58

تین طلاق سے متاثرہ خواتین کی زندگی اور زیادہ مشکلات سے دوچار

خاوند جیل میں بند ہونے کے بعد بچوں کی کی دیکھ بھال کرنے کیلئے خواتین مزدوری کرنے پر بھی مجبور

سرینگر/25اگست/تین طلاق سے خواتین کی زندگی اور زیادہ مشکلات میں گھر چکی ہیں تین طلاق دینے والے جن مردوںکو جیل بھیج دیا گیا ہے ان کی بیویوںکاکہنا ہے کہ جب سے ان کے خاوندوں کو جیل بھیج دیا گیا ہے ان کی زندگی اور زیادہ مشکل بن گئیں ہیںکیوںکہ خاوند جیل میں ہے اور ان کیلئے روزگارکا کوئی وسیلہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک تو ان کے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ان پر عائد ہوئی ہے دوسرا ان کا اب سسرال میںبغیر خاوند کے رہنا ناممکن بن چکا ہے ۔ کرنٹ نیو زآف انڈیا کے مطابق تین طلاق سے متاثرہ خواتین کی زندگی اور زیادہ مشکل بن چکی ہے ۔ فوری طور پر تین طلاق پر پابندی لگانے والے قانون نے خواتین کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک کی مختلف عدالتوں میں سینکڑوںمقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔ان میں سے ایک خاتو ن تین طلاق کا شکار ، جو تین بچوں کی ماں ہے ، گھریلو تشدد ، دیکھ بھال ، جہیز اور ہراساں کرنے کے چار مقدمات لڑ رہی ہے۔ انہوں نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا ،بہت سے مقدمات زیر التوا ہیں۔ ہم صرف عدالتوں میں گھوم رہے ہیں۔جبکہ میرا خاوند جیل میں بند ہے اور میرے گھر کے اخراجات اور بچوں کی پرورش کیلئے کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ انہوںنے بتایا کہ جب سے میرا خاوند جیل بھیج دیا گیا ہے میری زندگی اور زیادہ مشکلات میں گھر گئی ہیں۔ایک وکیل کاکہنا ہے کہ ہمیں مشاورت کے لیے کم از کم دو کیسز موصول ہوتے ہیں۔ ایک ماہ میں ہمیں 50-60 ایسی شکایات موصول ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے ذاتی مسائل کو مخلصانہ طور پر حل کریں اور تین طلاق کے لیے نہ جائیں۔ایک اور خاتون نے کہا کہ تین طلاق کے خلاف قانون متاثرین کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔’’جبکہ تین طلاق دینے والا ملزم جیل جاتا ہے ، اسے کم از کم اندر پناہ اور کھانا ملتا ہے۔ جو سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتا ہے وہ شکاریعنی خاتون ہے۔ وہ سسرال والوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں تنہا رہ جاتی ہے ۔بچوں اور اپنا پیٹ پالنے کیلئے مزدوری بھی کرنی پڑتی ہے اس کے علاوہ دکھ درد میں ساتھ نبھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ سب اپنا فائدہ ٹھونڈتے ہیں ۔ اس دوران خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور این جی اوز نے نشاندہی کی کہ نیا قانون ، جو مجرم/شوہر کو تین سال کے لیے جیل بھیجتا ہے ، ایک بڑی خامی یہ پائی جاتی ہے کہ متاثرہ خاتون کی کفالت کیلئے سرکار کوئی معاوضہ فراہم نہیں کرتی اورمسلم خواتین کو اس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر شوہر جیل میں ہے تو اس کی دیکھ بھال کون کرے گا ، بیوی اور بچے کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ حیدرآباد میں ایک این جی او چلانے والے آصف حسین سہیل نے کہا کہ حکومت کو آگے آنا چاہیے اور کم از کم دیکھ بھال فراہم کرنی چاہیے۔یاد رہے کہ قانون منظور کرنے سے قبل کئی دانشوروں اور علماء نے یہ نکات اُبھارے تھے کہ اگر خاوند کو تین طلاق کی بناء پر جیل بھیج دیا جائے گا تو عورت پر اضافہ بوجھ پڑے گا اور سماج اس کا بوجھ اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں