کیرالہ کا ہم جنس پرست جوڑا: ’جب ڈاکٹر ہمارے رشتے کو نہیں سمجھ سکے تو دوسرے کیسے سمجھیں گے؟‘ 0

کیرالہ کا ہم جنس پرست جوڑا: ’جب ڈاکٹر ہمارے رشتے کو نہیں سمجھ سکے تو دوسرے کیسے سمجھیں گے؟‘

کیرالہ کا ہم جنس پرست جوڑا: ’جب ڈاکٹر ہمارے رشتے کو نہیں سمجھ سکے تو دوسرے کیسے سمجھیں گے؟‘
’وہ اور میں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ہم دونوں کے درمیان اچھی ہم آہنگی تھی اور ہم نے جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے کا انتخاب نہیں کیا۔‘
یہ کہنا ہے انڈیا کی ریاست کیرالہ کے ہم جنس پرست جوڑے، عفیفہ اور سمیہ کا۔
21 سالہ سمیہ شیرین اور ان کی ہم عمر عفیفہ کیرالہ کے ملاپورم ضلع کے کنڈوٹی علاقے کی رہائشی ہیں۔ اس ہم جنس پرست جوڑے نے اپنے والدین کی شدید مخالفت کے باجود عدالتی مداخلت کے بعد ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی تمل کو اپنے تعلق اور اس کے باعث معاشرتی سطح پر پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بتایا۔
ان کے تعلق کی بنیاد کووڈ وبا کے دوران پڑی تھی جب وہ 12ویں جماعت میں ہم جماعت تھیں اور انھوں نے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ایک ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر ایک ساتھ رہنا شروع کیا تھا۔
عفیفہ کہتی ہیں کہ ’وہ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی سب سمجھ جاتی ہے اور میں بھی اس کے بنا کہے سب جان جاتی ہوں۔ ہماری اسی ہم آہنگی کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے سے پیار ہو گیا اور ہم نے ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کرنے میں جنس کو نہیں دیکھا کیونکہ ہم دونوں ایک ہی سوچ کی حامل ہیں۔‘
عفیفہ اور سمیہ کے تعلق اور رشتے کے بارے میں سب سے پہلے عفیفہ کے گھر والوں کو شک ہوا تھا۔ جس کے بعد انھوں نے ملاپورم کونڈتی تھانے میں 27 جنوری 2023 کو ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔
جس کے بعد یہ جوڑا 29 جنوری کو ملاپورم مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا اور انھوں نے ایک ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عدالت نے اسے قبول کرتے ہوئے دونوں کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔
عدالت کی جانب سے ایک ساتھ رہنے کی اجازت ملنے کے بعد عفیفہ اور سمیہ نے چند ماہ ہی ایک ساتھ گزارے تھے کہ عفیفہ کے اہلخانہ اور رشتہ دار 30 مئی کو ان کے دفتر جا پہنچے اور انھوں نے عفیفہ کو زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے دونوں کو پھر علحیدہ کر دیا۔
سمیہ نے اس معاملے کی اطلاع ایرناکلم بدھنکورسو اور کونڈوتی پولیس سٹیشنوں کو دی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس طرح، پانچ جون کو سمیہ نے کیرالہ ہائی کورٹ میں عفیفہ کی جبری علیحدگی سے متعلق ایک درخواست دائر کر دی۔
عدالت نے عفیفہ کو 9 جون کو پیش کرنے کا حکم دیا تاہم انھیں پیش نہیں کیا گیا۔ اور ان کے وکلا کی طرف سے وقت مانگا گیا۔ اس کے بعد 19 جون کو عفیفہ کو ان کے والدین نے عدالت میں پیش کیا۔
لیکن عفیفہ نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ سمیہ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں اور وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ اس کے بعد وہ عدالت سے اپنے والدین کے ہمراہ چلی گئیں۔
کچھ دنوں بعد، عفیفہ نے سمیہ کو فون پر مطلع کیا کہ وہ عدالت میں اپنی مرضی سے بیان نہیں دے سکیں کیونکہ انھیں ایک دوائی دی گئی تھی اور ان کا جبری طور پر علاج کیا جا رہا ہے جسے کنورژن تھراپی کہا جاتا ہے تاکہ ان میں ہم جنس پرستانہ کشش اور خیالات کو تبدیل کیا جا سکے۔
جس کے بعد معاشرے کے کمزور افراد کے لیے کام کرنے والی ونجا کلیکٹو نامی ایک تنظیم کے ذریعے پولیس کی مدد سے عفیفہ کو ان کے گھر سے بازیاب کرانے کی کوششیں کی گئیں۔
لیکن عفیفہ کے والدین اور گاؤں کے لوگ اس کے خلاف تھے۔ پولیس کی مدد سے عفیفہ کو سخت جدوجہد کے بعد بازیاب کرایا گیا۔
عفیفہ نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے عدالت میں یہ بیان کیوں دیا تھا کہ وہ سمیہ کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔
’انھوں نے مجھے زبردستی علاقے کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا جہاں انھوں نے خون کے ٹیسٹ کے بہانے مجھے بے ہوشی کی دوا دی۔ میں دو دن تک بے ہوش رہی۔ اس کے بعد میں نے ڈاکٹر کو اپنے رشتے کے بارے میں بتایا اور ان سے کہا کہ میں سمیہ کے پاس جانا چاہتی ہوں۔‘
لیکن عفیفہ کہتی ہیں کہ ’وہاں ڈاکٹر اور قونصل نے میرا علاج یہ کہہ کر کیا کہ مجھے ہم جنس پرستی کا عارضہ ہے۔ دو خواتین کے درمیان یہ تعلق غیر فطری ہے، لیکن اسے آسانی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں پیش کیے جانے سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ وہ سمیہ کے ساتھ جانا چاہتی ہیں لیکن ڈاکٹر نے غصے میں آ کر انھیں بے ہوشی کی اضافی خوراک دے دی۔
جس کے باعث جب انھیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو ’وہ اپنے پورے حواس میں نہیں تھیں۔ ان کا جسم لڑکھڑا رہا تھا، انھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ چلتے ہوئے گر جائیں گی، اور اس وقت وہ ٹھیک طرح سے سوچنے یا بولنے سے قاصر تھیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والدین نے بھی دھمکی دی تھی کہ ’اگر تم مر بھی جاؤ تب بھی ہم تمھیں سمیہ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم سمیہ کو بھی مار ڈالیں گے۔‘
عفیفہ نے کہا کہ ’انھوں نے عدالت میں جو کچھ بھی کہا وہ اس لیے تھا کہ انھیں ڈر تھا کہ اگر اس نے کوئی بات کی تو سمیہ کو کچھ ہو جائے گا۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں