94

2016میں وادی مکمل طور بے قابو تھی

سرینگر// کشمیرکی صورتحال سے متعلق مرکزی وزارت داخلہ کی منطق کومستردکرتے ہوئے پارلیمان کی قائمہ کمیٹی نے واضح کیاہے کہ سال2016میں وادی کی صورتحال کنٹرول نہیں بلکہ مکمل طورپربے قابوتھی۔سابق وزیرداخلہ پی چدمبرم کی سربراہی والی قائمہ کمیٹی نے پارلیمان کوبتایاہے کہ2016میں ایک توپورا کشمیر اُبل پڑاتھا،اوراسکے ساتھ ساتھ سرحدپارسے دراندازی کے واقعات میں3گنا اضافہ ہوا۔کمیٹی نے جنگجوئیانہ سرگرمیوں اورفدائین حملوں کے واقعات کوتشویشناک قراردیتے ہوئے مرکزی وزارت داخلہ سے دراندازی کی روکتھام اورجنگجوئوں کوہتھیاروں ورقومات کی فراہمی پرروک لگانے کیلئے ضروری اقدامات اُٹھانے کوکہاہے ۔مانٹرینگ ڈیسک کے مطابق کشمیراورشمال مشرقی ریاستوں کی صورتحال سے متعلق پارلیمان کی قائمہ کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ کے مزیدکچھ اقباسات ذرائع ابلاغ میں آئے ہیں ۔مذکورہ کمیٹی نے مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے سال2016میں کشمیرکی صورتحال سے متعلق اختیارکردہ موقف کویکسرکستردکرتے ہوئے یہ واضح کیاہے کہ سال2016میں کشمیراُبل پڑاتھا،وہاں حالات قابومیں نہیں تھے بلکہ صورتحال کنٹرول سے باہرتھی ۔قائمہ کمیٹی نے پارلیمان کوپیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایاہے کہ کمیٹی کومرکزی وزارت داخلہ کے اُس موقف یامنطق سے بالکل اتفاق نہیں جس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ سال 2016میں کشمیرکی صورتحال یاوہاں پیداہوئے حالات قابومیں تھے ۔کمیٹی کے مطابق اسکے برعکس پورے کشمیرمیں لاقانونیت کاعالم تھااورحالات مکمل طورپرانتظامیہ کے کنٹرول سے باہرہوئی تھی ۔پارلیمان کی قائمہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مزیدبتایاہے کہ کشمیرمیں تب اوراب سیکورٹی صورتحال کسی بھی طورٹھیک نہیں ہے کیونکہ جنگجوئیانہ سرگرمیوں اورفدائین حملوں کے ساتھ ساتھ سرحدپارسے دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہواہے ۔کمیٹی کے مطابق دراندازی میں صرف ایک سال کے دوران تین گنااضافہ ہواکیونکہ جہاں سال 2015میں سرحدپارسے دراندازی کی 121کوششیں ہوئی تھیں ،وہیں سال 2016میں دراندازی کے 364واقعات پیش آئے ۔پارلیمان کی قائمہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مزیدکہاہے کہ گزشتہ برس کشمیرمیں 82سیکورٹی اہلکارجنگجوئوں کے حملوں اورلائن آف کنٹرول کے نزدیک ہوئی جھڑپوں کے دوران مارے گئے ۔رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ 2جنوری 2016کوپٹھانکوٹ میں ایک فوجی کیمپ پرفدائین حملہ ہونے کے بعدکوئی چوکسی نہیں برتی گئی ،اوریہی وجہ ہے کہ بعدازاں پانپور،اوڑی ،بارہمولہ ،ہندوارہ اورنگروٹہ میں بھی ایسے ہی فدائین حملے ہوئے ۔پارلیمان کی قائمہ کمیٹی نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں پارلیمان کوبتایاہے کہ کشمیروادی میں پولیس تھانوں کے نزدیک احتجاجی مظاہروں ،سنگباری ،فائرنگ اورپولیس وفورسزاہلکاروں کے دوران ڈیوٹی ہتھیارچھین لینے کے واقعات میں بھی اضافہ ہواہے ،جوپریشان کن صورتحال اوررُجحانات کامظہرہے۔کمیٹی نے خبردارکیاہے کہ سیکورٹی اہلکاروں سے چھینے جانے والے یہی ہتھیاربعدازاں حملوں کے دوران استعمال میں لائے جاتے ہیں ،اوراس طرح سے جنگجوئوں کیلئے یہ طریقہ ہتھیارحاصل کرنے کاایک ذریعہ بھی بن گیاہے۔ نیوزرپورٹ کے مطابق سابق مرکزی وزیرداخلہ پی چدمبرم کی سربراہی والی پارلیمان کی ایک قائمہ کمیٹی نے کہاہے کہ جب پولیس اورفورسزکے دستے امن وقانون کی صورتحال کوبنائے رکھنے میں مصروف رہتے ہیں توجنگجوئوںکوسرنومنظم ہوجانے اوراپنی کارروائیاں انجام دینے کاموقعہ اوروقت مل جاتاہے۔قائمہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کشمیرمیں بحالی امن اورملی ٹنسی کی سرگرمیوں میں کمی لانے کے حوالے سے کچھ ایک سفارشات اورتجاویزبھی پیش کی ہیں ۔کمیٹی نے مرکزی وزارت داخلہ کومشورہ دیاہے کہ کشمیرمیں سنگباری کے واقعات اورنوجوانوں کے ملی ٹنٹ گروپوں میں شامل ہونے کے خطرناک اورپریشان کن رُجحانات پرقابوپانے کیلئے ایک کثیرالمقاصدحکمت عملی مرتب کی جائے۔جبکہ قائمہ کمیٹی نے پارلیمان کے توسط سے مرکزی وزارت داخلہ پرزوردیاہے کہ کشمیرمیں سرگرم جنگجوگروپوں اوراُن سے وابستہ جنگجوئوں کیلئے ہتھیاروں اوررقومات حاصل کرنے کی سپلائی لائن کاپتہ لگاکراس سے ناکارہ بنادیاجائے جبکہ کمیٹی نے اسکے ساتھ ہی فوج کی جانب سے شروع کردہ جنگجومخالف آپریشن آل آئوٹ کی دبے الفاظ میں حمایت کرتے ہوئے اسبات کی سفارش بھی کی ہے کہ جنگجومخالف کارروائیوں کادائرہ پورے کشمیرتک بڑھاکرسرگرم جنگجوئوں کی نشاندہی کرنے کے بعداُن کیخلاف کارروائیوں میں تیزی لائی جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں