آخری تمنا 67

آخری تمنا

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001

بیٹے خالد میری صحت دن بدن گرتی جارہی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پوتے عثمان کی شادی دیکھ کر ہی اس دنیا سے کوچ کروں۔
ابا۔ یہ صبح صبح کیا کہہ رہے ہیں۔ اللہ آپ کو لمبی عمردے۔ اور ابھی ماشاء اللہ آپ کی صحت آپ کے ساتھیوں کے مقابل بہت اچھی ہے ۔ آپ یہ خیال اپنے دماغ میں ہرگز نہ لائیں اورناامیدی کفر ہے۔ آپ ہی نے ہمیںبتایا ہے۔
نہیں بیٹا ۔ میری بات مانو اور جلدی سے کوئی اچھے خاندان کی لڑکی ڈھونڈ نکالو اور جلدی سے شادی کرو ۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔
ابا ۔ لڑکی ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ آج کل زمانہ بہت مغربیت کی طرف چلا گیا ہے۔ عریانیت اور فیشن تمام حدیں پار کرگیا ہے۔ اور ہمارے گھر میں فیشن زدہ لڑکی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
ہمیں سیدھی سادی نیک دیندار لڑکی چاہئے جس کو ڈھونڈکر نکالنا بڑا آسان کام نہیں ہے۔
اور پھر عثمان آگے بھی پڑھنا چاہ رہا ہے۔
اب اور کیا پڑھنے کی ضرورت ہے اچھی خاصی نوکری مل گئی ہے۔معقول تنخواہ بھی مل رہی ہے۔ عزت اور وقار بھی اتنی چھوٹی عمر میں مل گیا ہے ۔ اب اور پڑھائی کو لیکر کیا کرنا ہے ۔
ابا نے بہت دلائل کے ساتھ بتایا ۔ اب صرف اللہ کا شکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا آسان طریقہ ہے نماز کی باقاعدگی سے ادائیگی۔
لڑکی ڈھونڈو۔ اللہ بھی ہماری مدد کرے گا ۔ تلاش کرنے سے کیا نہیں ملتا ۔ ابا نے پھر کہا
نہیں ابا ۔ یہ بہت مشکل کام ہے ۔ یہ کوئی ترکاری یا ڈبل روٹی یا پیزا لانانہیں ہے ۔موزوں لڑکی ملنا بڑا کٹھن کام ہے۔
بغیر رنگ روغن اوربا پردہ لڑکی ملنا بہت مشکل ہے۔اورعثمان ابھی شادی کے لئے بالکل تیار نہیں ہے۔
اس کو میں تیار کروں گا ۔
یہ بات میرے اوپر چھوڑو۔ وہ میری بات نہیں ٹالے گا ۔ ابا نے یقین کے ساتھ کہا۔
جب ابا بضد ہوئے تو میں اب اس کام کے لئے سیریس ہوا ۔
پرلے گاؤں میں ایک سادہ سا خاندان تھا۔ ان کی ایک ہی لڑکی تھی اریبہ نام تھا ۔پڑھی لکھی، خوبصورت ، صوم وصلوۃ کی پابند تھی ان سے میں نے خود جاکر سیدھے طورپر بات چھیڑی۔وہ بہت حیران پریشان ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔
ان کویقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے۔
بولے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں
جناب ہمارا اور آپ کا میل نہیں ہے ۔ ہم غریب ہیں اورآپ شہر کے امیراور متمول لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اور ہماری بیٹی صرف بی اے پڑھی ہے ۔ گاؤں میں پڑھی بڑی ہے ۔ شہر کے طورطریقوں سے بالکل ناواقف ہے۔
ریشم میں ادنی پیوند نہیں لگایا جاسکتا ۔ لڑکی کے والدنے کہا۔
ہم نے بہت اصرار کیا ۔ابا کی ضد کا بھی ذکرکیا۔
بڑی مشکل سے وہ لوگ مان گئے ۔ لڑکی بھی بڑی بے دلی سے راضی ہوگئی ۔ باپ کے آگے کچھ نہ بول سکی۔ شرم سے سر جھکا کر ہاں کردی۔
ہمارے خاندان کے ایک بزرگ نے ایک باربہت پہلے کہا تھا کہ لڑکا لڑکی کا شادی سے پہلے ایک بار ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ بات چیت کرنا ایک دوسرے کو سمجھ لیناضروری ہے۔ پھر شادی کے لئے قدم آگے بڑھانا چاہئے۔ اس کی دین میںاجازت ہے۔
……خیر شادی ہوگئی
دونوں نے باہمی مفاہمت سے ایک بات طے کی کہ چونکہ یہ تقریباً مجبوری کی شادی ہے جو صرف دادا جی کی خوش نودی کے لئے کی گئی ہے ۔ اس لئے ہم اپنی ازدواجی زندگی کو التوا میں رکھیں گے۔ یعنی Suspended Animation
صرف گھروالوں کو دکھانے کے لئے ہم شادی شددہ رہیں گے اور خوش رہنے کی اداکاری کریں گے۔
ایسا کرنے کے بعد اب دادا جی دن بدن خوش نظر آنے لگے ۔ ان کی بھوک کھل گئی سکون کی نیند آنے لگی۔ اپنے یار دوستوں سے ملنے لگے ۔روز کپڑے بدل کر سیر کو بھی نکلنے لگے ۔
کھانے کے ٹیبل پر سب سے پہلے باقاعدگی سے آنے لگے ۔ ہر وقت چہکتے رہتے ۔
پوتے اوربہو سے بہت پیارکرتے۔ ہر وقت ان سے بات چیت کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے۔
وقت کے ساتھ ساتھ عثمان اور اریبہ میں محبت کا چراغ آہستہ آہستہ جلنے لگا ۔
کچھ عرصہ بعد دونوں میں باہمی مفاہمت ہوگئی ۔
تو ایک دن انہوں نے فیصلہ کرکے یہ شرط توڑ دی اور صحیح شادی شدہ زندگی کا آغاز کیا ۔ شادی کی ایکٹنگ کے بدلے اب اصلی شادی میں مست رہنے لگے۔
ایک دن خلاف معمول کافی انتظار کے بعد جب دادا جی ناشتہ کے لئے ٹیبل پرنہ آئے تو خالد ان کو بلانے چلا گیا ۔
ابّا ابھی بستر میں ہی تھے ۔ بہت آوازیں دیں مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ان کی نبض دیکھی جو غائب تھی ۔ جسم کو ہلایا تو ان کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی۔ چہرے کارنگ پھیکا زرد پڑ گیا تھا۔
ان کی روح قفس عنصری سے کب کی پرواز کرچکی تھی۔
خالدکے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی۔ صرف اتنا بول سکے۔ آپ کس کا انتظار کررہے ہو ۔ ابا تو ہمیں چھوڑ کرچلے گئے ہیں۔
ہاں۔ان کے ہاتھ میں کاغذ کا پرزہ تھا جس پر لکھا تھا ۔خالد تم نے میری یہ آخری تمنا بھی پوری کردی ۔ اللہ تجھے صحت ، عزت ، برکت ، شہرت اورایمان دے۔ میں تجھ سے بہت خوش ہوں۔ اللہ حافظ۔ الوداع میرے بیٹے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں