دو دن کا عذاب 62

دو دن کا عذاب

معراج الدین فراز

آج فریدکے چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی۔۔۔۔ پچھلے دو دن وہ اتنا زیادہ پریشان تھا کہ سمجھ نہیں آرہا تھا معاملہ ہے تو ہے کیا۔۔۔ پھر جب آج میں نے فرید سے پوچھا بات کیا ہے بہت خوش نظر آرہے ہو۔ ایک دم سے یہ خوشی کس بات کی میرے دوست۔۔۔۔۔۔ پچھلے دو دن تو تم بات کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اکیلا تنہا بیٹھتے رہے۔ مجھے لگا تھا کہ تم مجھ سے ناراض ہو مگر اب لگ رہا ہے کہ معاملہ کچھ اور تھا ۔۔ گھر میں خیریت تھی نا۔ تو فرید نے مسکراتے ہوئے چہرے سے جواب دیا۔ یار اسلم کیا بتائوں پچھلے دو دن کا عذاب ۔۔۔ دراصل بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔میں ایک ہفتے کے بعد ماں سے ملنے گائوں گیا تھا بڑی خوشی خوشی واپس آ رہا تھا۔ ذہن میں آنے والے پروگراموں کے انبار کے بارے میں پتہ نہیں کیا کیا چل رہا تھا۔دل میں اس بات کی بھی مسرت تھی کہ آج اتوار ہے آفس نہیں جانا ہے بچوں کے ساتھ اچھا خاصا وقت گذارا جاسکتا ہے، اور بچے بھی بے صبری کے ساتھ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ بچوں کے فون کالز آرہی تھیں۔ کوئی کہہ رہا تھا میرے لئے یہ چیز لانا تو کوئی کہہ رہا تھا میرے لئے وہ چیز لانا۔ غصہ اور خوشی کا ملا جلا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آگے چل رہا تھا، اور چھوٹی بیٹی کی وہ بڑی بڑی باتیں سُن کر چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ رہی تھی جو کہہ رہی تھی ۔۔۔۔’’ بابا مجھے کچھ نہیں لانا ہے بس آپ جلدی سے آجائے۔ بس آپ کی گودی میں بیٹھنا ہے مجھے اور ہاں اگر راستے میں کہیں پر آئیس کریم اور چاکلیٹ کی دکان کھلی ہوگی تو میرے لئے لائے گا اور اگر نہیں بھی لائیں گے مگر پھر بھی جلدی آنا ۔۔۔۔ بابا مجھے آپ کی بہت یاد آرہی ہے‘‘۔ اس کی یہ پیار بھری باتیں سُن کر دل کو بہت اچھا لگ رہا تھا، اور سوچنے لگا راستے میں اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر بچوں کیلئے فروٹ وغیرہ لے جائوں گا۔
اے ٹی ایم کے پاس جونہی پہنچا تو میرے موبائیل پر ایک اور فون کال آگئی تو میں نے سوچا بچوں کی کال ہوگی کوئی اور بھی چیز لانے کیلئے یا پھر ماں کی کال جو پوچھ رہی ہوگی کہاں پہنچ گئے۔۔
مگر اس بار فون کال نہ ماں کی تھی اور نہ بچوں کی ۔۔۔۔۔ یہ کال میرے ایک دوست جاوید کی تھی میں نے فون کال رسیو کی تو وہاں سے دھیمی آواز میںمیرے دوست نے سلام کی۔ آواز ایسی تھی جیسے کوئی بڑی مصیبت سامنے آکھڑی ہوئی ہو۔ ایسا لگ رہا تھا ۔ دُنیا کے کسی سب سے بڑے جرم کی کوئی خطرناک سزا اس کو سنائی گئی ہے۔ میں نے وعلیکم سلام جواب دیکر پوچھا بھائی کیا حال ہے۔ سب خیریت ۔ آپ کی آواز بتا رہی ہے کہ کوئی مسئلہ ہے۔
تو میرے دوست نے ایک آہ بھرلی اور لمبی سانس لیکر کہا۔ بھائی اباجی کا ٹیسٹ (پازیٹیو) آگیا۔یہ الفاظ سن کر میری آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا چھا گیا۔ ایک منٹ کیلئے میں سکتے میں گیا۔ ایسا لگ رہا تھا مجھے کسی اونچے پہاڑ پر سے کسی نے زور سے دھکا دیا اور میں نیچے گر گیا۔ایک دم سے میرے سامنے اُن تمام لوگوں کے چہرے اور اُن کا حال رقص کرنے لگا جن سے میں اتنے دن ملا تھا۔
دوست نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ہمارے سیمپلز لئے گئے۔ کہہ رہے ہیں دو دن میں رپورٹ آجائے گی۔ تو پہلے خود کو سنبھالا اور پھر اُس کو تسلی دیتےہوئے کہا’’ دوست کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ انشا اللہ رحم فرمائے گا۔آپ فکر مت کرو۔ ابھی آپ کہاں ہو۔ توجواب ملا ہمیں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ تو دوست کو دلاسہ دیتے ہوئے اُس کو سمجھایا کہ ضروری نہیں ہے اگر والد صاحب کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا تو آپ کا بھی آسکتا ہے۔
اس کے بعد فون منقطع کرکے میں کچھ دیر گاڑی میں ہی پریشانی کےعالم میں بیٹھارہا۔ گاڑی سے نیچے اُترنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ کیونکہ صرف تین دن پہلے میں اور میرا دوست ایک ساتھ تھے۔ بہت دنوں کے بعد ملے تھے ۔ ہاتھ ملائے تھے، گلے ملے تھے،چائے ایک ساتھ پی لی تھی۔
اس کے بعد ہر وہ چہرہ میرے سامنے آیا جن سے میں یہ تین دن ملا تھا اور چند ایک ایسے تھے جن کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہے، اور ان میں میری ماں بھی ہے جو چند مہینوں سے بستر میں ہی ہیں۔ میری ماں کے علاوہ میرا اور ایک دوست ہے جس کی طبعیت ناساز ہے۔ اُس کا چہرہ جب سامنے آیا تو میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ کیونکہ ایک دم سے میری آنکھوں کے سامنے اُس کے دو معصوم بچے اور بیوی آگئی۔ اور سوچنے لگا اگر میری وجہ سے اُن کو کوئی مشکل پیش آیا تو میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کرپائوں گا۔ حالانکہ یہ سارا کچھ ایک اتفاق تھا۔ مگر ۔۔۔۔
بہر حال خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور گھر پہنچ گیا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے پہلے ہاتھ دھوئے اور پھر ہاتھوں کوسینٹائز کیا ۔ اُس کے بعد اندر چلا گیا۔ میری چھوٹی بیٹی حسب معمول میرے سامنے آگئی اور مجھے گلے لگانا چاہا۔ مگر ایک دم سے میں پیچھے ہٹ گیا اور رعب سے کہا’’دور ہٹو‘‘۔ وہ حیران ہوگئی۔ کیونکہ آج کا یہ رویہ میرا، اُس کی امید کے برعکس تھا۔ وہ مجھے نہایت ہی پیار بھری نگاہوںکے ساتھ ساتھ حیرانگی سے بھی دیکھ رہی تھی۔مگر چالاک اور ہوشیار ہونے کی وجہ سے شاید وہ جلدی یہ بات سمجھ گئی تھی کہ بابا کچھ پریشان ہیں۔ اب وہ سامنے تھوڑی دوری پر بیٹھ کر مجھ سے پوچھنے لگی ۔۔ ’’بابا کیا بات ہے آپ کیوں پریشان ہیں؟ لگتا ہے آپ کے پاس پیسے نہیں تھے آج۔ اس لئے آپ کچھ نہیں لائے۔ ’’چلو کوئی بات نہیں چیزیں ضروری نہیں ہیں آپ آگئے نا ہمارے لئے بس یہی کافی ہے ‘‘۔
بیٹی کی یہ میٹھی میٹھی اور پیاری پیاری باتیں سن کر میری آنکھوں میں آنسوں بھر آئے۔ یہ دیکھ کر میری بیٹی میرے سامنے آئی اور مجھے گلے لگایا ۔ ایک منٹ کیلئے میں سب کچھ بھول گیا۔ کورونا وائرس ،جیسے کہیں پر تھا ہی نہیں۔
مگر پھر واپس اُسی دُنیا میں چلا گیا۔ تو دھیان آیا اپنے دوستوں کو فون کروں۔ پہلے جاوید کافون ملایا ۔ مگر جاوید نے فون رسیو نہیں کیا ۔
تو ایک دوسرے دوست کو جو کہ بیمار ہے کو فون ملایا۔جس سے صرف دو دن پہلے ہی مل آیا تھا۔ اُس کو اُس کی طبعیت کے بارے میں حال چال پوچھا اور پھر بچوں کو کے بارے میں۔ دل کو تھوڑی تسلی ملی ۔ چلو اللہ کا شکر ہے یہ ٹھیک ہے ۔ اور پھر جاوید کا نمبرملایا ۔ اس بار جاوید نے فون کال رسیو کی اور سلام دعا کے بعد کہنے لگا۔ ’’ آپ کو پتہ ہے مجھے پورا یقین ہے کہ میرے اباجی کا ٹیسٹ پازیٹیو نہیں ہے ۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ پتہ نہیں یہ سب کیا چل رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے میں نے ایسا کونسا گناہ کیا ہے جس کی مجھے یہ سزا ملی‘‘ ۔۔۔۔۔یہ کہہ کر جیسے جاوید نے ایک آہ بھری ایسا لگ رہا تھا اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔ جیسے وہ ہمت ہار گیا ہو۔ ایک بیچارگی کے عالم میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’ دل بہت تنگ ہے ۔۔ بہت زیادہ۔مجھے اپنی لاچارگی پر خود کوہی ترس آرہا ہے۔ میری بیوی اور بیٹی ٹھیک تیسرے کمرے میں ہیں ، اپنی بیٹی کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ مگر افسوس میں کچھ نہیں کر پا رہا ہوں۔ دل میں آتا ہے تمام قواعدے و ضوابط بالائے طاق رکھ کر اُس روم میں چلاجائوں اور اپنی بیٹی کو گلے لگاکر اُس کو بہلائوں اُس کے ساتھ باتیں کروں ۔اپنی اہلیہ کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اُن کو دلاسہ دینا چاہتا ہوں۔ افسوس میں ایسا کچھ بھی نہیں کر پارہا ہوں۔ میں لاچار ہوں میں مجبور ہوں۔ اور ڈرتا بھی ہوں کہ کہیں جذبات میں آکر ایسا کوئی قدم اٹھایا تو خدا نہ خواستہ میری بیٹی کو پھر یا میری بیوی کو ئی پریشانی لاحق ہوئی تو۔۔۔۔۔۔‘‘تو اس کے بعد جاوید چپ ہوگیا۔ ایسا لگا جاوید اپنی آنکھوں میں آئے آنسووں کو خود ہ ہی پونچھ رہاتھا۔ ایک سناٹا جیسے چھا گیا۔ اس سناٹے کو توڑتے ہوئے میں نے کہا جاوید بھائی انشااللہ سب ٹھیک ہوجائےگا۔ بس کل تک آپ کی رپورٹ آجائے گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ انشا اللہ سب ٹھیک ہوگا ۔ تو کسی طرح میں نے جاوید کو سنبھالا اور فون منقطع کیا۔
جاوید کو تو سنبھالا ۔۔۔۔۔ مگر میرے من میں جو ایک ڈر پیدا ہوا ہے اُس کا کیا کروں
خیر شام کا کھانا کھانے کے بعد جب سونے کی تیاری کررہے تھے تو میری اہلیہ مجھ سے پوچھنے لگی کیا بات ہے آپ کیوں پریشان ہیں۔ کوئی خاص بات ہے ۔ تو میں نے نفی میں جواب دیکر بات ٹال دی۔
رات بھر کبھی اس کے بارے میں سوچتا رہا تو کبھی اُس کے بارے میں۔
صبح سویرے اُٹھا نماز ادا کی تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ یا اللہ میرے نصیب میں جو آپ نے لکھا ہوگا وہ تو آئے گا ہی۔ بس ایک دعا ہے کہ میری وجہ سے کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے اور اگر ایسا کچھ ہوا تو میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پائوں گا۔ مجھے نہیں ملنے جانا چاہئے تھا۔ کاش میں گھر نہیں گیا ہوتا ماں سے ملنے۔ ماں کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔ خدا نخواستہ ماں کو کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ انشا اللہ سب ٹھیک ہوجائےگا۔
خیر ناشتہ کرکے گھر سے باہر آیا تو جاوید کو فون کیا۔ اسلام علیکم جاوید بھائی کیا حال ہے۔ کیسی طعبیت ہے۔ جاوید نے وعلیکم سلام کہہ کر پہلے یہی بات بولی۔ کل شام کسی نیوز میں کچھ چلا کیا۔ ہمارا نام تو نہیں آیا کہیں پر لسٹ میں، ہماری ٹیسٹ رپورٹ اخبار میں چھپے گی کیا۔ میں نے جاوید کی حالت بھانپتے ہوئے اُس کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ بھائی ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ آپ کا ٹیسٹ انشاللہ ٹھیک ہی ہوگا۔ آپ کیوں پریشان ہوتے ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر ابا جی کا ٹیسٹ پازٹیو آیا تو آپ لوگوں کا بھی پازٹیو ہی آئے گا۔
تو جاوید کی آواز دھیمی پڑگئی اور ایسا لگا کہ جاوید کی آنکھوں میں آنسوئوں آگئے سسکیاں لیتے ہوئے جاوید نے کہا بھائی مجھے اس بات کا دُکھ ہے کہ اگر میرے بچے کو کچھ ہوا ۔ وہ ابھی صرف 2سال کی ہے ۔ اُس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ کویڈ ہے کیا۔ابا جی کے پاس ہی اکثر ہوا کرتی تھی ۔ اکثر اُنہی کی گود میں بیٹھی رہتی تھی۔ میں یہاں ایک کمرے میں ہوں اور وہ وہاں دوسرے کمرے میں اپنی ماں کے ساتھ ہے۔ کل شام دودھ نہیں تھا اُس کیلئے بہت رو رہی تھی ۔ بھوک کی وجہ سے ۔۔اور میں بے بس۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں کر پایا۔ خود کو کوستا رہا ۔ مگر کر بھی کیا سکتا ہوں۔ اللہ نے ایک ایسی آزمائش میں ڈال رکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔
خیر میں نے جاوید کو دلاسہ دلایا اور تھوڑی سی اُس کی ہمت باندھ لی۔ فون منقطع ہونے کیا تو آفس کی تیار ی کرنے لگا۔
گھر سے نکلا تو باہر ایک عجیب سے ڈر محسوس ہورہا تھا۔ ایک عجیب سی لہرڈراونی لہر جیسے چل رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا یہ کورونا میرے گاڑی کے آگے پیچھے منڈلارہا ہے۔ میں نے گاڑی کے شیشے بھی بند کررکھے اور منہ پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے لگاکر گاڑی سٹارٹ کی ۔ آفس پہنچا تو بیگ وغیرہ گاڑی سے نکال کر آفس میں داخل ہوا۔ میرے چہرے پر شاید صاف پریشانی جھلک رہی تھی۔ آفس میں موجود ایک شخص نے پوچھا۔ ’’ کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے کیا؟ آپ بہت پریشان دکھ رہے ہیں۔‘‘ اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے بس طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔ رات بھر سر میں درد تھا شاید اس وجہ سے لگ رہا ہوگا۔
چونکہ ۲۰ برس سے مارکٹ میں کام کررہا ہوںتو لوگوں کو سنبھالنے کا ایک اچھا خاصا تجربہ بھی ہے ۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے میں نے پورے دن کے کام کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہوئے کمپیوٹر پر بیٹھ گیا ۔ کمپیوٹر پر تو میں بیٹھ گیا اور کام بھی شروع کیا۔ مگر دل و دماغ پتہ نہیں کہاں تھا ۔ عجیب و غریب سوالات من میں آرہے تھے۔ کبھی اس کے بارے میں سوچ رہا تھا تو کبھی اُس کے بارے میں ۔ اتنے میں کچھ لوگ آفس میں آئے اور میرے کچھ خاص کسٹمر بھی ۔ جن میں سے ایک نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے میرے ساتھ مصافحہ کرنا چاہا۔ مگر دل میں پنپ رہے ڈر اور خوف نے ہاتھ آگے بڑھانے سے روک دیا۔ تو میں نے مذاق میں ٹالتے ہوئے کہا ۔ نہیں جناب مودی جی نے ہاتھ ملانے سے منع کیا ہے۔ آپ پتہ نہیں کہاں کہاں اور کن کن سے مل کے آئے ہوں گے۔ اس لئے میں اپنے آپ کو خطر میں ڈال نہیں سکتا ہوں۔ اور ہنستے ہوئے اُس کو بیٹھنے کا اشار کیا۔
مگر سچ بات یہ ہے کہ ڈر مجھے اُس سے نہیں بلکہ خود سے لگ رہا تھا۔ کہیں میری وجہ سے اس کو بھی کوئی پریشانی نہ ہو۔۴بجے کے قریب میں نے پھر جاوید کا فون ملایا اور جاوید کو شائد یہ سمجھ آہی گیا تھا کہ میں بہت پریشان ہوں۔ حالانکہ جاوید ایک سیدھا سادھا اور شریف النفس انسان ہے۔ جو اپنی دنیا میں ہمیشہ مگھن رہتا ہے۔ پیشہ سے مستری ہے ۔ مگر انتہائی مدد گار اور ملنسار انسان ہے۔ جاوید نے شاید وقت کی نذاکت کو بھانپ ہی لیا تھا۔ تو اس بار جاوید بڑے اطمینان کے ساتھ بات کررہا تھا۔ مجھے تسلی دینے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کررہا تھا کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہوگا ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے ہم سب میں وہ ڈر اور وہ خوف پھیلا ہوا ہے۔ مگر بھیچ بھیچ میں کوئی ایسی بات نکل ہی جاتی تھی جس سے اُس کے اندر کا ڈر محسوس ہوتا تھا۔
خیر شام کو جاوید مجھے پھر سے فون کرتا ہے اور بڑے اوتاولے انداز میں کہتا ہے۔
’’ایک خوشخبری ہے بھائی‘‘۔ تو میں نے بھی جلدی سے پوچھا ۔ کیا؟ تو کہا مجھے میرے سسرال والے فون کررہے تھے ہمارے ٹیسٹ نگیٹیو آئے ہیں۔ انہوں نے دیکھا ہے فیس بک پر ‘‘۔ جب اس نے فیس بک کا نام لیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس خبر میں کتنی حقیقت ہوسکتی ہے۔ تو میں نے بھی اُس کا دل رکھنے کیلئے مبارک باد دے ڈالی۔ مگر میرے اندر کا وہ خوف ، وہ ڈر ، وہ پریشانی اپنی جگہ برقرار تھی۔
خیر شام کو کام ختم کرنے کے بعد گھر واپس پہنچ گیا مگر آج میں نے کیا کہ آج میں گھر بہت دھیر سے گیا تب تک بچے سوگئے تھے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بچے میرے سامنے آئیں اورکسی طرح سے وہ مجھے یا میں اُن کو چھو لوں۔ اور آج کی رات جیسے قیامت کی رات تھی ۔ گذر ہی نہیں رہی تھی۔ ایک ایک منٹ ایک ایک گھنٹے کے برابر لگ رہا تھا اور ایک ایک گھنٹہ ایک ایک قیامت کا دن جیسے محسوس ہورہاتھا۔کبھی اُٹھ کے بیٹھ جاتا تھا تو کبھی واش رو م کے بہانے باہر آنگن میں آتا تھا ۔ پھر سے وہی ہر ایک فرد کا چہرہ سامنے آرہا تھا جن میں دو خاص چہرے تھے ۔ ایک میری ماں کا دوسرا میرے ایک بیمار دوست کا ۔ جن کو لیکر میں بہت زیادہ فکر مند تھا۔ کیونکہ آئے روز خبروں میں یا جتنی بھی کویڈ سے متعلق جانکاریاں آتی تھیں ۔ سب میں یہ والی بات عیاں ہوتی تھی کہ بیمار لوگوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتاہے اور جن افراد کو لیکر میں پریشان ہوں وہ دونوں بہت زیادہ بیمار ہیں اور جتنی جانکاری میرے پاس آج تک کویڈ 19کی آچکی ہے اس کے مطابق اگر ان دونوں پر ذرا بھی اس کا اثر ہوا تو دونوں کو بہت زیادہ خطرہ ہے۔ خیر اللہ اللہ کرکے یہ رات گذر گئ۔ ناشتہ کرلیا اور جلدی آفس کیلئے نکلا ۔جس کے دو وجوہات تھے۔ ایک یہ کہ بچوں سے دو رہوں اور دوسری یہ کہ کسی طرح سے جاوید کی ٹیسٹ رپورٹ پتہ کر سکوں۔
بہر حال پچھلے ۲ دنوں کی تمام ڈٹیل جمع کرکے ابھی میں پڑھ ہی رہا تھا کہ دن کے 12بجے کے قریب جاوید کا فون پھر آتا ہے ۔ جاوید کا نمبر دیکھتے ہی جیسے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ پورے بدن سے پسینہ چھوٹنے لگا۔ کیونکہ دل کہہ رہا تھا کہ جاوید اپنا ٹیسٹ رپورٹ جان چکا ہے اور اب مجھے خبر دینا چاہتا ہے ۔ یہ کچھ سیکنڈ جنہوں نے میری ذہن میں اتھل پتھل مچادی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ ایک انجانا سا خوف میرے سامنے منڈلانے لگا ۔ مگر پھر بھی نہ جانے کہیں سے دل کو اندر ہی اندر جیسے لگ رہا تھا کہ نہیں سب ٹھیک ہے۔ بہر حال میں نے ہمت جٹا کر فون کال رسیو کی۔
جاوید نے ہیلو بول کر پہلے سلام کی ۔۔۔ مگر آج اس کی آواز میں وہ پہلے والا دم لگ رہا تھا ۔ اور میرے وعلیکم بولنے سے پہلے ہی جاوید نے بے ساختہ ہوکر کہا بھائی جان مبارک ہو۔ بہت بہت مبارک ہو۔ ایک سیکنڈ کیلئے میرے چہرے پر خوشی کی لہر تو دوڑ گئی مگر دوسرے ہی لمحہ میں پھر جاوید کی کل والی بات آگئی جس میں جاوید نے کہا تھا کہ فیس بک پر نیو ز آئی تو لگا کہ جاوید پھر ایسی ہی کوئی نیوز سنانے والا ہے۔ تو خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے جاوید سے پوچھا کیا بات ہے بھائی چلو خیر مبارک ۔مگر بولو تو سہی کس بات کی مبارکبادی دے رہے ہو۔ تو جاوید نے کہا’’ بھائی ہماری ٹیسٹ رپورٹ آگئی ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہم ٹھیک ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ کا بہت بہت شکر ہے۔ اور جاوید کی آنکھوں میں جیسے آنسوں نکل آئے ایسا لگ رہا تھا کہ جاوید ابھی چیخ چیخ کے روپڑے گا ۔ تو میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ چلو کوئی بات نہیں ۔ سب ٹھیک ہے اب ۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ کا شُکر کرو ۔ اس کے بعد میں نے سوچ سمجھ کے پوچھا ۔ کس نے کہا یہ ؟ کسی نے فون کیا ،کیا؟ تو جواباً بولا یہاں کا ایک سٹاف ممبر ہے جس کی کورنٹین سینٹر میں ڈیوٹی ہے اُسی نے یہ خوش خبری دی۔یہ الفاظ سُن کر جیسے مجھ میں ایک نئی جان آگئی۔ میرے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔یہ وہ الفاظ ہیں جن کا ہی میں جیسے پچھلے دو دن سے انتظار کررہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میری ویران ہوئی پوری دُنیا پھر سے آباد ہونے لگی اور میرے دل میں خوشی کی جیسے کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔ میں نے جاوید کو پھر سے مبارک باد دی اور فون منقطع کیا۔کچھ دیر کیلئے آفس کے دوسرے کمرے میں بیٹھ گیا۔ آنکھوں سے آنسوئوں جیسے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ حالانکہ پچھلے 2دن سے کئی بار میری آنکھوں سے آنسوئوں گرے تھے۔ مگر اس بار یہ آنسوں خوشی کے تھے۔ پھر سے جیسے ایک دم سے سارے لوگ میری نظروں کے سامنے آگئے۔ خاص کر میرا دوست، میری ماں، میرے بچے۔ بس پھر کیا تھا ۔ کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اُٹھا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ بچے نے دو دن پہلے جو بات بولی تھی چاکلیٹ اور آئس کریم ،یاد آئی تو بہت ساری چاکلیٹ اور آئس کریم راستے میں لے لی اور گھر کی اور بڑھتا رہا۔ اب جب پچھلے دو دن کا عذاب یاد آرہا تھا تو بار بار جیسے آنکھیں نم ہورہی تھیں۔ اور بار بار پھر اللہ کا شکر ادا کرتا رہا۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں