106

صنف نازک کے ساتھ خطرناک حد تک نا انصافی

خواتین کے حقوق کے حقوق کے تحفظ اور پاسداری لازمی / میر واعظ
سرینگر/ / حریت کانفرنس کے محبوس چیرمین میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق جنہیں ریاستی انتظامیہ نے گزشتہ کئی دنوں سے اپنی رہائش گاہ میں نظر بند کرکے ان کی جملہ پر امن دینی و سیاسی سرگرمیوں پر بندشیں عائد کردی ہے نے عالمی یوم خواتین کے موقعہ پر خواتین کے حقوق اور ان کے عزت نفس کی پاسداری کے تئیں پوری دنیا میں حکومتی اور عوامی سطح پر بڑھتے جارہے غیر ذمہ دارانہ رویوں کو صنف نازک کے ساتھ خطرناک حد تک نا انصافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج جب کہ پوری دنیا سائنس اور دیگر شعبوں میں ترقی کے مراحل طے کررہی ہے وہیں انسان کی سماجی ، معاشرتی اور خانگی زندگی میں بنیادی کردار کی حامل عورت کے ساتھ ہر سطح پر ناروا سلوک اور جرائم کا جس شدت کے ساتھ ارتکاب ہورہا ہے اُس نے پوری انسانی زندگی پر بڑے مضر اثرات مرتب کئے ہیں۔ میرواعظ نے کہا کہ دین اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف خواتین کے حقوق کا تعین کیا ہے بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ اور پاسداری کو لازمی قرار دیا ہے اور اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس نے ہر مرحلے پر عورت کے وقار اور عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے سماج میں ایک جائز اور باعزت مقام عطا کیا ہے۔ میرواعظ نے کہا کہ دنیا میں آئے روز خواتین کیخلاف مجرمانہ حملے، بدسلوکی، ان کی حقوق کی پامالی، سماجی سطح پر انکا استحصال حتیٰ کہ پیدائش سے پہلے لڑکیوں کا قتل جیسے واقعات نہ صرف مسلمہ انسانی قدروں کو زوال سے دوچار کررہے ہیں بلکہ صنف نازک کے تئیں غیر انسانی سلوک کے اس عمل نے پوری سماجی زندگی کو شدید اضطراب اور تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے نامساعد حالات کی بنا پر جس بے دردی کے ساتھ کشمیری خواتین کو اذیت اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے حقوق کا پاس و لحاظ کئے بغیر ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک روا رکھا گیا وہ نہ صرف حقوق انسانی کی شدید پامالیوں کی ایک سیاہ تاریخ ہے بلکہ کشمیری خواتین کے ساتھ اس قسم کے برتائو نے ہزاروں کشمیری عورتوں کو کئی نفسیاتی امراض اور مایوسی میں مبتلا کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں مردوںکی نسبت عورتیں زیادہ تعداد میں ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ صنف نازک کے تئیں ظلم ،زیادتی ، گھریلو تشدد(Domestic Violence) کو سب سے بڑی اور بنیادی وجہ قرار دیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں رواں تحریک آزادی کے دوران ہزاروں لاپتہ اور گمنام قبروں میںدفن افراد کا سب سے زیادہ اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ ان افراد کی مائیں ، بہنیں اور بیوائیں آج بھی اپنے عزیزوں کی راہ تکتے تکتے مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو گئی ہیں ۔انہوں نے کشمیر ی سماج میں عورتوں کیخلاف بڑھتے جرائم اور مجرمانہ حملوں پر فکر و تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں تعینات سرکاری فورسز نے بنت کشمیر کواپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے اور کنن پوشپورہ سے لیکر شوپیاں اور کولگام کے تازہ واقعات اور حال ہی میں کٹھوعہ میں ۸ سالہ آصفہ کے ساتھ پیش آئے المناک واقعات خواتین کے تئیں ظلم وزیادتیوں کی واضح مثالیں ہیں۔ میرواعظ نے کہا کہ آج پوری دنیا میں آزادی کے نام پر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا بڑا شور شراباہو رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حقوق نسوان اور آزادی کے نام پر سب سے زیادہ استحصال صرف صنف نازک کا ہی ہو رہا ہے اور حکومتی اور ادارتی سطحوں پر اس استحصال کیخلاف کوئی موثر قانون یا حکمت عملی اپنانے کے بجائے کہیں کہیں عورتوں کے خلاف جرائم میں مبتلا لوگوں کی پشت پناہی کا عمل جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات اور نفس کے تئیں شائستگی اور پر وقار طریقہ کار کواپنے زندگی کا لازمی جُز بنا کرایک بہتر اور پرسکون سماج کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں