Dr Abdul Majid 86

عارضی دلہن

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001

نوکری ملنے کے فوراً بعد منظور احمد کو شادی کی تڑپ ستانے لگی۔
اچھی لڑکی اور اچھے خاندان کی تلاش میں ہر وقت رہتا ۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے جانی دوست امر جیت سنگھ سے کئی بار ذکرکیا ۔
امرجیت سنگھ بھی اسی کمپنی میں ملازم تھا جس میں منظور احمد تھا
وہ بھی اس تلاش میں پوری طرح کوشاں رہا ۔
آخر ایک دن یہ تمنا پوری ہوگئی ۔ نبیلا لڑکی پر اور اس کے خاندان پر ان دونوں کی پسندٹھہری۔
امر جیت نے پوری دلچسپی اور ایمانداری سے درمیانہ داری نبھائی ۔
پورے محلہ میں اور دفتر میں منظور اور امرجیت کی دوستی مشہور تھی۔
وہ ایک دوسرے کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہتے تھے ۔ کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھا سب اکٹھے تھا۔
امرجیت کی عقلمندانہ بات چیت سے نبیلا کے والدین فوراً مان گئے ۔
چونکہ نبیلا کے والدین کافی عمررسیدہ تھے اور اکثر بیمار بھی رہتے تھے ۔ اس لئے وہ اس فرض سے جلد سے جلد فارغ ہونا چاہتے تھے ۔
انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اچھا گھرانہ اوراچھا لڑکا ملا ۔
مروجہ رواجوں فضول روایتوں اور فضول خرچ اخراجات سے کنارہ کشی کرکے چند ہی دنوں میں یہ شادی انجام دی گئی ۔
ہر رشتہ دار یا ر دوست اور دفتر کے ساتھی بہت خوش تھے ۔
مگر ان سب کی یہ خوشی دیر پا ثابت نہ ہوئی۔
جوں توں کرکے منظور نے دس ماہ گزار لئے۔
اس نے نبیلا کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی، اس کی ہر بات مانی، اس کی ہر خواہش پوری کی مگر اس کا کوئی بھی اثر ثابت نہ ہوا ۔ وہ ہر وقت ناک بھوویں چڑا کر رہتی۔ سیدھی بات نہ کرتی۔
بیوی ہونے کا کوئی حق ادانہ کرتی ۔ گھر میں ہر وقت چخ چخ ہوتی رہتی ۔یہ پریشانی دن بدن بڑھتی گئی ۔ منظور کی حالت دگر گوں ہونے لگی وہ مایوس اورپریشان رہنے لگا ۔ اس کے رہن سہن اور پہناوے سے صاف پتہ چلتا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
وہ ہر وقت بجھا بجھا سا رہتا ۔
دفتر والے اکثر پوچھتے کہ منظور صاحب کیا بات ہے؟بڑے پریشان رہنے لگے ہو۔شادی کے بعد تو لوگ خوش وخرم رہنے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تو الٹا ہی سب کچھ نظر آرہاہے ۔
نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ۔
منظور ہر بات ٹال دیتا ۔ دفتر والے اوررشتہ دار امرجیت سے بھی وجہ معلوم کرتے، مگر وہ بھی خاموشی اختیار کرتا ۔اور کچھ نہ بولتا ۔
امرجیت نے رقیہ بانو سے دریافت کیا جو ان کے دفتر میںReceptionest کے طور کام کرتی ہے۔
وہ ایک دن کسی دفتری کام کے سلسلہ میں ان کے ہاں گئی تھی ادھر سے آکر وہ دبے لفظوں میں کہہ رہی تھی کہ منظور صاحب کی بیگم بڑی مغرور ہے ،ترش مزاج ہے۔ اس میں اخلاق کی بڑی کمی ہے۔ یہ سن کر دفتر والے بھی پریشان ہوئے ۔
منظور صاحب کے گھر کی کھٹاپٹی باہر تک سنائی دینے لگی۔ ہر وقت شور شرابہ ۔
منظور صاحب بہت پریشان رہنے لگا ۔ اس کا ہنستا چہرہ بجھا بجھا رہنے لگا ۔
ایک دن امرجیت نے کہا کہ کیوں نہ ہم بھابھی کو کسی نفسیاتی معالج کے پاس لے جائیں شاید اس کے علاج سے کوئی فرق پڑ جائے ۔ منظور نے یہ بھی مان لیا مگر اس علاج سے بھی کوئی فاقہ نہ ہوا۔
مجبور ہوکر منظور نے سسرال والوں کو بھی یہ سارا ماجرہ سنایا ۔ وہ لوگ بھی یہ سن کر پریشان ہوئے۔
اس نے مختصراور سرسری بات کی ۔ کیونکہ وہ دونوں بیمار ہیں اور وہ ان کو مزید دُکھ نہیں پہنچانا چاہتاتھا ۔
منظور اور امرجیت ہر وقت اس مسئلہ پر غور کرتے رہتے کہ آخر کار اس بارے میں کیا کیاجائے ۔
یہ اب ان کا روزمرہ کا معمول بن گیا تھا۔
منظور کی حالت دن بدن قابل رحم ہوتی گئی اس کی فکر اور پریشانی اس کے چہرے سے صاف دکھائی دیتی تھی۔ تھک ہار کے ان دونوں نے اس مسئلے کو سلجھانے کے لئے دو تینOptionsپر غور وخوض کیا۔
اس مقصد کے لئے امرجیت نے رقیہ بانو سے بھی بات کی کیونکہ وہ خود بھی عورت ذات ہے اور عورت ذات کی نفسیات سے بخوبی واقف ہے۔ اس نے نفسیات میں ڈپلومہ حاصل کیاتھا۔اسی وجہ سے اس کوریسپشنسٹ لگایا گیاتھا۔
اور چونکہ وہ ایک بار نبیلا سے خود بھی مل چکی تھی۔
اس طرح وہ منظور اور نبیلا سے پوری طرح واقف تھی۔
منظور صاحب امرجیت اور رقیہ بانو نے بڑے سوچ سمجھ کے بعد ایک سکیم تیار کی ۔ وہ یہ کہ منظور صاحب نبیلا کو کہے گا کہ ان کی شادی کو قریباً دس ماہ ہوگئے ہیں، اس دوران ایک دن بھی ان کے درمیان سکوں سے نہیں گذرا ہے۔
والدین نے بھی سمجھایا ، سہیلی ممتاز نے بھی سمجھایا ، نفسیاتی معالج نے بھی اپنے تیرچلائے مگر سب بے سود بلکہ معاملہ دن بدن بگڑتا گیا ۔ محلہ میں، رشتہ داروں میں ،دفتر میں میری عزت کا جنازہ نکل گیا ۔
میری عزت خاک میں مل گئی ۔ میری صحت بگڑ گئی، میں ہڈیوں کاڈھانچہ بن کر رہ گیا ۔
ہنسی خوشی اورسکون مجھ سے کب کے رخصت ہوگئے۔
میں مانتا ہوں کہ تم بھی سکھی نہیں ہو۔ مگر اس میں میرا ذرابھی قصور نہیں ہے ۔ اگر ہے تو بتاؤ۔ میں اپنے آپ کو سدھارنے کے لئے تیار ہوں۔
بڑے سوچ وچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے ازدواجی علاحیدگی اختیار کریں گے ۔ میں طلاق نہیں دوں گا ۔ بلکہ ازدواجی تعلقات کو معلق کریں گے۔
مانا کہ ہمارا کیس طلاق کے لئے بالکل موزوں ہے۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ ایسا کرنے سے تمہارے ماں باپ جو پہلے ہی بیمار ہیں یہ صدمہ برداشت نہیںکرپائیں گے۔ اس بارے میں میں نے اپنے دوست سے بھی صلاح لی ہے۔
میں دوسری شادی کروں گا ۔ وہ بھی اور تم بھی اسی گھر میں رہوگی ۔ میں آپ دونوں کے پورے پورے حقوق ادا کروں گا ۔ کیونکہ مجھ میں تھوڑا بہت اسلامی شعور ہے۔
ایسا کرنے سے تمہاری بھی اورمیری بھی عزت برقرار رہے گی۔
تمہارے والد ین بھی غم زدہ نہیں ہوںگے ۔
یہ قدم اٹھانے کے لئے میں نے اپنے محکمہ اور عدالت عالیہ سے اجازت لے رکھی ہے۔ یہی ہم دونوں کے لئے بہتر رہے گا ۔
یہ سارا معاملہ امرجیت اور رقیہ بانو کی موجودگی میں بتایا گیا ۔
نبیلا یہ سب کچھ خاموشی سے سنتی رہی۔ وہ بالکل دم بخود تھی اس کے حواس اڑ چکے تھے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا ۔
اس کے بعد امرجیت اور رقیہ بانو وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ۔
اب وہاں صرف منظور اور نبیلا تھے ۔ امرجیت اور رقیہ دونوں نے یہ سارا ڈرامہ نبیلا کی سہیلی ممتاز سے مل کر ترتیب دیا ۔
ممتازنے اس معاملہ میں پورا پورا ساتھ دینے کا یقین دلایا اورکہاکہ اگراس کی ایکٹنگ سے نبیلا کا گھر بس سکتاہے تو یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔
اس پر منظور نے کہا کہ اگر یہ سکیم بھی فیل ہوگئی تو پھر طلاق کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس کے تھوڑی دیر بعد ممتاز کو دلہن کی طرح تیار کیا گیا اور بڑی عزت سے منظور کے گھرلایا گیا اورپھر دلہن کے لئے مخصوص رکھی گئی جگہ پر بیٹھایا گیا جیسے کہ وہ اصلی دلہن ہو۔
نبیلا کچن میں دبکی پڑی آنسو بہار رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد منظور بھی کچن میں گیا اور بڑی نرمی سے، پیار سے نبیلا کو اس کمرے میں لایا جہاں دلہن امر جیت اور رقیہ بانو تھے ۔ کمرے میں عجیب طرح کی منحوسیت تھی، کوئی کسی سے بات نہیں کررہا تھا آخر کار منظور نے نبیلا کو کہاکہ اب آپ اپنی سوتن سے ملو۔کھاؤ پیئو اورپھر دونوں بہنوں کی طرح رہنے کی شروعات کرو۔
اللہ کرے ہماری یہ کوشش اللہ اور اس کے نبی ؐ کو پسند آئے ۔
یہ کہہ کر رقیہ نے دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا ۔
یہ کیا! یہ تم ہو میری سہیلی
یہ دیکھنے سے پہلے میں مر کیوںنہ گئی۔ میری سہیلی اور اتنا بڑا دھوکہ۔ ہائے میری قسمت!
نبیلا چیختی چلاتی رہی۔
مجھے پہلے ہی شک تھاکہ ان دو کے درمیان کچھ ناجائز پک رہا ہے۔کیونکہ منظور بات بات پرممتاز کی تعریف کرتا رہتاتھا۔
مجھے کیا خبر کہ یہ میری جڑوں کو کاٹ رہی ہے۔
تم اتنی ذلیل ہو ۔ میں سوچ نہیں سکتی۔ اب تم ہی یہاں رہو۔ میں اب ایک لمحہ بھی یہاں نہیں رہ سکتی۔
نبیلا نے آنسو بہاتے ہوئے کہا اور دروازے سے باہر نکلنے کے لئے تیز تیز قدموں سے نکلنے لگی۔
رکو نبیلا۔
ممتاز جو جھوٹ موٹ دلہن بنی ہوئی تھی نے کہا
تمہیں سبق سکھانے کے لئے اور تمہارے گھرکو بچانے کے لئے ،تمہیں سدھارنے کے لئے ہم تینوں نے یہ کھیل رچایا۔
جب سارے طریقے فیل ہوگئے تو اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ بچا تھا۔ ایسا پلان ہم نے بڑے سوچ سمجھ کے بعد کیا ۔
سنو نبیلاعقل سے کام لو۔ اپنا گھر برباد نہ کرو ۔ ہنسی خوشی زندگی گزارو ۔ منظور بھائی جیسا شخص چراغ لیکر بھی نہیں ملے گا۔ اپنی اور منظور بھائی کی زندگی برباد مت کرو ۔ممتاز نے نصیحت کے لہجہ میں کہا
مجھے معاف کرو ۔ میں نے تمہیں بہت غلط سمجھا۔ تم واقعی میری سہیلی نہیں بہن ہو
نبیلا نے منظور سے بھی معافی مانگی اور آگے سے اپنا رویہ سدھارنے کی یقین دہانی دی۔
یہ کہہ کر سارے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے ،کھانا کھایا اور ہنسی خوشی الوداع ہوئے ۔ سبھوں نے اللہ کا شکرادا کیا اس کے بعد منظور اور نبیلا آپس میں شیر وشکر بن کررہے ۔
سچ ہے صحیح دوست اور صلاح کار ہوں تو کیانہیں ہوسکتا ۔
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں