95

عالمی یوم خواتین

کشمیر تحریک خواتین کا سرینگر میں خاموش احتجاج
سرینگر/ / کشمیر تحریک خواتین نے عالمی یوم خواتین کے موقعہ پر آ بی گذر سرینگر میںاحتجاج کرتے ہو ئے کشمیری خواتین کے جذبہ آزادی ناقابل فراموش قرار د یتے ہو ئے ان پر ڈھا ئے جا رہے مظالم بند کرنے کامطالبہ دہرایا گیا۔ سی این ایس کے مطابق بین الااقوامی حقوق نسواں کے دن پر کشمیرتحر یک خواتین کی چیئر پرسن زمردہ حبیب کی قیادت میں خواتین نے آ بی گذ ر سرینگر میں خاموش احتجاج کیا ۔ احتجاجی خواتین کے ہاتھوں میں بینر تھے جن پلٹ متاثرہ لڑکیوں اور ترال کی رتن دیپ کور، کھٹوعہ میں قتل کی گئی آ صفہ جان کے علاوہ رواں تحریک کے دوران کئی متاثرہ خواتین کی تصاویر موجود تھیں۔اس موقعے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے زمردہ حبیب نے کہا کہ سماجی،اقتصادی،تہذیبی اور سیاسی شعبوں میں خواتین کی ترقی کو لے کر عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے مگر یہاں جموںکشمیر میں خواتین کے عالمی دن کو ہم صرف یاد کر سکتے ہیں کہ کوئی ایک دن’یوم خواتین ‘کہلایا جا رہا ہے، اس وقت پوری دنیا میں خواتین کے حقوق،خواتین کوبا احتیار اور خود اعتماد بنانے کی بات ہورہی ہیں،اُن کے حقوق کی پاسدراری اور اُن پر ہورہے تشدد کے خلاف آوازیں بلند کی جارہی ہیں ۔ مگرخواتین کشمیر دنیا کے اُس خطہ میں خوف کے سائے زندگی بسر کر رہی ہے جو ایک بہت بڑا ملٹری زون ہے اور ہر روز ہمارے لخت جگر عزیز و اقارب مارے جا رہے ہیں اس وجہ سے اس خطہ کی عورتیں ذہنی و جسمانی کوفت کی شکار ہو رہی ہیں اوربحثیت ماں،بہن اور بیٹی سب سے زیاد متاثرہ ہیں،خواتین کشمیر پر ڈھائے جارہے ظلم و تشدد کو کشمیر کی غیر یقینیی سیاسی پس منظرسے الگ ہوکر نہیں دیکھاجاسکتاہے،کشمیر تنازعہ نے بیواوں اور نیم بیوائیوں کی ایک کثیر تعداد ہمارے سامنے کھڑی کر دی جن کے کرب کے مداواے کا فقدان صاف طور عیاں ہے۔ وہ بے بسی،مفلسی اور تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کشمیر جنسی زیادتیوں کے دلخراش سانحوںسے بھری پڑی ہے، مہری پورہ اسلام آباد جنسی تشددکا کیس،دوڈہ ماس ریپ ،کنن پوش پورہ اجتمائی جنسی تشدد اور آسیہ اور نیلو فر کا جنسی تشدد اور قتل کے کیسوں میں ملوث وردی پوش ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیںجو صنف نازک کی بے حرمتی سے تعبیر ہے ۔پچھلے ایک سال میں ہماری 14 بہنوں کو راست گولیوں سے ہلاک کیا گیا ،کئی ننھی بیٹیوں کو اُن کی شفقت اور اُنکی پہلی درسگا ماں کی گود سے محروم کیا گیا،جواں سالہ طالب علم لڑکیوں کو پیلٹ اور بلٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم اُن تمام ماں بہنوں کے لئے انصاف چاہتے ہیں جنہیں ان 27سالوں میں تشدد کا شکار گیا اور انصاف کا تقاضا ہے کہ اُن ملوثین کو انصاف کی کچہری میں کھڑا کیا جائے ۔ بیٹی آصفہ درندگی کا شکار ہوئی اور بد قسمتی کی بات ہے کہ وہاں کی بہنیں اس وحشیانہ حرکت کے خلاف نہیںبلکہ ملوثین کے حق میں احتجاج کرتی نظر آئیں جس کو دیکھ کر جموں کشمیر کی ہر بیٹی شرم سار ہوئی ہے۔ زمردہ حبیب نے مزید کہا کہ سماج کی جڑوں کوکئی طرح کے رسم و رواج اور بدعتیںکھوکھلا کر رہی ہیں۔جہیز کے نام پر صنف نازک پر بڑھتے گھریلو تشدد پر تشویش ناک صورت اختیار کر رہا ہے جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے گھریلو تشدد و جہیز اور دیگر معاملات پر تنگ و طلبی ، پچھلے کئی سالوں سے جہیز کے نام پرکئی عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو تشویشناک صورت اختیار کر رہاہے اور ہر عورت کو اپنا کردار نبانا ہوگا کیونکہ یہی عورت ماں ہے بہو ہے ساس ہے اور بیٹی ہے ،تب ہی جا کر صنف نازک پر بڑ ھتے گھریلوتشدد پر روک لگائی جا سکتی ہے۔ حکومت کی ’بیٹی بچاوء بیٹی پڑھاوٗ‘لاڈلی بیٹی سکیموں پر حکومت کو ہدف تنقید بناکر کہا کہ یہ سکیمیں زمینی سطح پر موجود ہی نہیں اگر ایسا ہوتا تو بیٹی آصفہ کے انسانیت سوز قتل و عفت ریزی میں ملوثین کے حق میں ہلڈ بازی کرنے والوں کی لگام کس لی جا چکی ہوتی ۔ زمردہ حبیب نے مزید کہا کہ رواں تحریک کو کشمیر کی ماں بیٹیوں کی تحریک کہتی ہوں، خواتین کشمیر نے بے پناہ قربانیاں دی اور دے رہی ہیں ، ۔ اُن کی عظیم قر با نیوں کو ہرگز فراموش نہیں کیا جائیگا۔ میں خواتین کشمیر کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ ہر ظلم و جبر،تشدد و استحصال چاہئے وہ سیاسی سطے پر ہو یا سماجی سطے پر اس کے خلاف صفہ آراء ہوکر اپنی آواز بلند کریں، اور سماج میں بڑھتی راہ راوی،بدکاریوں و بدعتوں کا قلہ قمہ کرنے میں اپنا کردار نبھائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں