یہ آنسو دل کی زبان ہے 59

بات صرف احساس کی ، بات کچھ بھی نہیں

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
ایک معمولی سی غلط فہمی پر میری اور ہمشیرہ کی تو تو میں میں ہوگئی۔ بات کچھ بھی نہیںتھی مگر بات بڑھتے بڑھتے پوری ناراضگی تک پہنچی۔
ہمشیرہ روپڑی۔ ہماری آپس کی بول چال بند ہوگئی نہ اس نے ناشتہ کیااورنہ ہی اس نے مجھے ناشتہ دیا۔
میں جب دفتر سے واپس آیا تو صاف لگ رہاتھاکہ اس نے بھی ناشتہ نہیں کیا ہے اور ظہرانہ بھی نہیں کھایا ہے ۔ بات بہت بگڑ گئی ہے۔
اس نے میرے لئے بھی کھانا نہیں بنایا تھااور پوچھا بھی نہیں۔
وہ اپنے کمرے میں صرف رورہی تھی۔ میں یہ دیکھ کر اب بہت پر یشان ہوا کہ یہ مسئلہ کس طرح سلجھ جائے ۔میں نے دل سے مان لیا کہ صحیح معنوں میں غلطی میری ہی تھی۔
ہمشیرہ میری طرف دیکھتی بھی نہیںوہ اس قدر ناراض تھی۔
اس کاچہرہ کمزوری ،پریشانی اور غم وغصہ سے اترا ہواتھا ۔ میں اس کو دیکھ کر بڑا دکھی ہورہاتھا۔ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کسی طرح معاملہ حل ہوجائے۔
ہماری والدہ صاحبہ کا انتقال دو ماہ قبل ہوا تھا۔ والد صاحب بہت پہلے فوت ہوچکے تھے۔ اب ہم صرف دو بھائی بہن تھے ۔ مجھے بہن سے بہت لگاؤ اورپیار تھا ۔ اسی لئے اس نے معمولی سی بات کو دل پہ لے لیا۔
دراصل دو دن قبل میں نے اس کو صرف اتنا کہا تھا کہ آج کل بیڈ ٹی بہت ہی بے مزہ اور پھیکی ہوتی ہے ۔اس میں چائے نام کا نشان بھی نہیں ہوتاہے ۔ بس اتنی سی بات پر وہ اس قدر ناراض اورپریشان ہوگئی کہ ہمارے باہمی تعلقات بگڑ گئے۔
ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پریشان رہنے لگے ۔ ہمارا گھر اب وہ گھر نہ رہا بلکہ ایک ویرانہ لگنے لگا ۔
اسی رات میں نے والدہ مرحومہ کو خواب میں دیکھا ۔ وہ مجھ سے بہت ناراض تھی۔ میری طرف سے منہ پھیر کر بیٹھی رہی ۔ کہہ رہی تھی۔ ’’میں نے سوچا تھا کہ میرے بعد تو اپنی چھوٹی بہن کو اور زیادہ خوش وخرم رکھے گا مگر یہ میری خام خیالی تھی ۔ بہن کے ساتھ تیرا سلوک سن کر میرا دل رو رہاہے۔ تونے مجھے بہت دکھی کردیا ہے ۔ میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گی۔
خواب میں ہی میں نے والدہ صاحب کو کہا کہ میں کل صبح ہی ہمشیرہ سے اپنی غلطی اور حماقت کی معافی مانگوں گا۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔ بے فکر رہیں۔ میں مانتا ہوں کہ غلطی میری ہی تھی میں نے صرف ذرا ترش لہجے میں کہاتھا کہ بیڈ ٹی بے مزہ ہے ۔ تونے لاپرواہی سے چائے بنائی ہے ۔ بس اتنی سی بات پر وہ ناراض ہوگئی۔ چونکہ میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں اس کو اتنی چھوٹی سی ترش بات سننے کی توقع ہی نہ تھی ۔ خیر! میں صبح ہی اس سے معافی مانگو ںگا۔ آپ بے فکر رہیں۔
میں جب نیند سے جاگا ۔ میں اب بھی ہڑبڑا رہاتھا۔ پسینہ سے شرابور تھا ۔ زبان خشک تھی ۔ ہونٹ کپکپار ہے تھے ۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا ۔
میں نے وضو کیا ۔ نماز پڑھی۔ دو رکعت نماز حاجت پڑھی اللہ کے حضور دعا مانگی کہ میرے مولیٰ میری ہمشیرہ میری غلطی معاف کرے اور مجھ سے پہلے کی طرح رہے۔
اب میں گھرسے باہر نکلا ۔ سڑک کنارے محکمہ بلدیات کے کوڑا دان میں سے ڈھونڈ کر ایک پھٹا ہوا جوتا نکالا۔ کمرے میں لاکراس کو صاف کیا ۔ بڑی خوبصورتی سے رنگدار چمکدار کاغذ کے ڈبے میں پیک کیا ۔
یہ لیکر میں ہمشیرہ کے کمرے میں گیا ۔ سیدھے ہی اس کے آگے سر جھکائے بیٹھا اورا سکو کہا کہ میری پیاری چھوٹی بہنا مجھے معا ف کرو۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتاہوں قصور بالکل میرا ہی تھا۔ آپ اللہ اور اماں کے لئے مجھے معاف کرو۔ میں دوبارہ ایسی غلطی نہیں کروں گا۔
میں نے کل دفتر سے آتے ہوئے پہلوان کی ہٹی سے مٹھائی لائی تھی۔ وہ ایسے ہی رکھی ہے۔ آپ مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاؤ تبھی مجھے سکوں ملے گا ۔ مجھے معاف کرو ۔ میں یہ میٹھائی تیرے ہی ہاتھ سے کھاؤں گا ۔ تب ہی مجھے لگے گا کہ تونے مجھے معاف کیا۔
یہ کہتے ہوئے میں نے ڈبہ اس کے آگے سرکا دیا اور اپناندامت بھرا سر اس کے آگے خم کرکے رکھ دیا۔
جب اس نے ڈبہ کھولا ۔ اس میں سے پھٹا ہوا جوتا نکلا۔ وہ حیران ہوگئی ۔ بولی یہ کیا؟
میں کہتا گیا کہ اب کھلاؤ۔ دیر نہ کرو۔ میں بے تاب ہوںکھانے کے لئے ۔دو دن سے بھوکا ہوں۔ میں لگاتار دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑے ہوئے تھا۔
یہ کہتے ہوئے ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے گلے ملے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ ہمشیرہ اور ماں دونوں نے مجھے معاف کیا۔
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں