثقافتی شناخت اور روایات کی علامت ہیں، جو شاعر کے لیے فخر اور انفرادیت کا باعث ہیں۔
گھونسلے اور ابابیلیں کا استعارہ
“چھت میں تھے گھونسلے، تھا شور ابابیلوں کا
مل چکی ہے مجھے اب سب سے اماں تیرے بعد”
گھونسلے امن اور گھر کا استعارہ ہیں، جبکہ ابابیلیں زندگی کی رونق اور خوشحالی کی علامت ہیں۔ ان کا غائب ہونا سکون اور تحفظ کے خاتمے کو ظاہر کرتا ہے۔
پتھر اور پہاڑ کا استعارہ
“اونچی چٹانیں توڑ کے رکھ دی ہیں وقت نے
تھے نام جس پہ اپنے، وہ پتھر وہیں ہیں اب”
پتھر اور چٹانیں سختی، طاقت، یا انسان کے کارناموں کی علامت ہیں۔ وقت کی طاقت ان علامتوں کو بے معنی بنا دیتی ہے-
سُرخ آندھی اور شاخیں استعارہ
“سُرخ آندھی جہاں چھینی تھیں شاخیں پیڑ کی
تپتے صحرا میں جسے دیکھا کھڑے وہ میں ہی تھا”
سُرخ آندھی تشدد اور جنگ کا استعارہ ہے، جبکہ شاخیں زندگی اور امید کی علامت ہیں، جو آندھی میں بکھر جاتی ہیں۔
زباں اور بے زبانی کا استعارہ
“ترقی یافتہ تہذیب کے سانچے میں گھر ڈالا
زباں تھی کل تلک گھر میں، مگر ہے بے زبانی اب”
زباں یہاں ثقافت اور اظہار کی آزادی کا استعارہ ہے، جبکہ بے زبانی کھوئی ہوئی شناخت اور جبر کی علامت ہے۔
بارش اور ابر کا استعارہ
“سازشیں ابر میں رقصاں ہیں خبر ہے ہم کو
سُرخ بارش سے مگر پھر بھی گُزر جانا ہے”
ابر اور بارش امید اور زندگی کے استعارے ہیں، لیکن یہاں سازش اور سرخ بارش خوف، جنگ، اور تباہی کی علامت بن جاتے ہیں۔
الطاف کشتواڑی کی شاعری میں نُدرت اور لطافت دو ایسے پہلو ہیں جو ان کے کلام کو عام شاعری سے ممتاز بناتے ہیں۔ ان کے اشعار میں نہ صرف منفرد تخلیقی خیالات کا اظہار ہوتا ہے بلکہ گہرے جذبات اور باریک بینی سے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ دونوں عناصر ان کی شاعری کو ایک دلکش اور دلنشین تجربہ بناتے ہیں۔
الطاف کشتواڑی کی شاعری میں نُدرت ان کے منفرد موضوعات، تازہ خیالات، اور منفرد استعارات میں جھلکتی ہے۔ وہ عام موضوعات کو غیر معمولی زاویے سے پیش کرتے ہیں اور قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مثال:
“ترقی یافتہ تہذیب کے سانچے میں گھر ڈالا
زباں تھی کل تلک گھر میں، مگر ہے بے زبانی اب”
یہ اشعار جدید ترقی اور اس کے اثرات پر ایک منفرد تنقیدی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ زباں
(جاری صفحہ8پر)
(صفحہ9سے آگے)
اور بے زبانی کا استعمال انسانی تہذیب کی ثقافتی گمشدگی کا ایک انوکھا استعارہ ہے۔
کشتواڑی کے ہاں نُدرت ان کے الفاظ کی تخلیقی ترتیب اور جدت سے بھی واضح ہوتی ہے:
“میرے اندر کر لیا سورج نے گھر
تو بھی پگھلے گا مگر میں کیا کروں”
یہاں سورج کا اندر گھر کر لینا اور پگھلنے کا تصور، زندگی کی مشکلات اور اندرونی کشمکش کا ایک نیا زاویہ پیش کرتا ہے۔
کشتواڑی کی شاعری میں لطافت ان کے جذبات کے بیان کی گہرائی اور نزاکت سے عیاں ہوتی ہے۔ وہ سخت اور تلخ موضوعات کو بھی نہایت نرم اور پُر اثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔
مثال:
“چھت میں تھے گھونسلے، تھا شور ابابیلوں کا
مل چکی ہے مجھے اب سب سے اماں تیرے بعد”
یہ اشعار جدائی اور سکون کی تلاش کو نہایت لطیف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ گھونسلے اور ابابیلیں ایک خوبصورت استعارہ ہیں جو محبت، تحفظ، اور ماضی کی یادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
اسی طرح یہ شعر:
“تمہارے ہاتھ سے یہ آئینہ نہیں ٹوٹا
یہ میری شکل بکھرنے کے سلسلے ہوں گے”
لطافت کا اعلیٰ نمونہ ہے، جہاں آئینہ جذبات کی شفافیت اور بکھرنے کا تصور انسانی رشتوں کے نازک پن کو عیاں کرتا ہے۔
کشتواڑی کی شاعری میں نُدرت اور لطافت اکثر ایک ساتھ نظر آتی ہیں، جو ان کے کلام کو ایک خاص دلکشی عطا کرتی ہیں۔ وہ جدت کے ساتھ گہرے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں، جیسے:
“پتھر ہے اگر تُو ذرا ایسا بھی نظر آ
پہلو میں کبھی برف کی مانند پگھل جا”
یہاں پتھر اور برف کے استعارے انسانی رویوں کی سختی اور نرمی کو نہایت لطیف اور انوکھے انداز میں پیش کرتے ہیں۔
مزید مثال:
“زخم خوردہ ہے زمیں، بس آگ ہی اب آگ ہے
دُودھ پیتے نونہالوں کو زمیں کیا کھا گئی”
یہاں نُدرت اس خیال میں ہے کہ زمین کو زخم خوردہ کہا گیا ہے، اور لطافت ان معصوم بچوں کی حالتِ زار کے بیان میں ہے جو زمین کی بربادی کا شکار ہو رہے ہیں۔
الطاف کشتواڑی کی شاعری میں نُدرت اور لطافت کا امتزاج ان کے کلام کو نہایت پراثر اور قابلِ تحسین بناتا ہے۔ ان کی شاعری زندگی کے پیچیدہ مسائل کو ایک نرمی اور گہرائی کے ساتھ بیان کرتی ہے، جو قارئین کو نہ صرف جذباتی طور پر متاثر کرتی ہے بلکہ ان کے فکری افق کو بھی وسیع کرتی ہے۔ یہی خصوصیات ان کے فن کو منفرد اور لازوال بناتی ہیں۔
امید واثق ہے کہ اُن کا یہ مجموعہ ادرو ادب کے حلقوں میں اپنی پہچان قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہوگا_،،
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل : 9419463487

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں