addddd 0

کشمیر،انتخابات اور سیاسی تنظیمیں

رشید پروینؔ سوپور

(دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا)

کشمیر کی سیاسی فضاؤں میں اتھل پتھل موجود ہے اور اس اتھل پتھل میں ابھی تک سب کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آتا ہے ، اگر چہ امیدواروں کا اعلان مختلف پارٹیوں سے ہوچکا ہے اور سبھی پارٹیوں نے اپنے سیاسی رتھ میدان میں چھوڑ دئے ہیں جن کے گھوڑے میدان میں دوڑ نے شروع ہوئے ہیں ،، سیاسی پارٹیوں نے اپنے بیانئے یا نریٹو بنانے اگر چہ پہلے ہی شروع کئے تھے لیکن حق یہ ہے کہ تمام پارٹیاں ایک طرح سے سیاسی تذبذب کا بھی شکار ہیں اور اپنے بیانئے کی مناسبت سے بھی یہ پارٹیاں اپنے آپ کو تہی دست پارہی ہیں ،،
شاید یہ کہ، کیا بیانئے مارکیٹ میں بک سکتے ہیں اور کونسے بیانئے مارکیٹ میں برانڈ کی صورت اختیا کر سکتے ہیں؟ کیونکہ بظاہر پچھلے ستر برسوں سے جو مال ان سیاسی دکانوں پر بکتا تھا اب وہ بہت پرانا اور فرسودہ ہوچکا ہے بلکہ مناسب کہنا یہ ہوگا کہ آوٹ آف فیشن ہوچکا ہے اور جو چیز آوٹ آف فیشن ہوجاتی ہے اس کا کوئی خریدار نہیں ہوتا ،، سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہوجاتا ہے کہ عمر عبداللہ جو خود بارہمولہ کانسٹی ٹیونسی سے این سی کی طرف سے امیدوار کے طور کھڑے ہوچکے ہیں ایک حالیہ جلسے میں پہلی بار ان کے دو بیٹے بھی انتخابی جلسے میں نظر آئے ، یہ چہرے کشمیری لوگوں کے لئے اجنبی ہیں ، اور انہیں یہاں کوئی نہیں جانتا اور نہ کبھی یہ اپنے باپ کے ساتھ کسی موقعے پر شاید اکھٹے دیکھے گئے ، لیکن ایک انتخابی جلسے میں ان کی موجودگی کا مطلب بالکل صاف اور واضح ہے کہ ، شیخ عبداللہ کے بعد ان کے سیاسی اور سماجی وارث فاروق عبداللہ تھے ، اور ان کے وارث عمر عبداللہ اور اب یہ عندیہ دیا جارہا ہے کہ عمر کے جانشین یہ دونوں بھائی ہوں گے ،۔ در اصل جمہوریت کے پیچھے بھی وہی دیو آمریت اور وراثت کی نیلم پری ہی ہوتی ہے ، یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ان دونوں عمر کے بیٹوں کی ماں کا نام پائل نا تھ سنگھ ہے اور پائل نے میری معلومات کی حد تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور دونوں کے بیچ میں طلاق بھی ہوچکی ہے اور یہ دونوں بچے اپنی ماں پائل کی سر پرستی میں ہی پروان چڑھتے رہے ہیں ،،
بہر حال میں نے کئی بار یہ لکھا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کی فیملی سارے ہندوستاں میں واحد سیکولر فیملی ہے جہاں ہندو مسلم سکھ اتحاد کا عملی طور پر مظاہرہ ہوتا ہے ، اس کے مقابلے میں مفتی محبوبہ کی بیٹی التجا مفتی بھی اپنی ماں کے جلسوں میں نظر آتی رہی ہے اور سیاسی طور پر اپنی ماں کا ہاتھ بٹارہی ہے یہ بھی اس بات کا عندیہ ہے کہ پی ڈی پی کا مستقبل بھی التجا مفتی سے جڑا ہے ،،،
یعنی دونوں پارٹیوں نے اپنی اگلی نسل کو میدان میں اتارنے کا نہ صرف من بنالیا ہے بلکہ عملی طور پر انہیں سیاسی رتھوں پر بٹھا کر اب سیاسی میدانوں کی اونچ نیچ کا مشاہدہ کرایا جائے گا تاکہ آنے والے دنوں میں ان کے خاندانوںکی یہ سواریاں میدانوں سے غائب نہ ہونے پائیں،، یہ دستور ہے اور سیاست میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ، اور شاید بر صغیر کے ہر ملک میں یہی ہوتا رہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا ، ،
سب سے ناپسند چیز ان انتخابات کی ہلچل میں جوابھر آئی ہے وہ مختلف پارٹیوں کی لن ترانیاں اور ایک دوسرے کو الف ننگا کرنے کے حملے ہیں ، جو کسی بھی طرح شائستہ اور مہذبانہ طریق کار نہیں کہلایا جاسکتا ، شاید ذاتی حملے اور ایک دوسرے پر گند اچھالنے کے سوا ان کرم فرماؤں کے پاس کچھ بچا ی ہی نہیں۔ کیونکہ نریٹو تو کوئی ہے نہیں، اس لئے ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور کرپشن کے الزامات کے سوا کوئی اور بات ان سب کے پاس نہیں ۔باشعور لوگ اور عوام اس سے پسند نہیں کرتے اور وہ عوام جو سیاسی چونچلوں سے دور رہتے ہیں وہ بھی ان الزام تراشیوں سے کان پکڑتے ہیں ، کیونکہ کشمیری لوگ ان سب پارٹیوں کے کردار اور کشمیر سے متعلق ان کے رول کو شروع سے جانتے اور سمجھتے آئے ہیں اور انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ کس خاندان نے کشمیر کو کہاں کہاں اور کس کس مفاد کے تحت مختلف اوقات میں بیچ کھایا ہے ۔سجاد غنی لون نے جوپیپلز کانفرنس کی جانب سے بارہمولہ کا انتخاب لڑ رہے ہیں عمر عبداللہ کو ، غیر’ کشمیر ی اور سیاح ‘کہا ہے ،مجھے لگتا ہے کہ یہ مہذبانہ اور شائستہ الفاظ نہیں ۔اچھا ہوتا اگر یہ سب حضر ات اور پارٹیوں کے لیڈر اپنے لہجے پر بھی قابو رکھتے اور اپنے الفاظ میں شائستگی کے عنصر کو بہر حال برقرار رکھتے ،لیکن ایسا شاید اس لئے نہیں کیونکہ اصل میں اب ان کے پاس کوئی مال نہیں تو ، وحشت ہی سہی،شاید سجاد ان الفاظ سے یہ جتانا چاہتے ہیں کہ عمر کی ماں بھی کشمیری سر زمین سے تعلق نہیں رکھتی تھی اور ان کا نام’ مولی ‘‘تھا ،اور عمر کی شادی بھی غیر ریاستی عورت سے ہوئی تھی ۔ ان انتخابات کی سب سے بڑی دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ بی جے پی نے کشمیر کی تین سیٹوں سے اپنے امیدوار کھڑا کرنے سے احتراز کیا ہے اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ بی جے پی اپنا امیدوار کشمیر کی کسی سیٹ سے نہیں اتارے گی ، اس فیصلے کے دفاع میں ان کے صدر جموں و کشمیر رویندر رینہ نے کہا ہے کہ ’’کبھی کبھی بہت بلند مقاصد حاصل کرنے کے لئے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر فیصلے کرنے پڑتے ہیں ،‘اگر چہ جتندر سنگھ قومی جنرل سیکریٹری نے کہا کہ ابھی تک یہ معاملہ زیر غور ہے لیکن حق یہی ہے کہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے اور اس کے ساتھ لداخ کی اکیلی سیٹ پر بھی بی جے پی اپنا امیدوار نہیں اٹھا رہی اور اس طرح ان سیٹوں پر ڈائریکٹ انتخابات میں حصہ نہیں لے گی لیکن پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بقولِ ان کے ، اُ ن جماعتوں اور افرادسے بھر پور حمائت اور تعاون کیا جائے گا جو ’امن اور تعمیر ‘کی بات کرتے ہیں ، جلد ہی نڈا اور دیگر مرکزی رہنماؤں کے ساتھ اس سلسلے میں بات کی جائے گی ،، رویندر رینہ نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ ’ہم کشمیر کی تینوں لوک سبھا سیٹوں سے اپنی طاقت اور اپنے بل پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن بعض قومی مفادات اور بڑے مقاصد کی خاطر مختلف فیصلے کرنے پڑتے ہیں نہیں تو ہماری پارٹی کشمیر کے کونے کونے میں مظبوط ہے اور ہم الیکشن جیت جاتے ،، یہ ان کا اپنا نظریہ ہے اور اس پر کسی قسم کا تبصرہ ضروری نہیں لیکن اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ کشمیر میں بھی اتنے ہی مظبوط ہیں جتنے کہ جموں میں تو پھر کونسی بات اڑچن بنی ہے یا کس بات کے خوف سے بی جے پی نے یہی بہتر سمجھا کہ پیادوں کو ہی آگے میدان میں جھونک دیا جائے ، اس کا تجزیہ کوئی بڑی بات نہیں ، اور اب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس سیاسی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور کس کی مخالفت میں اپنی زور آزمائی کریں گے ، اس سے پہلے کہ اس بات کا مختصر سا تجزیہ کیا جائے میں غالب ؔ کا ایک مصرعہ عرض کردوں ۔ ،ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘‘ اس طرح سیاست میں جو بتایا جاتا ہے وہ سچ نہیں ہوتا اور جو پوشیدہ رکھا جاتا ہے وہی کچھ بعد میں سچ بن کر سامنے آجاتا ہے ، اب بظاہر بی جے پی ببانگ د ہل این سی ، پی ڈی پی ،اور کانگریس کے خلاف مخالف بیان بازی میں اپنے حدود توڑ رہی ہے ، کانگریس کے ساتھ بی جے پی کی مخاصمت سمجھنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ بی جے پی کانگریس کے ہر نشان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشان ہے۔لیکن پی ڈی پی کے ساتھ ایک دور میں ان کا حکومتی اشتراک رہا ہے بلکہ یہ کہ پی ڈی پی نے ہی بی جے پی کو سرزمین کشمیر پر پہلی بار اکامو ڈیٹ کیا ہے ، اور یہ بھی کہ پی ڈی پی نے عوامی منڈیڈیٹ کے خلاف یہ قدم اٹھایا تھا اور لوگ اس بات کو بھولے نہیں ہے اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اس وقت پی ڈی پی کی حالت تھوڑی سی پتلی ہے ، لیکن این سی نے بھی کبھی کشمیر ی مفادات کے خلاف کام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، اسوقت کا سیاسی منظر نامہ بہ ظاہر یہ ہے کہ بی جے پی دونوں پی ڈی پی اور این سی کے خلاف زبردست کمر باندھے ان کی مخالفت میں زمین و آسماں کے قلابے ملا رہی ہے ، اور اتنا ہی نہیں بلکہ امیت شاہ نے ۱۶ مارچ کو جموں میں جو تقریر کی تھی اس کی تلخی ابھی تک پی ڈی پی اور این سی کو بے چین اوربے قرار کئے ہوگی ، امیت شاہ نے کہا تھا کہ عوام کو ان دونوں پارٹیوں کو مسترد کرنا چاہئے کیونکہ ۷۰ برس سے یہی دو خاندان کشمیریوں کا استحصال کرتے آئے ہیں اور کشمیر کی تباہی کا باعث بھی یہی دونوں جماعتیں ہیں جو قدم قدم پر کشمیری عوام کو فریب دے کر یہاں کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ بنتی رہی ہیں ،، اس طرح ان دونوں پارٹیوں کو استحصال ، ہوس پرستی اور خاندانی راج کی نشانیاں قرار دے کر ان کی تلخیوں میں مزید اضافہ کر دیا تھا ، شاید شیریں لبوں کی گالی گلوچ بھی شیریں ہی لگتی ہے ، لیکن کیا یہی حقیقت ہے اور کیا بی جے پی کی حکمت عملی یہی ہے ، ؟ یہ ایک بڑا معمہ ہے کیونکہ سید الطاف بخاری اور سجاد غنی لون کے بارے میں یہ تاثر پہلے ہی سے مظبوط ہے کہ یہ بی جے پی کی بی اور سی ٹیمیں ہیں ، جو آپسمیں اس وقت تعاون بھی کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کی مدد گار بھی ثابت ہورہی ہیں ، لیکن اس بات سے یہ معمہ حل ہوتا نظر نہیں آتا اور اصل بات کچھ اور ہی ہوسکتی ہے ، اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ این سی اور پی ڈی پی دونوں کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ انہیں اس الیکشن کو ہر حال میں مشترک طور پر کشمیر کے وسیع تر مفادات میں ایک ساتھ لڑنا چاہئے تھا لیکن عمر عبداللہ نے اس میں روڑے اٹکائے اور مفاہمت نہیں ہونے دی ،، کیوں ؟ یہ جہاں سوال پیدا ہوتا ہے وہاں اس کا قرین قیاس جواب یہ ہوسکتا ہے کہ شاید این سی اور بی جے پی کے درمیان کہیں ’’سیاسی عاشقانہ پن ‘‘ جاری ہے کیونکہ این سی کی مرکزی مخالفت ہمیشہ این سی کے لئے جیت کی نوید ہوتی ہے اور عوام محظ اس جذبے سے این سی کے لئے وؤٹ کرتے ہیں کہ بھارت کی مرکزی حکومتیں این سی کواکھاڑ پھینکنے کی تگ و دو کیوں کرتی ہیں؟ ، کشمیر کی مقامی سیاسی تنظیم ہونے کی بنیاد پر لوگ اس کے مخالف سوچنا اور معاملات کو دوسرے پسِ منظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا یہ زاویہ بی جے پی کی نظروں میں نہیں ہوگا ؟ کیا مرارجی یعنی جنتا پارٹی کے دور میں ایسا نہیں ہوا؟، اور ہر الیکشن دور میں یہاں ایسا ہوتا آیا ہے کہ مرکزی سرکار اور وزرا نے جس قدر این سی مخالفانہ رویہ اختیا ر کیا ہے ، اتنا ہی کشمیری عوام نے این سی کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی وؤٹ کیا ہے،، اگر اس پہلو کو سمجھا جائے تو پی ڈی پی کے ساتھ این سی کا اشتراک نہ کرنا بھی آسانی سے سمجھ میں آتا ہے ، اور تیسری بڑی بات جو اس کے حق میں دلیل بن جاتی ہے وہ یہ کہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی نے وادی کی تین سیٹوں پر اپنے امید وار کھڑے نہیں کئے اور یہ بھی انکا کہنا درست ہے کہ ان کے ساتھ جو بھی لوگ وادی میں جڑ چکے ہیں وہ مایوس ہی ہوئے ہوں گے کیونکہ بہر حا ل اس جماعت کے ساتھ جڑناان کی جستجوؤں کا آئینہ دار ہے اور یہ منزل ان سے شاید دور ہوئی ہے ۔
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں