کھیل 106

کھیل

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی ملہ باغ
سرینگر ۔کشمیر

گرمیوں کے دن تھے ۔سہ پہرکی دھوپ جھلسادینے والی تھی ۔سڑک پر زیادہ بھیڑ نہ تھی۔تینوںدوست ساتھ ساتھ چل رہے تھیــــــ ۔ایک دُکان کے سامنے گزرتے ہوئے سرخ ٹائی پہنے نوجوان نے ساتھی سے کہا۔’’ اٹھاو اِسے ۔۔۔‘‘
ساتھی نے تعمیل کی۔اُن کا تیسرا ہم عمر دوست لا تعلق سا سگریٹ سلگانے میں محو تھا ۔
’’ چلو ‘‘سرخ ٹائی لگائے نوجوان نے کہا۔
تینوں نکل پڑے۔کچھ دیربعد وہ شہر کے ایک کم آباد علاقے میں پہنچے۔ پھر ایک مکان کے وسیع مُنَّقَش کمرے میں داخل ہوگئے ۔سرخ ٹائی لگائے خوش پوش نوجوا ن نے صوفہ سیٹ پربیٹھکر ایک اطمینان بھرا سانس لیا۔ دوسرے نے سامنے پڑی میز پر رنگ دارگول مرتبان رکھ دیا ۔
سگریٹ کی راکھ جھاڑ تے ہوئے تیسرے نے زرا چونکتے ہوئے کہا ۔
’’ ارے واہ ۔سنہری ہے ‘‘
سنہری مچھلی شیشے کی دیوار سے بار بار ٹکرا رہی تھی ۔ ۔قلیل پانی بھرے مرتبان میں ادھر اُدھر ڈول رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
تینوں کی نظریں بڑے انہماک سے مرتبان پر لگی ہوئی تھیں۔ مرتبان کے اندرمچھلی مچلتی
اچھلتی سی نظر آ رہی تھی ۔کسی کے فون پر [ the earth] کا میوزک ٹریک on تھاکچھ دیر بعد سگریٹ کے رسیا نوجوان نے کہا
’’ یار۔کب تک دیکھتے رہیں یہ ناچ۔۔۔۔‘‘
’’ ناچ۔۔۔۔۔ ‘‘ٹائی پہنے جوان نے آنکھیں جھپک لیں ۔ایک معنی میں تو یہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہے ۔تڑپنا اور ناچنا تو ایک ہی سا لگتا ہے ۔وہ مسکرا دیا ۔
’’ یار ریاض ۔تم کیوں چپ سے ہو گئے۔کچھ تو بولو نا ۔۔۔‘‘
’’ کبھی کبھی خاموشی زیادہ لطف دیتی ہے ۔‘‘ریاض نے فلسفیانہ سرگوشی کی۔
’’ مطلب ۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
’’ مطلب۔۔۔یہ کہ نواب ۔۔۔۔‘‘ دروازے کی رنگ اچانک بج اٹھی ۔ریاض کچھ کہتے ہوئے رک گیا۔دوسرے ہی لمحے خوبصورت داڑھی بنائے اُنکا دوست محمودمسکراتا ہوا داخل ہو گیا۔قریب آکر پوچھا ۔
’’ آج کیا فنڈا چل رہاہے ۔کیا ہورہا ہے دوستو۔‘‘
’’ ناچ دیکھ رہے ہیں بھائی ‘‘ نواب بولا ۔
’’ ناچ۔۔۔۔۔۔‘‘ اسکی نظریں مر تبان کے اندر تڑپتی ہوئی مچھلی پر ٹھہر گئیں ۔کچھ دیر تک وہ اُسے دیکھتا رہا ۔پھر دوستوں پر ایک گہری نظر ڈال کر درد سے بھاری آواز میں کہا۔
’’ یار۔۔۔۔۔یہ بیچاری تومر رہی ہے ۔تم نہیں دیکھ رہے ہو اس کا تڑپنا۔۔۔ ۔ظالمو۔۔۔ یہ کھیل کس نے رچایا ۔‘‘
’’ جج صاحب ۔۔۔۔‘‘ ٹائی والے نو جوان یعنی نواب نے خاصی اداکاری کے ساتھ جواب دیا۔
’’ بلکہ مجھے کہنا چاہئے۔۔۔۔مولوی صاحب ۔۔۔وہ گنہگار میں ہوں ۔‘‘
’’ تم۔۔۔‘‘ محمود نے تیز نظروں سے اسے گھورا ۔’’یار نواب ۔میری ایک بات مان لو ۔قید مچھلیوں کے یہ مرتبانی کھیل کھیلنا چھوڑ دو ‘‘
نواب نے مسکراکر نفی میں گردن ہلادی۔دوسرے دوست نے نیا سگریٹ سلگادیا ۔ریاض نے خاموشی توڑ دی ۔
’’ ایسا مت بولو محمود ۔۔۔غور کرو ۔ سوچو تم بھی۔۔۔یہ منظر کیا ہے ۔کیا ہے یہ تماشا۔۔۔آخر یہ کہانی کیاہے ۔‘‘
’’ کہانی۔۔۔۔۔۔۔! ‘‘سبھی دوست ایک ساتھ چونک پڑے ۔
’’ کہانی ہی تو ہے۔۔ کوئی گہری۔یونہی کچھ بھی نہیں ۔۔۔جو کچھ ہے وہ معنی کے ساتھ ہے۔‘‘
’’ یار ریاض ۔۔’’ اکرم نے ایشٹرے میں سگریٹ بجھا کر کہا ۔’’ ایک بات کہوں۔جب تک تم شاعر تھے۔ٹھیک تھے ۔کبھی کبھی ہنسابھی دیتے تھے لیکن جب سے فلسفیانہ ہو گئے ۔تب سے معاف کرنا۔بلکل بور۔۔۔‘‘
’’ کیا ۔۔۔۔۔۔‘‘ ریاض کی بھویںتن گئیں۔جانے غصے میں وہ کیا کہنے والا تھا کہ نواب نے اونچی آواز لگائی۔’’ارے۔۔۔کوئی لڑائی جھگڑا نہیںکرنا یہاں۔‘‘
’’ میرا توایسا کوئی ارادہ بھی نہیں۔‘‘ ریاض نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ دوستو۔۔۔ہم موضوع سے بھٹک رہے ہیں ۔‘‘نواب نے اکتاہٹ ظاہر کی ۔
’’ موضوع کیا ہے ؟ ‘‘
ریاض بولا۔
’’ مچھلی۔۔۔ہم۔۔۔ہمارے احساسات۔۔۔سوچیں۔۔۔‘‘
نواب نے جھلاکر کہا۔
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔‘‘
ریاض کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔کچھ دیر بعد بولا
’’مچھلی کو اسی حال میں رہنے دو۔اور خاموشی سے دیکھتے جاو کہ آگے یہ کہانی کونسا موڑ لے آئےگی ۔‘‘
’’ یعنی تم دیکھنا چاہتے ہو۔۔۔ ۔‘‘محمود نے تیز نظروں سے گھور کر کہا۔’’ اِسکی تڑپتی ہوئی موت‘‘’’ ہاں۔ایک تجربہ ہوگایار۔‘‘
’’ریاض۔۔۔۔۔‘‘ محموداچانک چیخ سا پڑا ۔’’ تم اپنی یہ بکواس بند کرو ۔۔۔پلیز۔سامنے دیکھو‘‘۔
وہ گہرے طنز کے ساتھ بولا ۔’’ناچ دیکھو ناچ ۔‘‘
مچھلی مرتبان میں زور و شور سے اچھل رہی تھی۔بار بار شیشے کی دیوار سے اپنا جسم ٹکرارہی تھی۔اسکے منہ سے عجیب سی آواز نکل رہی تھی ۔محمود نے مرتبان سے نظریں ہٹاکر نواب کی طرف دیکھا۔نظریں چار ہوئیں تو بولا۔
’’ یار نواب بند کرو یہ کھیل اب۔۔۔۔‘‘
’’ کیوں۔‘‘
’’ اچھا نہیں لگتا مجھے ‘‘
’’ لیکن ہمیں تو اچھا لگتا ہے۔۔۔کیوں دوستو۔‘‘
اکرم اور ریاض نے اقرار میںسر ہلادیا۔محمود کو شرمندگی سی محسوس ہوئی ۔اپنی جگہ سے اُٹھ کے وہ غصے سے بھرا ہوا باہر نکلنے ہی والا تھا کہ مچھلی اچھل کے مرتبان سے باہر آکر فرش پر تڑپنے لگی۔
کچھ دیر بعدوہ اچانک بے دم ہوئیٖ ۔اُس کے سر پر خون کے بھاری دھبے تھے ۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں