67

دفعہ 370اور 35اےکی بحالی وقت کی اہم ضرورت

لوگ خاموش ضرورہے گپکار الائنس کومضبوط مستحکم رہناہوگا /یشونت سنہا

سرینگر//جموں وکشمیر کے ساتھ رشتوں کومضبوط مستحکم پائے دار بنانا ہے تو 370-35Aکو بحال کرنے کاعندیہ دیتے ہوئے سابق ووزیر خارجہ نے کہا کہ جموںو کشمیر کاخصوصی درجہ واپس لینے کے بعد مرکزی حکومت کے فیصلے سے لوگ خوش نہیں ہیں اور خاموشی کو اگر خوشی سے تعبیر کیاجارہاہے تومرکزی حکومت غلطی کررہی ہے جموںو کشمیرکے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ہم اپنے موقف پرچٹان کی طرح ڈھٹے ہوئے ہے تاہم سڑکوں پرآ کر5اگست کے فیصلے کے خلاف ا حتجاج کرنے کے سیکورٹی کے ہاتھوں مروانہ نہیںچاہتے وقت کاانتظار کررہے ہے ایسا وقت ضرور آئے گا جب جموںوکشمیرکے لوگ اپنے اس مطالبے کوسامنے لائینگے۔گپکار الائنس کومضبوط مستحکم رہناہوگا اگرانہوںنے نااتفاقی کی وہ بکھر جائینگے جومرکزی حکومت چاہتی بھی ہے ۔ملک کی خارجہ پالسی وزیراعظم کے ارد گردہی گھومتی ہے طالبان جموں وکشمیر پراثراندزنہیں ہوسکتے ہے اگر ملک کی سرکار سنجیدگی کامظاہراہ کرے بھارت نے بھی طالبان کے ساتھ براہی راست رابطہ قائم کیااور جلدبازی میں اپنے سفارت خانے نے کوکابل میں بندکردیاجوایک اچھی علامت نہیں ہے ۔اے پی آ ئی کے مطابق گلستان نیوز چینل کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اشفاق گوہرکے ساتھ انٹرویو کے دوران سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا نے اس بات کاانکشاف کیاکہ پانچ اگست 2019کو مرکزی حکومت نے جوفیصلہ جموں وکشمیرکے حوالے سے لیاوہ ا ٓئینی اور جمہوری لحاظ سے جائز نہیں ہے ۔جموںو کشمیرکے لوگوں کے ساتھ بہت بڑا مزاق کیاگیا جس کے لئے وہ تیار نہیں تھے ۔سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ اگرجموںو کشمیرکے ساتھ رشتوں کومضبوط اور پائی دار بنانا ہے تو 370-35A، 371کی صورت میں بحال کرنا ہوگا ۔انہوںنے کہا کہ اگرجموں وکشمیرکے لوگوں کے ساتھ 1947میں یہ کارروائی عمل میں لائی گئی تھی اور انہیں خصوصی درجہ ملک میںدیاگیاتھا تو 70 برسوںکے بعد اس سے منسوخ کرناکسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ہے ریاست کودو حصوں میں تقسیم کرکے جغرافیا ئی طور پراس سے تقسیم کرنا آئینی اور قانونی لحاظ سے بھی جائز نہیں ہے ۔سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ جموںو کشمیرکودوحصوں میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت نے جموں وکشمیرے لوگوں کویہ پیغام دیاکہ انہیں ان کی کوئی فکرنہیں ہے ۔سابق وزیرخارجہ نے انٹرویو کے دوران کہا کہ دفعہ370منسوخ کرنے کے بعد جوخاموشی جموں وکشمیرمیں دکھائی دے رہی ہے اور یہ دعویٰ کیاجارہاہے کہ جموں کشمیرکے لوگوں نے اس فیصلے کومن وعن تسلیم کیاہے یہ صحیح نہیں ہے ۔انہوںنے کہا کہ جموں وکشمیرکے سیاست دانوں سیو ل سوسائیٹئز اور مختف مکتب ہائی فکرسے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ جب بھی بات کی جاتی ہے تو وہ اس بات کابرملہ اظہارکرتے ہے کہ وہ اپنے موقف پرچٹان کی طرح ڈھٹے ہوئے ہے اور مرکزی حکومت نے فیصلے کواس لئے ابھی چلینج نہیں کررہے ہے کہ ہم سیکورٹی فورسز اور پولیس کے ہاتھوں مرنانہیں چاہتے ہے لوگوں کے نظریہ میںکوئی فرق نہیں آیاہے ۔مرکزی حکومت نے جوفیصلہ 5اگست کولیااس نے جموںو کشمیرکے لوگوں کوبہت بڑا دکھ پہنچادیاہے جسکاوہ بارباراعتراف کرتے ہے ۔سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ جموںو کشمیرمیں جوخاموشی دکھائی دے رہی ہے وہ اصل میں غم وغصے کی علامت ہے اورلوگ وقت کاانتظارکرہے ہیں اگرمرکزی حکومت نے جلدسے جلد حالات کوبہتربنانے لوگوں کواعتمادمیں لینے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے تو جموںو کشمیرکے لوگوں کو سڑکوں پرآنے سے کوئی روک نہیں پائیگا ۔انہوںنے کہا کہ جموںو کشمیرکے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ریاست کودوحصوں میں تقسیم کرناتھااور ایسا ملک میں پہلی بارہواہے ریاستوں کے حصے کئے گئے مگرانہیں مرکزی زیرانتظام علاقوں میںتبدیل نہیں کیاگیا۔سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ جموںو کشمیرمیں حدبندی بے معنیٰ ہے سٹیٹ ہڈبحال کیاجائے ا ور اسمبلی الیکشن کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کیاجاناچاہئے گپکار الائنس کومرکزی حکومت کی جانب سے توڑنے کی بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ پیپلزالائنس کومضبوط مستحکم رہناہوگا اورتب جاکروہ اپنی بات منوابھی سکتے ہے اور ان کی مطالبے میں اضافہ ہوگا اگروہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوئے جومرکزی حکومت چاہتی بھی ہے تو ان کی بات میں کوئی وزن نہیں رہے گا۔سابق وزیرخارجہ نے طالبان کی آمداورافغانستان پرکنٹرول حاصل کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہاکہ ہرایک کویہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ طالبان اب افغانستان پرحکمران ہے تاہم طالبان کی کارکردگی اور مستقبل میں ان کارویہ کیسارہے گا دنیاکی نظریں اس پرٹکی ہوئی ہے بھارت خطے میں ایک اہم رول اداکرسکتاہے ۔مرکزی حکومت نے جہاں ایک طرف دوہامیں طالبان کے ساتھ بالمقابلہ بات چیت بھی کی وہی افغانستان سے اپناسفارتخانہ کونسلیٹ بندکرنے میں جلدبازی کابھی مظاہراہ کیا۔مرکزی حکومت کوچاہئے تھا کہ وہ دیکھوں اور انتظار کروں کی پالسی پرعمل کرتے ہے ابھی ہاتھ سے گیاکچھ نہیںاگرطالبان نے حقوق البشرکوتحفظ فراہم کرنے خواتین کے ساتھ امتیاز برتنے کی اپنی سابقہ پالسی ترک نہیں کی تو اس سے دنیامیں بدنام ہوناپڑیگا ۔طالبان کاافغانستان پرکنٹرول حاصل کرنے سے وہ جموںو کشمیرپراثر اندازنہیں ہوسکتے ان کے عسکریت پسند جموں وکشمیرمیں داخل نہیں ہوسکتے اگر سرکار سنجیدگی کامظاہراہ کریگی ۔سابق وزیرخارجہ نے ملک کی موجودہ خارجہ پالسی کوہدف تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ خارجہ پالسی صرف وزیراعظم کے اردگردگھومتے ہے کروناوائرس کی وبائی بیماری پھوٹ پڑنے سے پہلے وزیراعظم ہرملک کے دورے پرجاتے ہے اس سے بھارت کوکیاحاصل ہوتاتھا اسکاکبھی جائزہ نہیں لیاذاتی رابطے الگ بات ہے اور ملک کی خارجہ پالسی ایک الگ چیزہے ۔.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں