‌‌کراماتی گھوڑا ( پہلا پڑاؤ ) 0

‌‌کراماتی گھوڑا ( پہلا پڑاؤ )

ملک منظور قصبہ کھل کولگام

سحر ایک خوبصورت اور تیز بچی تھی ۔وہ بچپن سے ہی سمجھدار اور چالاک مانی جاتی تھی۔خدا نے سحر کو ہر طرح کی صلاحیتوں سے مالامال کیا تھا۔ اس کے والد صاحب پیشے سے ایک بڑھئ تھے ۔سحر کی مانگ پر انہوں نے گھر کے صحن میں کاٹھی کا ایک گھوڑا بنایا تھا۔سحر روزانہ اسکول سے واپس آکر گھوڑے پر بیٹھ کر کہتی ” ٹک ٹک آگر آپ جادوئی گھوڑے ہوتے تو میں آپ کے ساتھ طلسماتی دنیا کی سیر کرنے کے لئے جاتی ۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے ۔”
ایک رات سحر گھر سے باہر نکلی اور ٹک ٹک پر بیٹھ کر کہنے لگی” چل میرے گھوڑے ٹک ٹک ٹک” گھوڑا چل پڑا۔سحر حیران ہوگئی ۔اس نے گھوڑے سے پوچھا” کیا تم طلسماتی گھوڑے ہو ”
گھوڑے نے کہا ” جی میں طلسماتی گھوڑا ہوں ۔”
سحر بہت خوش ہوئی۔اس کا خواب پورا ہوگیا ۔ اس نے ٹک ٹک سے کہا ” ہم کہاں جارہے ہیں ؟”
“ہم طلسماتی شہر کے جنگل میں جائیں گے ” ٹک ٹک نے جواب دیا۔
“وہاں خاص کیا ہے ؟ سحر نے پوچھا۔
“وہاں کی ساری چیزیں آپ انسانوں کی طرح باتیں کرتی ہیں۔ ”
ٹک ٹک نے کہا
“واہ ! ٹک ٹک پھر تو بہت مزہ آئےگا ” سحر نے کہا۔
ساری رات وہ ہوا میں پرندوں کی طرح اڑتے رہے ۔ سحر نیلے گگن کے تاروں کی روشنی میں ٹک ٹک پر لطف اندوز ہوتی رہی۔
صبح جب پوری طرح سے سورج نکلا تو ٹک ٹک ایک بڑے پہاڑ کی سرسبز چوٹی پر نیچے اترا ۔ اس نے گھاس چرانا شروع کیا اور سحر آس پاس کے درختوں کی طرف خوشی خوشی دیکھنے لگی ۔
اچانک جنگل کے سارے درخت طوفانی ہواؤں سے ہلنے لگے۔ درختوں کی لمبی اور موٹی شاخیں ایسے ہل رہیں تھیں جیسے کہ وہ کوئی جھولا جھول رہے ہوں ۔ سائیں سائیں کرتے جنگل میں سناٹا چھا گیا۔ سحر پریشان ہوگئی ۔موسم خوشگوار تھا ۔ بادلوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا ۔ دھوپ پوری طرح سے کھلی ہوئی تھی لیکن جنگل میں عجیب آوازیں آ رہی تھیں ۔اسی اثنا میں ایک بڑے درخت نے ایک موٹی وزن دار ٹہنی سحر کے سر پر گرا دی ۔لیکن ٹک ٹک نے وقت پر چھلانگ لگا کر سحر کو بچالیا ۔آس پاس کے سارے درخت سحر کی طرف چلنے لگے ۔سحر یہ منظر دیکھ کر گھبرانے لگی ۔
ٹک ٹک نے سحر کو اپنے قریب لاکر درختوں کے سردار سے رجوع کرتے ہوئے کہا:” اے درختوں کے دور اندیش اور رحمدل سردار ، اس معصوم بچی نے آپکی سلطنت کا کیا بگاڑا ہے جو آپ کی رعایا اتنی آگ بگولہ ہوگئی ہے ۔”
“یہ معصوم سی جان مخلوق کی اس ذات سے تعلق رکھتی ہے جو خودغرض اور احسان فراموش ہے۔ جو نہ صرف ہماری بلکہ اپنی آنیوالی نسلوں کی دشمن ہے۔ہم نے ان کو جینے کا سامان بخشا لیکن بدلے میں انھوں نے ہمارا بے تحاشا کٹاؤ کیا اور ہماری آبادی کو ختم ہونے کی کگار پر پہنچادیا ” ایک بڑے درخت نے غصے سے کہا۔
” وہ تو اس بچی کے بڑوں نے کیا ۔اس بچی کو تو معلوم بھی نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے ٹک ٹک نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
“آج کی یہ ننھی جان کل کی بالغ انسان ہوگی۔ پھر لالچ اور خودغرضی کے عالم میں یہ بھی انہی کے نقشے قدم پر چلے گی جس پر اس کے بڑے چلے ہیں ” سردار نے کہا۔
“نہیں سردار نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا ۔میں اس بچی کو یہاں اس لئے لایا ہوں تاکہ یہ آپکی اہمیت اور افادیت سے آگاہ ہو ۔یہ نسل ‌نو ہی آپ کی بقاء کی محافظ ہوگی ۔اگر یہ نسل بات سمجھ گئی تو نہ صرف آپ محفوظ رہیں گے بلکہ ان کی وساطت سے آپ کی آبادی بھی بڑھ جائے گی ” ٹک ٹک نے سمجھاتے ہوئے گزارش کی ۔
” آپ نے صحیح کہا ، اگر یہ نسل ہماری اہمیت سے واقف ہوئی تو ممکن ہے اس نیلے سیارے پر ذندگی بھی برقرار رہے گی ” لیکن کیا یہ بچی سمجھ پائے گی۔”
“جی درخت دادا میں اسی لئے یہاں آئی ہوں ” ٹھیک ہے پھر ۔
سردار نے اپنے ہاتھ سحر کی طرف بڑھا کر کہا ” آجاؤ بیٹی ،میں آپکو کچھ چیزیں دکھاتا ہوں ” ۔
سحر درخت کے ہاتھوں پر سوار ہوگئی اور کچھ ہی لمحوں بعد درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بیٹھ گئی۔
” وہ دیکھو بیٹی ،آپ کو کیا نظر آرہا ہے ؟” سردار نے پوچھا۔
” وہ ایک ننگا پہاڑ ہے ۔اس پر صرف پتھر ہیں اور اسکے چاروں اطراف میں بڑے بڑے نالے ہیں ” سحر نے کہا۔
” بالکل صحیح فرمایا ،لیکن یہ پہاڑ پہلے ایسا نہیں تھا ۔ اس پر ہمارے بھائی بہن آباد تھے ۔لیکن افسوس آپ کے بڑوں نے ان سب درختوں کو بےرحمی سے کاٹ ڈالا ۔ اب جب بھی برسات ہوتی ہے۔ تو یہ پہاڑ اس کو جذب نہیں کرپاتا ہے ۔اسی لئے اچانک سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔”
” اب اس سمت میں دیکھو وہ دور میدانی علاقے میں آپ کو کیا نظر آرہا ہے ؟” سردار نے پوچھا
” وہاں تو دھواں ہی دھواں ہے ۔” سحر نے جواب دیا
” وہ دھواں جس کو آپ کاربن ڈائ آکسائیڈ کہتے ہیں آپ کی بنائی ہوئی فیکٹریوں کا فضلہ ہے۔اس کو ہم ہی جذب کرتے ہیں ۔لیکن اب ہماری آبادی اتنی گھٹ گئی ہے کہ ہم اس کو جذب نہیں کرپاتے ہیں۔ نتیجتاً یہ دھواں فضا میں ہی ٹھہرتا ہے اور سورج کی شعاعوں کو بھی روک لیتا ہے ۔جس کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔”
“گلوبل وارمنگ ہوتی ہے ” سحر نے بات کاٹتے ہوئے کہا
“بالکل بیٹی آپ نے پتے کی بات بتائی ” سردار نے خوش ہو کر کہا
“اتنا ہی نہیں بلکہ خالق کائنات انسانوں کو سانس لینے کے لئے آکسیجن ہماری وساطت سے دیتے ہیں ،کھانے کے لئے غذا دیتے ہیں صحت افزا ماحول دیتے ہیں یہاں تک کہ پانی کا چکر بھی ہماری بدولت چلتا ہے ”
“میں سمجھ گئی درخت دادا ۔ اگر جنگل نہیں رہیں گے تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔ہمیں اور زیادہ درخت لگانے ہونگے ۔آپ کی حفاظت کرنی ہوگی ۔ میں دوستوں سے کہوں گی کہ ہر سال شجر کاری مہم میں حصہ لیں اور اگر ممکن ہو تو آنگن میں بھی پیڑ لگائیں ” سحر نے کہا
سردار نے سحر کو نیچے اتارتے ہوئے پوچھا” بیٹی مجھے امید ہے کہ آپ نسل نو کے بچے ہماری افادیت کو سمجھوگے اور ہماری دنیا کو آباد رکھوگے۔ کچھ کھانا چاہتی ہیں؟”
” میں ایک سیب کھاؤں گی ” سحر نے کہا
“کھاؤ بیٹی کتنے کھاؤ گی ” سیب کے درخت نے پاس آکر کہا
اسی اثنا میں ایک شیر کے دہاڑنے کی آواز آئی ۔ٹک ٹک کے کان کھڑے ہوگئے ۔اس نے سحر کو ایک بڑی چٹان کی طرف جاتے دیکھا ۔شیر نے سحر پر چھلانگ لگا کر مارنے کی کوشش کی لیکن اسی بیچ پتھر نے باہیں پھیلا کر سحر کو اپنی باہوں میں لے کر چھپا لیا ۔ٹک ٹک پریشان ہوگیا کہ سحر کہاں گئی۔
(جاری۔۔۔۔)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں