93

کر ونا اور کشمیر

 

تحریر: ش م احمد۔۔۔

کورونا پوری دنیا میں بلا روک ٹوک اپنے آ ہنی پنجے گاڑے آگے ہی بڑھتا جا رہاہے۔ ہیبت ، خوف اور بھیانک موت کے ہتھیاروں سے لیس انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والا یہ جان لیوا جرثومہ کتنا سفاک اور بے رحم ہے، اس کی ڈراؤنی مثالیں ہم اٹلی ، سپین ،امریکہ ، فرانس، جرمنی میں ہی نہیں بلکہ دلی اور اسلام آباد میں بھی مایوسی اور بے بسی کے ساتھ دیکھتے جا رہے ہیں ۔ ہلاکت آفرین کووڈ ــ۱۹/ کی یہی کیا کم قیامت ہے کہ جہاں بھی قدم جماتا ،سب سے پہلے تمام انسانی رشتوں ناطوں کو روندھتا ہوا محبت، تعلق داری، اظہارِ ہمدردی جیسے زندگی بخش اقدارکو بھولی بسری داستان بنا کر دم لیتاہے ۔ من وتُو، امیرغریب ، مذہب، رنگ ،ذات ، نسل جغرافیہ ،زبان کا کوئی امتیاز کئے بغیر جس کم نصیب انسان کویہ بیماری اپنے لپیٹ میں لے ، وہ اپنے ہی بھائی بند ، اہل ِ خانہ اور پورے سماج میں خود کویکہ و تنہا پاتا ہے جیسے وہ اپنوں کے درمیان کوئی راندہ ٔ درگاہ یا عضوئے معطل ہو کہ جس سے دوری بنانا ہر فرد بشر کے لئے ازحدضروری ہے۔ صاف ہے جب ایسے موذی مرض کے سامنے لوگ اس قدربے دست وپا ہوں کہ مریض کے گھروالے تک اس سے قطعِ تعلق پر مجبور ہو ں بلکہ اس مرض کی بھینٹ چڑھنے والے کی موت کی صورت میں تدفین وتکفین یا انتم سنسکار تک میں سگے سمبندھی شرکت سے کتراتے ہوں، حتیٰ کہ مرے ہوئے مریض کو قبر ستان میں دفنانے یا شمشان گھاٹ میں اس کا داسنکار کر نے سے لوگ گریز اں ہوں ، تو روگی کا کیا حالِ بدہو تاہو گا ،یہ وہم وگمان میںبھی نہیں آ سکتا۔ ان معنوں میںکورونا جریدہ ٔعالم پر آپادھاپی اور نفسانفسی جیسی غیرا نسانی روش کی ایک انوکھی تاریخ رقم کر تا جارہا ہے۔
ا س سوال کا فی الحال کسی کے پاس جواب نہیں کہ کورونا وبا کے چلتے
کب تک انسانی دنیا کا گلا دبتا رہے گا، کب تک مہاماری بے لگام ہوکر انسانوں کوتابوتوں اور اَرتھیوں میں سوار کرتی رہے گی، کب تک ہسپتالوں میں آہ وبکا کے ناقابل برداشت مناظر کی صورت گری کرتی رہے گی، اس کے زیر اثر انسانی زندگیاں کب تک اجیرن ہوتی رہیں گی، ا س سے بچنے کی تدبیر کے طور سماجی دوری(جسمانی طور صحیح لفظ ہے ) کب تک انسانی روابط اور تعلقات پر ہمہ وقت کوڑابرستار رہے گی، کب تک یہ بلائے ناگہانی ہر کسان ، محنت کش ، یومیہ مزدور، کاریگر ، صنعت کار، غیر سرکاری ملازم، ٹرانسپورٹر ، ٹھیلے والے اور خوانچہ فروش جیسوں کے لئے آذوقہ کمانے کا پہیہ جام کرتی رہے گی، لاک ڈاؤن اور بندشوں کا بھوت کب تلک انسانی بستیوں میں ویرانیوں کاڈیرا جماتا رہے گا۔ نہ اس سوالات کے بارے میں کچھ وثوق سے کہا جاسکتا ہے اور نہ اعتماد کے ساتھ اندازہ لگایا جاسکتاکہ آگے گھمبیر وبائی حالات دنیا میں کیا رُخ اختیار کر تے ہیں۔ البتہ اس عالمی المیے کی دُھوم کے بیچوں بیچ ایک خوش آئند امر بس یہ ہے کہ چین سمیت جس یورپ میں کورونا موت اور معیشی تبا ہیوں کی بھیانک رُوداد لکھتا جارہاہے، وہاں سائنس دان اور ماہرین ِ طب دواساز لیبارٹریوں میں اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں تاکہ کووڈ ۱۹/ کے تدراک کے لئے ٹیکہ تیار کر کے انسانوں کو مہاماری سے نجات دلا سکیں۔ یہ دفاعی ویکسین کب ایک حقیقت کا روپ دھارن کر ے گا، کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم تجربات کی شروعات آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں کی جاچکی ہے جو عالم ِ انسانیت کے لئے ایک مژ دہ ٔ جانفزاہے ۔
کشمیر میں کورونا کی دستک مارچ کے اوائل میں ہی پورے زور وشور سے سنی گئی ، تادم ِ تحریر اس نحوست آمیز مرض کا شکار بننے والے لوگوں کی روز بہ روز تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ تادم تحریر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جموں کشمیر میں پازیٹو مر یضوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے جب کہ 170کے قریب مر یض پہلے ہی خطے میں اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں ۔
دنیائے انسانیت کے لئے لاک ڈاؤن کی صورت میں گھروں میں محصور ہونا بھلے ہی ایک انہونی اور ناقابل برداشت بات ہو مگر وادی بھرمیںبندشوں اور حصاروں کے درمیان ہونے کی کہانی گزشتہ تیس سال سے شد ومد سے جاری ہے۔ لہٰذا کشمیر یوں کے لئے بہ حیثیت مجموعی لاک ڈاؤن کی سختیاں اور محدودیتیں سہنے اور جھیلنے کی قوت بھی ناقابل تسخیر بنی ہوئی ہے ۔ انہوں نے ایسے کڑے سے کڑے حالات میں بھی جینے اور معمولات ِ زندگی چلانے کا منفرد فن اَزبر کیا ہوا ہے ۔ پازیٹیو مریضوں اور قرنطینہ میں رکھے جارہے افراد کی تعداد میں متواتر بڑھوتری ہورہی ہے۔ حالات کا یہ پہلو فکرو تشویش سے لبریز ہے۔ اس پس منظر میںبلاشبہ انتظامیہ مشنری کے ہاتھوں پھر سے لاک ڈاؤن کا زوردارنفاذ مفادِ عامہ میں ہے ۔ یہی زمینی حالات کاتقاضائے اول ہے ، اور اس میں بلاوجہ کوئی نرمی ، سہل انگاری یا ڈھیلا پن سیدھے طور پہلے سے ہی ناگفتہ بہ حالات کی چکی میں پسے جارہے اہل ِکشمیر کے لئے ہر اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے ۔ مقام ِ شکر ہے کہ کم ازکم اس ضمن میں باشعور لوگ ایڈمنسٹریشن کو بھر پورتعاون دے رہے ہیں۔ ڈزاسٹر منیجمنٹ کے حوالے سے گرمائی راجد ھانی سری نگر کے ڈپٹی کمشنر شاہد اقبال چوہدری کی اس بابت غیر معمولی فعالیت کی خاص طور پر عوام میں بہت پذیرائی ہورہی ہے ۔ عام تاثر یہی ہے کہ موصوف کورونا کے پھیلاؤ کو مزیدروکنے میں انتہائی سنجیدگی سے اپنے منصبی فرائض ا یک انتظامی ضرورت سے زیادہ ایک انسانی مشن کے طورانجام دے رہے ہیں ۔ تاہم شفاخانوں میں بالخصوص وبا ئی آفت سے دودوہاتھ کر نے کے لئے درکار ضروری وسائل کی کم یابی کی شکایات عام ہیں ، جب کہ قر نطینہ کے لئے مخصوص جگہوں میں لازمی ضروریات کے حوالے سے بھی لوگ بالعموم شاکی ہیں۔ میونسپل عملہ اس حوصلہ شکن فضا میں اپنے فرائض انجام دینے میں کو ئی تساہل نہیں برت رہا ہے۔ یہ ایک اُمید افزاء حقیقت ہے جس کے لئے ایک واجبی مشاہرے پر کام کر نے والے خاکروبوں کی خدمات کو سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ بنک ، اے ٹی ایم اور امور ِ صارفین (خوراک ورسدات) کا محکمہ بھی موجودہ صبر آزما حالات میں قابل تحسین کام کر رہے ہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جب دنیا بھر میں مہلک وبا کے سبب معاشی میدان پر ۱۸۲۹ء کے گریٹ ڈیپرشن کی مانند نقطہ ٔ انجماد چھایا ہو اور اقتصادی سر گر میاں اتنی تلپٹ چلتی ہوں کہ عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں گردو غبار سے کم تر سطح پر آجائیں، تو کشمیر کی تن ِ مردہ والی معیشت کس شمار وقطار میں ! اس میں دورائے نہیں کہ یہاں گزشتہ تیس سال سے نامساعد سیاسی حالات کے سبب معاشی سرگرمیاں ویسے بھی نام کی تھیں، سیاحت، زراعت اور دیگر ترقیاتی شعبوں کو پہلے ہی مکمل گہن لگ چکا تھا ، رہی سہی کسر گزشتہ سال دفعہ ۳۷۰ /کی آئینی عمارت دھڑام گرائے جانے سے نکا لی گئی کہ ابھی یہ نڈھال سرزمین سکتے کی حالت سے کاملاًباہر نہیں آچکی ہے ۔ مرکزی حکومت کے ا س تاریخی اقدام کے ردعمل میںاگست ۱۹ء کے اوائل سے دسمبر کے اواخر تک کشمیر گویا ایک شہر خموشاں بنارہا، نظامِ ہست وبود منجمد ، طویل کرفیو اور ہڑتال کا دور دورہ، مواصلاتی سسٹم ٹھپ، تعلم وتعلم نابود۔ اس صورت حال سے کشمیر کی نیم مردہ معیشت کامزید جاں بلب ہو نا ظاہر سی بات ہے مگر جوں ہی جنوری ۲۰ء سے رفتہ رفتہ حالات میں کچھ ٹھہراؤ پید ہوا،فون اور دیگر سرکاری سہولیات جزوی طور بحالی ہو نے لگیں تو ایک موہوم سی اُمید پیدا ہو چکی تھی کہ آمد ِبہار بشمول دربار مو کے ساتھ یہاں کا روبار ِ زندگی کی سکڑی نسیں ممکنہ طور پھر سے حرکت میں آنے لگیں گی ۔ یہ خوش اُمیدیاں ابھی قیاسوں کے بطن میں کروٹیں ہی بدل رہی تھیں کہ کورونا نے ان پر یک بارپانی پھیرا۔ اب حالات کیا ہیں ،اسے لفظوں میں شاید ہی بیان کیا جاسکے۔
اس وقت حال یہ ہے کہ کشمیر ایک وسیع وعریض بے حس وحرکت قبرستان بناہواہے جہاں کورونا اپنے خوف ، وسوسوں، اندیشوں کی گھٹاؤں کے ساتھ چہار سُو حکمران ہے۔لاک ڈاؤن نے پوری آبادی کو گھرکی چار دیواری میں مقید و محصور کیا ہوا ہے ،اس لئے قافلہ ٔ حیات درماندہ پڑا ہوا ہے ۔ معمول کے کام دھندے سب چوپٹ ہیں ۔ مساجد سے زیادہ سے زیادہ صرف اذانیں بلند ہورہی ہیں جب کہ ترک ِ جماعت کے مذہبی فتوؤں اور سرکاری فرامین پر من وعن عمل درآمد ہورہاہے ۔ مساجد میں نمازِ باجماعت سے کنارہ کشی کا اعلان سب سے اول جمعیۃ اہلحدیث جموں کشمیر نے کیاتو اس پر مذہبی حلقوں میں سراسیمگی پھیلی مگر آہستہ آہستہ کورونا سے بچنے کی تدبیر کے طور تمام مذہبی علماء نے بھی اسی اعلان کے پلڑے میں چار وناچار اپنا وزن ڈال دیا ۔
عمومی طور رواں سیزن وادی میںشادیوں کی تقاریب، مکانات کی تعمیر ومرمت اور دوسری دیگر سماجی مشغولیات کے لحاظ سے مصروف رہتاہے ۔اس سے اور باتوں کے علاوہ سماجی روابط کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی اگلے کئی ماہ تک اپنے عروج کی طرف گامزن رہتی ہیں ۔ اس بار کورونا کے قہر نے وادی ٔ کشمیر میں اب ان روایات اور مصروفیات کو عملاً ناسیاً منسیا اور ناقابل عمل کیا ہوا ہے ۔ گو مارچ کی ابتداء سے ہی ایک قلیل تعداد میں بہار ، بنگال ، اوڑیسہ اور پنجاب وغیرہ ریاستوں سے مزدور، کاریگر ، ریڑھی بان وغیرہ محنت مزدوری کے لئے واردِکشمیر ہوئے تھے مگر یک بہ یک وبا کا بگل بجتے ہی یہ غیر آبائی محنت کش طبقہ گروپوں کی صورت میں کرایہ پر لئے گئے اپنے کمروں میں محدود ہو کر رہ گیا۔ ان لوگوں کے پاس نہ کام کاج ہے اور نہ گزرِ اوقات کے لئے پیسہ مگر بھلا ہو اہل ِکشمیر کے جذبہ ٔ انسانیت اور غیر معمولی احساسِ ذمہ داری کا کہ حسب ِ سابق مقامی محتاجوں اور غرباء سمیت غیر ریاستی محنت کشوں کے لئے بھی بلا تمیز مذہب وملت رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے جگہ جگہ متحرک وفعال تھیں ۔ یہ پہلی بار نہیں دیکھا جارہاہے بلکہ ہنگامی حالات میں اہل ِکشمیر نے ہمیشہ اپنی انسان دوستی کی زریں مثالیں قائم کی ہوئی ہیں، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ بنابریں یہاںکوئی ایک بھی کشمیری یا غیر ریاستی کہیں بھوکا سوتا ہے نہ دوادارُو کے لئے پر یشان ہے ۔ ۲۰۰۸، ۲۰۱۴، ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۹ کے عہدہائے پُر آشوب کی طرح بے پناہ مشکلات اور دشواریوں کے باوجود ہر بستی میں ان دنوںرضاکار نوجوان ، مساجد کمیٹیاں اور کئی ایک مذہبی انجمنیں محتاج ِ امداد لوگوں کی بلا کسی بھید بھاؤ کے نقد و جنس سے امداد کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں عام لوگ اپنی مدد آپ کے سنہری اصول کے تحت رضاکاروں کی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خوشی خوشی مالی امداد کر رہے ہیں ، خاص کر صیام الکریم کے ان مقدس ایام میں لوگ اسے خیرات وصدقات اور زکوٰۃ کا ایک بہترین مصرف سمجھتے ہیں ۔ البتہ اس سال وہ تمام مدارس، خیراتی ادارے، رفاہی تنظیمیں ، یتیم خانے اور عام غرباء ان متبرک ایام میں مالی امداد کے لئے دردِ دل رکھنے والے اصحابِ ثروت سے رابطہ کر نے کی پوزیشن میں نہ ہوں گے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دینے والے ہاتھ لینے والے ان ہاتھوں کی ضروریات اور مصارف قطعی فراموش کر بیٹھیں، ہرگز نہیں ، ہماری انفردای اوراجتماعی امداد و اعانت امتحان کی ان گھڑیوں میں ا ن لوگوںکے لئے رگ ِ جان کے مترادف ہے ۔
کشمیر میں کورونا کی قدرتی بلاسے عوام الناس کو نجات دلانے والے تمام مخلص وبے لوث سرکاری وغیر سرکاری ادارے شاباشی وآفرین کے مستحق ہیں ۔
������

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں