پونچھ کا اڑائی گاؤں 124

پونچھ کا اڑائی گاؤں

جہاں مقامی لوگ ایک پراسرار اور غیر معمولی جینیاتی بیماری سے جوجھ رہے ہیں

ڈاکٹرمسعود احمد
گراؤنڈ رپورٹ: گاؤں اڑائی، تحصیل منڈی، ضلع پونچھ ، جموں و کشمیر

 

جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں اڑائی نامی گاؤں ضلع ہیڈکوارٹر سے کم و بیش 30 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ دس ہزار نفوس پر مشتمل اس گاؤں کو ایک ایسی پراسرار اور غیر معمولی جینیاتی بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس نے یہاں اب تک قریب ایک سو افراد کو معذور بنا دیا ہے۔ یہ بیماری بچپن ہی میں جوڑوں کے درد اور سوجن سے شروع ہوتی ہے۔
پچاس سالہ مولوی محمد فرید ملک چار سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوئے لیکن انہوں نے اپنا حوصلہ برقرار رکھا۔ وہ ایک سماجی کارکن ہیں۔ پیر پنجال عوامی ڈیولپمنٹ فورم کے نام سے ایک آرگنائزیشن بھی چلاتے ہیں۔ انڈین آرمی سے تال میل رکھ کر آپریشن سدبھاونا کے تحت اپنے گاؤں کے دیگر جسمانی طور پر معذور افراد اور عام لوگوں کی بہت مدد کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں جسم سے معذور ہوں زبان سے نہیں۔ اس لئے میں ہر ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا رہتا ہوں۔‘
محمد فرید ملک سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور بالی وڈ کے معروف اداکار امیتابھ بچن سے ملاقات کر چکے ہیں۔ اڑائی جیسے پسماندہ گاؤں میں ایئرٹل کا ٹاور اور سیاحتی مقام جبی توتی کا بیس پوائنٹ فرید ملک کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بیماری چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ آٹھ سال کی عمر میں یہ بچے کو پچاس فی صد معذور بنا دیتی ہے۔
محمد اکبر نامی شخص، جن کی عمر تقریباً 70 سال ہے، نے بتایا کہ ’میرے والدین، دادا، دادی، نانا، نانی سب جسمانی اعتبار سے صحیح سلامت تھے۔ میرے گھر میں اس بیماری کی شروعات بڑی بیٹی شمیمہ اختر سے ہوئی جس کی عمر آج 38 سال ہے۔‘
شمیمہ اختر محمد اکبر کے خاندان کی پہلی متاثرہ ہیں۔ شمیمہ اختر کی دو خالہ اور ایک ماموں اس بیماری سے جوجھ رہے ہیں۔ بڑی خالہ حمیدہ بی چند سال قبل تقریباً 28 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ دوسری خالہ شریفہ بی کی عمر اس وقت 57 سال ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر ہی اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔
شمیمہ اختر کے ماموں عبدالرزاق، جن کی عمر 42 سال ہے، بھی اس بیماری کا شکار ہیں۔ حمیدہ بی، شریفہ بی اور عبدالرزاق منیر حسین کی اولاد ہیں۔ منیر حسین اور ان کی اہلیہ عمر کے آخری پڑاؤ میں ہیں۔ البتہ وہ دونوں تندرست ہیں۔
شمیمہ اختر کے علاوہ محمد اکبر کو کل سات بچے ہیں۔ جن میں پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں شامل ہیں۔ بڑا لڑکا عبیداللہ خود سلامت ہے، البتہ ان کی نو سال کی بچی میمونہ کوثر کو اس بیماری نے اپنے شکنجہ میںلے لیا ہے۔ یہ بچی گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول کیراں اڑائی میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم ہے۔
عبیداللہ کے مطابق ان دنوں یہ بچی ڈھوک (سیمی نومیڈ لوگ چھ ماہ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ جنگلوں میں ہجرت کر جاتے ہیں۔ اسے ڈھوک بولا جاتا ہے) میں ہے۔ وہاں پر سیزنل اسکول میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میمونہ کوثر حد درجہ ذہین اور قابل بچی ہے۔ اپنی جماعت میں دوسرے بچوں سے اس کی کارکردگی بہتر ہے۔
عبیداللہ کا کہنا ہے کہ چار سال کی عمر سے میمونہ کوثر اس بیماری کا شکار ہے۔ بیماری کے ابتدائی مراحل میں اس کے جسم کے جوڑ درد کرنے لگے تھے۔ ہڈیاں بڑی ہونا شروع ہوئیں اور جسم پر موجود گوشت سکڑنے لگا تھا۔ آج وہ بچی مشکل سے اسکول تک جاتی ہے۔
’بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں متاثر بچے یا بچی کو اٹھنے، بیٹھنے، چلنے یا قضائے حاجت کے لئے دوسرے آدمی کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا میمونہ کوثر کو اسکول میں کسی قسم کے تعصباتی رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ پر انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ انہیں جسمانی طور پر ناخیز ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے تعلیمی یا سماجی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ علاج و معالجہ کے طور پر بچی کو یونانی ادویات دی جا رہی ہیں۔ ابھی تک اس بیماری کے لئے کوئی ایلوپیتھک دوائی تجویز نہیں کی ہے۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ اس بیماری سے متاثرہ بچوں کوسب سے زیادہ پریشانی اسکول آنے جانے میں ہوتی ہے۔ چوں کہ ان کے گھر اور اسکول دونوں سڑک سے دور ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں خود سے چل کر یا پھر کوئی وارث کندھے پر اٹھا کر اسکول لے جاتا اور واپس لاتا ہے۔
محمد اکبر کا ایک لڑکا شکیل احمد ہے۔ ان کی عمر 32 سال ہے۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند (اترپردیش) سے عالمیت کا کورس مکمل کیا ہے۔ یہ 2009 میں فارغ ہوئے ہیں۔ مروجہ تعلیم آٹھویں جماعت تک حاصل کی ہے۔
محمد اکبر کے مطابق شکیل احمد کو دارالعلوم تک اٹھا کے لے جایا جاتا تھا۔ ایک اور متاثرہ لڑکی زائیدہ کوثر ہیں ۔ان کی عمر 24 سال ہے۔ یہ اس وقت گورنمنٹ ڈگری کالج منڈی میں بی اے سال آخرمیں زیر تعلیم ہیں۔ انہیں روزانہ چھ کلومیٹر آنا جانا پڑتا ہے۔ ان کے لئے سواری کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ متعلقہ پیسنجرز ڈرائیور انہیں اس وجہ سے کم بٹھاتے ہیں کہ ان کا کرایہ آدھا ہوتا ہے۔
ایک لڑکا محمد طیب عمر 22 سال بھی اس بیماری کا شکار ہے۔ وہ اسی کالج میں زیر تعلیم ہے۔ اسے بھی ان ساری مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے جن کا ذکر زائیدہ کے تعلق سے ہوا۔ رابیہ کوثر سب سے چھوٹی بچی ہے۔ اس کی عمر 18 سال ہے۔ وہ گورنمنٹ ہائر سکینڈری اسکول اڑائی میں بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔
محمد اکبر کے مطابق ان معذور بچوں کو سرکار کی جانب سے ماہانہ 1000روپے ملتے ہیں۔ ان پیسوں سے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ باوجود بچوں کی جسمانی ناخیزی کے ان کی داخلہ اور ٹیوشن فیس مشکل سے ایک دو مرتبہ معاف ہوئی ہے۔ باقی ان کی مکمل فیس مسلسل ادا کرنا پڑتی ہے۔
محمد اکبر مزدور پیشہ شخص ہیں۔ ان کی اہلیہ مصرہ بیگم ہاؤس وائف ہیں۔ وہ مال مویشیوں کو پال کر اپنے گھر کے اخراجات اٹھاتی ہیں۔ ان دنوں میں گاؤں سے تقریباً بیس کلومیٹر دور ڈھوک میں مقیم ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان معذورین کو سرکار کی جانب سے کوئی طبی علاج فراہم کیا گیا؟ پر محمد اکبر نے کہا کہ میرے ایک دوست ڈاکٹر ہیں۔ وہ ضلع ریاسی کے علاقہ کٹرہ (شری ماتا ویشنودیوی مندریہیں ہے) سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ محکمہ صحت اس طرح کے معذورین کے علاج کے لئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں محکمے نے آپ کے خاندان کو منتخب کیا ہے۔ ان کے اصرار پر محمد اکبر نے اپنے بچوں کے گورنمینٹ میڈیکل کالج بخشی نگر جموں میں منتقل کیا۔ ان بچوں کی دیکھ بال کے لئے دس ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم آئی۔ انہوں نے تمام طرح کے سیمپل اکٹھے کئے۔ لیکن تاحال کوئی تشفی بخش نتیجہ نہیں نکلا۔
محمد اکبر کا کہنا ہے کہ بچوں کو جموں لے جاتے اور واپس لاتے وقت بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ ان بچوں کا گھر سے باہر رہنا، باہر کھانا نہ کھا پانا اور قضائے حاجت جیسی ضروریات وہاں پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ضلع پونچھ کے ضلع ترقیاتی کمشنر اجیت کمار ساہو کے دور میں شکیل احمد کو دوبارہ جموں میڈیکل کالج میں لے جایا گیا۔ وہاں اسے تقریباً ایک ماہ تک رکھا گیا۔ اس کے سارے ٹیسٹس ہوئے۔ لیکن ان سے بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
محمد اکبر خود پچھلے پندرہ سالوں سے دل کے مریض ہیں۔ گیسٹرو بھی ان کی ایک پرابلم ہے۔ اب وہ مزدوری کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھانے سے بھی قاصر ہوں۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر سرکار میرے تین معذور بچوں زائیدہ کوثر، محمد طیب اور رابیہ کو سرکاری نوکری دے دیتی ہے تو ہمارا وقت خوشحالی سے گزر سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی گزارش کی کہ جسمانی طور ناخیز بچوں کو عام بچوں کے معیار پر نہ پرکھا جائے۔ انہیں کچھ رعایت ملنی چاہیے۔
مقامی لوگوں کے مطابق ان افراد کے معذور ہونے کی متعدد وجوہات ہیں۔ ابتدا میں یہ کہا جاتا تھا کہ انہیں کسی پیر فقیر کی بد دعا لگی ہے۔ لیکن جب لوگ تعلیمی اعتبار سے بیدار ہوئے تو یہ مفروضہ اپنی اہمیت کھو گیا۔
اب دو بیماریوں کو اس کی وجہ بتایا جا رہا ہے۔ ایک پولیو اور دوسری گٹھیا۔ ان دونوں بیماریوں کی وجہ سے یہ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک وجہ اس کی جینیاتی اثر بھی بتائی جاتی ہے۔ یعنی قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے سے جینس منتقل ہوتے ہیں۔ وہی بعد میں اس بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔ حالاں کہ یہ جواز ابھی تک اپنی حقیقت منوا نہیں سکا ہے۔
اس بیماری کے تعلق سے حکومت نے متعدد بار ٹھوس اقدام اٹھانے کی پہل کی۔ یہاں تک کہ سال 2016 اور 2017 میں دہلی سے ماہر ڈاکٹروں نے متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے ان معذورین کے سمپل لئے۔ کچھ ضروری ادوایات بھی تجویز کیں۔
محمد فرید ملک کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی اس کوشش کے بعد بیماری پر روک لگ گئی۔ یعنی اب کوئی نیا بچہ اس بیماری کا شکار نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن پہلے سے متاثر افراد کو ہم تاحال کوئی تشفی بخش علاج مہیا نہیں کروا پائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت میں اس وقت کے کمشنر سکریٹری سجاد احمد خان نے ان معذورین کے لئے اسکوٹی اور ویل چیئر مہیا کروائی تھیں۔ بدقسمتی سے وہ اسکوٹیاں اور ویل چیئر مستحقین تک نہیں پہنچیں۔ انہیں اس وقت کے ایم ایل اے اور ایم ایل سیز نے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا۔ حکومت نے ان معذورین کوماہانہ ایک ہزار روپے پنشن بھی دی ہے۔ لیکن مہنگائی کے اس دور میں اس پنشن سے وہ اپنا خرچہ نہیں چلا پاتے۔
اس نامہ نگار نے جب اس سلسلے میں متعلقہ بلاک میڈیکل آفیسر ڈاکٹر نصرت بٹھی سے بات کی تو انہوں نے اسے جینیاتی بیماری قرار دیا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ محکمہ صحت نے مذکورہ معذورین کے لئے کیا کیا اقدامات اٹھائے پر موصوفہ نے کہا کہ ہم ہر اتوار کو انہیں ضلع ہسپتال پونچھ سے ڈس ایبیلٹی اسرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ ہم ہر سال متعلقہ گاؤں میں3 سے 4 مفت میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں۔ ان کیمپوں کے ذریعے ہم متاثرین کو فری ڈرگ پالیسی کے تحت مفت ادویات فراہم کرتے ہیں۔ تاہم یہ دوائیاں متاثرین کو صرف ہڈیوں اور جوڑوں کے درد سے کچھ دیر کے لئے راحت دیتی ہیں۔موصوفہ نے مزید کہا کہ اس جینیاتی بیماری سے جوجھ رہے افراد کے گولڈن کارڈ ہم نے گھر گھر جا کر بنائے۔
ڈاکٹر ریاض جان اسپیشلسٹ ان کمیونٹی میڈیسن کی سربراہی میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گاؤں اڑائی کا دو مرتبہ دورہ کیا۔ ڈاکٹر موصوف کا کہنا ہے کہ ہماری اسٹڈی ابھی جاری ہے تاہم ابتدائی مراحل میں ہمیں یہ جینیاتی بیماری معلوم ہوئی ہے۔ ہم نے متاثرین کو قریبی رشتہ داروں میں شادیاں نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ یہ بیماری کتنی پرانی ہے پر موصوف نے کہا کہ یہ 60 یا 70 سال پرانی بیماری ہے۔ البتہ متعلقہ انتظامیہ اور محکمہ صحت کی توجہ کا مرکز گذشتہ 20 سال سے بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیماری کی اصل حقیقت اور وجہ معلوم کرنے کے لئے مختلف پیمانوں پر کام جاری ہے۔
�����
ڈاکٹر مسعود احمد ایک فری لانس صحافی ہیں۔ انہوں نے یہ رپورٹ این ایف آئی کی آزاد صحافیوں کے لیے فیلوشپ پروگرام کے تحت تیار کی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں