ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
صِدیق نے ڈپلومہ اِنجینیرنگ پاس کی تھی بڑی مشکِل سے گھر کا گزارہ چلاتا تھاصحیح خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اکثر چھوٹی چھوٹی بیماریوں میں مّبتلا رہتا تھا کم عمر ہونے کے باوجود بوڑھا نظر آتا تھا- باتوں میں چڑ چڑا پن تھا اس کی اس عادت اور اِنکی غیر اِسلامی عقائد سے اسماعیل کو بڑا دّکھ ہوتا تھا – اسماعیل صدیق کا گہرا دوست تھا۔اسماعیل صوم و صلوٰۃ کا پابند،ایمان حرارت والا شخص تھا۔اسماعیل کو اس شخص سے غصہ آتا تھا جو نماز میں کوتاہی کرتا تھا۔اسماعیل اکثر کہا کرتے تھے کہ اللہ پاک نے مخلوق کو صرف اور صرف اس مقصد کے لئے تخلیق کیا تا کہ وہ اس رب کی عبادت کریں،خاص کر پابند صوم و صلوٰۃ ہر مسلمان کا ہونا ضروری ہے۔اسماعیل کو صدیق کے حقوق اللہ میں سستی اور کاہلی ہمیشہ پریشان کرتی تھی اور اسے لگ رہا تھا کہ کہیں صدیق کی کوتاہی کے نتیجے میں اللہ کا عذاب نہ آئے اور وہ بھی زد میں آئے ۔
صدیق اسماعیل کی لگاتار نصیحتوں کے باوجود وہ اپنے اِرادےمیں پکا نظر آتا تھا- کبھی کبھی ایسی ناشائستہ اور غیر اِخلاقی باتیں کرتا تھا اور احادیث ، ولیّ اللہ کی ہنسی اّڑاتا تھا جس پر اسماعیل کو اس سے تعلّق توڑنے کو جی کرتا تھا – لیکن اسماعیل کا اندر ہی اندر کافی ہمدردی تھی جس سے وہ صدیق کا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔۔۔۔ اللہ اور اسکے رسول (ص) کی خوشنودی کےلئے صدیق کولگاتار نصیحت کرتا رہتا تھا –
“کیا کروں اب یہ صدیق اللہ کی نافرمانی کرنے لگ گیا ہے کہ کسی کی نہیں سنتا کوئی ترکیب کرنی ہے جس سے صدیق کا دل اللہ کی طرف مائل ہو سکے۔”
اسماعیل دل ہی دل میں سوچنے لگا۔
اگلے دن اسماعیل کی کمپنی نے کچھ آسامیاں بھرتی کرنے کا فیصلہ لیا۔
اسماعیل نے سوچا یہی بہتر موقعہ ہے کہ صدیق کو سدھارنے کا۔
صدیق پڑھا لکھا تھا لیکن بے روزگار تھا ہر گھر بھٹکتے پھرتا رہتا تھا۔
ہماری کمپنی میں کچھ اسامیاں پّر کی جانے والی ہیں -اسماعیل نے صدیق سے کہا۔۔
اسامیاں پر کرنی ہے۔صدیق نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔
زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ۔اسماعیل نے کہا۔۔
صدیق کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
اس کا مطلب میں نہیں ۔۔۔۔۔صدیق نے آدھی بات کہی۔
مالِک کااصول ہے وہ کمپنی میں نیک , خوش اِخلاق ،پابند صوم و صلوٰۃ افراد کو ہی نوکری پہ لگانے کی شرط رکھی ہےاور ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے عقیدے کا پاسدار ہونا چاہئے – کوئی نشہ سگریٹ کا عادی نہ ہو خوش خلق پابند وقت ہو وغیرہ وغیرہ۔
ٹھیک ہے اسماعیل بھائی – میں یہ بھی کرکے دیکھتا ہوں – اسماعیل نے زور دیتے ہوئے کہا
کیا قرآن وحدیث اور نبیؐکی سنت کو اپنانے سے پہلے کسوٹی پر پرکھنا پڑے گا – صدیق نے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔
صدیق نے کچھ سوچنا شروع کیا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ سنانے والا ہے ۔
کیا سوچ رہے ہو بھائی ۔اسماعیل نے ہمدردانہ لہجے میں کہا ۔
کل سے میں نماز پڑھنا شروں کروں گا – صدیق نے کہا۔
کل سے کیوں – آج اور ابھی سے کیوں نہیں ؟ اسماعیل نے زور دے کر کہا۔
ٹھیک ہے آج سے ہی – اسماعیل نے اعتماد کا اظہار کیا۔
سب سے پہلے مجھے وضو کے بارے میں بتایا جائے۔
اسماعیل بہت خوش ہوا اسے لگا کہ شاید اب صدیق راہ راست پر آگیا ہے۔
اسماعیل نے صدیق کو وضو کے فرائض و سنت پر تفصیلی جانکاری دی اور نماز کے فرائض و واجبات و اقامت کے بارے میں جانکاری دی۔
اب صِدیق نے جھوٹ موٹ کی نماز پڑھنے کا اردادہ کر لیا اور کمپنی میں اپنی جگہ بنانے کی ٹھان لی۔
دو روز گزر گئے ۔
صدیق اسماعیل کے گھر جاتا ہے اور اسماعیل کو یقین دلایا کہ وہ ہر اقامت صلوٰۃ کا پابند ہوگیا اور وہ میرے روزگار کے لیے اپنی کمپنی میں درخواست داخل کرے۔
جب مجھے یقین آئے گا کہ تم نے باقائدگی سے نمازیں شروع کیے ہیں میں پھر مالک سے تمہاری نوکری کی سفارِش کروں گا۔ خیال رہے – میں مالک کو کبھی جھوٹ نہیں کہوں گا۔ اسماعیل نے صدیق کو یقین دلایا ۔
مالک میری بات کبھی نہیں ٹالیں گے۔ اسماعیل نے کہا ۔
نہیں ! نہیں ! نہیں !
میں روزانہ نمازیں اداء کروں گا۔ صدیق نے اعتماد کے لہجے میں کہا۔ بس آپ مجھے اپنے مالِک سے میری نوکری کی سفارِش کرلے-
دیکھو جب سے تم نے نمازیں شروع کی ہیں بکواس بند کی ہے مجھے بتاؤ تم کو کیا نقصان ہوا ہے ؟ اسماعیل نے کہا۔
اسماعیل نے کچھ روز گزرنے کے باوجود احساس کی کرن صدیق میں دیکھی اور اسے لگا کہ اب صدیق کے لب و لہجہ میں بہت تبدیلیاں دیکھی ۔
اگلے روز ۔۔مالک نے اسماعیل کے کہنے پر صدیق کو ملازم رکھ لِیا اب صدیق اپنی نوکری کو بچانے کے خاطر صاف ستھرا رہنے لگا وقت پر کام پر آرہا ہے اور بغیر کسی روکاوٹ کے وقت پر گھر واپسی کر رہا ہے۔اپنے کام سے کام رکھنا معمول بنایا۔اسماعیل اپنے جگری دوست کے اس معمول سے کافی خوش ہوا ۔
فیکٹری کے باقی ملازموں کو دیکھ کر صدیق نے اپنے میں تبدیلی محسوس کی۔ ایک دن جب وہ فیکٹری سے گھر آیا اور کچھ اپنے اندر ہلچل محسوس کی۔
صدیق نے سوچا کہ میں نے زندگی میں نوکری کی تلاش میں کہاں سے کہاں تک بھٹکتا پھرا۔گھر گھر ٹھوکریں کھائی،لیکن کام نہیں ملا۔
ضرور اسماعیل کی باتوں پہ یقین آیا جب وہ مجھ سے کہہ رہا تھا اللہ پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ جب بندہ اللہ کی طرف ایک قدم آتا ہے اللہ پاک سو قدم آتا ہے تا کہ اپنے بندے کی پکار کو سنے۔
میں تو عاصی گنہگار بندہ تھا۔۔۔سرکش تھا۔۔۔ حقوق اللہ سے منہ موڑنے والے انسان کے ساتھ کیسے انصاف ہو سکتا ہے ۔۔
جب سے اللہ کی بارگاہ سے دل لگانا چاہا تب سے روحانی سکون کے ساتھ ایک الگ قسم کا اطمینان پیدا ہوا ۔
آج میرے پاس نوکری کے ساتھ ہی ساتھ گھر کے ڈانٹ ڈپٹ سے آزاد ہوا۔۔بے شک اس نظام کائنات میں ایک اللہ ہے جو بندے کو مشکلوں سے نکالتا ہے اور مشکلوں میں بھی ڈالتا ہے ۔
صدیق اب بالکل بدل گیا ہے اس کے اندر معرفت الہیٰ کا اثر ہونے لگا۔۔اور وہ بالکل مطمئن نظر آتا ہے۔
اب دو مہینے گزر گئے صدیق کو مالک کمپنی نے اس کی محنت اور خدا ترسی دیکھ کر ان کی ہر کام کو سراہنا شروع کیا۔
صِدیق اب پابند صلوٰۃ کیا باقاعدہ تہجد کا بھی اہتمام کرنے لگا۔
اب اس نے اسماعیل سے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا اور باقاعدہ تلاوت قرآن کرنے لگا ۔
کمپنی کا مالک شہر کے ریسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔۔۔ایک وقت تھا جب اس نے ٢٠ سال قبل ایک چھوٹے سے شیڈ میں معمول ترکھان کا کام شروع کیا تھا – مشکل سے چار پیسے کماتا تھا اور کس طرح مالک نے محنت و مشقت کر کے شہر کے ایک مشہور کمپنی کا مالک بنا۔ مالک کی کام کی صفائی، ایمانداری،پابندوقت پر کام پورا ہونے کا وعدہ ۔کہاں ٢٠سال پہلےوہ خود اکیلا کام کرتا تھا اور کہاں اب ملازم , نوکر چاکر کام کرتے ہیں-
کمپنی کے مالک نے ایک روز اپنی کمپنی کے بیس سال مکمل ہونے پر ایک پارٹی کاانعقاد کیا جس میں شہر کے چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو مدعو کیا-
وہ خود اپنے اپنے رپوٹ کارڈ سنائے گے۔ پرانے ملازموں میں سے ایک دو اپنا تاثر پیش کریں گے- اسماعیل اور کمپنی کے مالک نے پلان بنایا کہ وہ کہانی بھی بیان کی جائیگی جو اسماعیل اور مالک نے ایک منصوبہ کے تحت بنائی تھی جو دونوں نے صدیق کو راہ راست پر لانے کے لیے بنائی تھی۔جس پر صدیق کو نوکری مل گئی جو صدیق آج ذہد و تقویٰ میں کمال حاصل کر گیا۔
جلسے کا پورا انتظام کیا گیا۔جھنڈے، بینر اور کرسیاں وغیرہ لگائے گئے ۔ شہر کے اندر بڑے بڑے کارو بارِیوں اور ذی عزت اشخاص کو مدعو کیا گیا-
سب نے تقاریریں کِیں۔
صدیق کی باری آئی۔ تو اس نے بڑے اہتمام سے بغیر تمہید باندھے ہوئے یوں کہا۔
میں زیادہ نہ کہوں گا۔ میں سب سے چھوٹا ملازم ہوں جو دو ماہ پہلے یہاں آیا ہے۔ صدیق نے کہا کہ کس طرح وہ بے نمازی تھا قرآن , حدیث آخرت،ثواب،عذاب وغیرہ احکام شریعت کو نظر انداز کرتا تھا اور شاید اللہ پاک نے میری سن لی اور مجھے اپنے رحمت سے اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق دی ۔
چند ہی الفاظ سن کر اسماعیل اندر ہی اندر سے خوش ہورہا ہے اس نے جان لِیا یہ کہانی کسی اور کی نہیں بلکہ صِدیق کی اپنی ہے مگر میں بہت قسمت والا ہوں میں نے اسکو نماز کے لئے راغب کِیا ۔ اور آج اگر یہ سچا اور ایماندار آدمی بن چکا ہے اس میں میرا بھی ہاتھ ہے ۔
اِدھر صِدیق اپنے تقریر میں مشغول ہے اور کہہ رہا ہے ۔ ہاں میں آپ کو ایک بے نمازی کے بارے میں کہہ رہا تھا اس کا دوست اس کو بہت تنگ کر رہا تھا نماز پڑھنے کے لئے ،ایماندار اور سچا انسان بننے کےلئے پھر اس نے اپنے دوست سے جھوٹ کہہ کر یہ بتایا کہ میں اب نمازی بن چکا ہوں۔ اب مجھے اپنے مالک کے پاس نوکری کے لئے سفارش کرو۔ اسکے دوست نے اپنے مالک کے پاس سفارش کرکے اسکو نوکری دلوائی جس سے اسکی معاشی حالت بہتر ہوئی ۔سِماج میں عزت و مرتبہ مِلا ہر طرف لوگ سلام کرنے لگے اسکی زندگی بدل گئی۔ آج وہ سکون کی زندہ گی جی رہا ہے تو وہ کوئی اور نہیں وہ شخص میں ہوں جو آپ کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہانی سناتا یہ کہانی کسی اور کی نہیں بلکہ یہ میری اپنی کہانی ہے آج مجھے اس چیز کا اِحساس ہوگیا اگر میں نے جھوٹی نمازی بن کر اِتنا کچھ کمایا۔ سچا نمازی بنکر اللہ پاک کی بارگاہ میں کتنا کما سکتا لہذاہ میں یہی سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں کوئی نماز نہیں چھوڑ دونگا اور کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اگر آج میں یہاں آپ کے سامنے کھڑا ہوں اس کا سارا کریڈِٹ میرے دوست اِسماعیل کو جاتا ہے جس نے مجھے یہاں تک لاکے کھڑا کِیا- جس کا میں بے حد شّکر گزار ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔