97

زنسکار میں چھ برسوں سے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ

مسلمانوں کی حالت ابتر،جان کی امان پانے کیلئے ہجرت کرنے پر مجبور

سرینگر/ / تقریباً چھ سال قبل بودھ مذہب سے تعلق رکھنے والے چند کنبوںکی جانب سے اسلام قبول کرنے کے بعد اکثریتی طبقہ کے انتہا پسند عناصر کی جانب سے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ سے زانسکار کی قلیل مسلم آبادی کی حالت روہنگا ئی مسلمانوں سے زیاد ہ ابتر بن چکی ہے اور متاثرین کے مطابق انہیں اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مسلم طبقہ جان کی امان پانے کیلئے ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس تشویشناک صورتحا ل کا ایک پہلو یہ ہے کہ حق کی آ واز اٹھا نے پر پبلک وررکس ڈیپا رٹمنٹ میں کام کررہے ایک انجینئر پر ظلم ستم کے پہاڑ ڈالیے گئے کبھی اس پر پا کستانی نعرہ لگانے کے الزام میں کیس درج کیا گیا اور کبھی راشی انجینئرکالیبل اور کبھی تو نوکری سے معطل کرایا گیا۔ ایس ایس پی کرگل ٹی گیلاپو نے زنسکار میں اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے برقرار ہونے کا اعتراف کرتے ہو ئے کہا کہ ابھی بائیکاٹ کے خاتمے کیلئے امید کی کوئی نظر نہیں آ رہی ہے جبکہ ایم ایل زنسکا ر بھی بائیکاٹ کے اس صدمہ سے مایوس ہیں۔ سی این ایس کے مطابق سال 2012 میںبد دھوں سے تعلق رکھنے والے کئی کنبوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کے بعد علاقہ میں مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان حالات کشیدہ ہوگئے تھے جس کے بعد زانسکار بودھسٹ ایسوسی ایشن نے مسلمانوں کے خلاف سماجی بائیکاٹ کی کال دی رکھی ہے اور تب سے بائیکاٹ کال کے نتیجہ بودھوں نے مسلمانوں کے ساتھ اقتصادی طور مکمل بائیکاٹ کررکھا ہے ۔ مسلمانوں کو بودھوں کی دکانوں اور گاڑیوں میں جانے کی اجازت نہیں جبکہ علاقہ میں بودھ ٹھیکیداروں نے مسلم علاقوں میں کام بند کرکے مسلم مزدوروں کو کام دینے سے بھی انکار کررہے ہیں اور نہ ہی بودھ لوگ مسلمانوں سے بات کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے ذریعہ معاش کے تمام وسائل بشمول ٹرانسپورٹ، ہوٹل، دکان تجارتی اور کاروباری ادارے ادرے مالی خسارے سے دو چار ہو ئے ہیںاس کا یہ نتیجہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی مالی حالت انتہا ئی حد تک خراب ہو چکی ہے۔ اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے باعث مسلم آبادی عدم تحفظ کی شکار ہوگئی ہے اوروہ اپنے اہل خانہ کی روزی روٹی کے حوالے سے کافی فکر مند ہیںکیونکہ ا ان پر سیاسی اور اقتصادی طور پر دبائو بڑھایا جارہا ہے‘ جس کے نتیجے میں زنسکار کی مسلم آ بادی دانے دانے کی محتاج بن گئی ہے۔ زنسکار کے مسلمانوں پر ڈھا ئے جارہے مظالم کے بیچ پبلک وررکس ڈیپا رٹمنٹ میں کام کررہے ایک جونیئر انجینئر عبدالعزیز ولد دین محمد ساکن پدم زنسکار پر ظلم ستم کے پہاڑتوڑ ڈالیے گئے۔ عبدالعزیزکے مطابق’’ اس کا قصوریہی تھاکہ وہ ایک مسلمان ہے اور اس کو ہل کونسلر اور انتظا میہ کے کچھ افسران نے سال2011 سے ہی مختلف حیلوں اور بہا نوں سے ستا نا شروع کر دیا گیا کبھی مجھے پا کستانی نعرہ دینے کے الزام میں کیس درج کیا گیا اور کبھی مجھ پر راشی انجینئر کا لیبل لگا کر یا تو نوی سے معطل یا منسلک کرایا گیا‘‘۔ عبدالعزیز کے مطابق’’سال 2012 میں معاملہ پر فسادات اٹھنے کے بعد زنسکا ر میں حالات کشید ہ ہو گئے اور یک احتجاجی جلوس نکلا گیاجس کے دوران ان پر پاکستان کا نعرہ دینے کے الزام میں ایک ایف آ ئی آ رتحت سکشن نمبر153 درج کیا گیا حالا نکہ اس نے ایسا کو ئی نعرہ نہیں دیا تھا لیکن مجھے اپنی بے گنائی ثا بت کرنے کیلئے اس کے کیس کا چلان بھی عدالت میں پیش نہیںکیا جارہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر2012 میںشروع ہو ئے یہ فسادات سال 2013 میں داخل ہو ئے جس کے دوران اسکے گھر پر اسے مبینہ طور قتل کرنے کی غرض سے قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن میں نے نہ صرف ان کے خلاف پولیس میں کیس درج کرا ایا بلکہ جب مجھے لگا کہ میر ی جان کو خطر ہ تو میںنے عدالت عالیہ سے سیکورٹی کے لئے درخواست کی جس کے بعد سال2014 میں عدالت عا لیہ کی ہدا یت پر میر ی حفاطت کیلئے پولیس اہلکار کو تعینا ت کیا گیا‘‘ عبدالعزیز کے مطابق’’ سال2017 میں نوٹس د ئیے جانے کے بغیر ہ ہی میری سیکورٹی چھین لی گئی حالانکہ عدالت نے پولیس کو واضح ہدایت دی تھی کہ اس صورت میں اگر کبھی عبدالعزیز کو سیکورٹی واپس لینے کی ضروت محسوس ہو تی ہے تو اس وقت سائل کو مطلع کرنا ضرور ی ہے لیکن سیکورٹی لینے کے وقت ا یسا نہیں کیا گیا‘‘۔انہوں نے الزا م لگایا کہ’’ پدم کی انتظامیہ بودھوں کی پشت پر ہے اوراکثروبیشتر انتظا ی نگران بودھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جو مسلمانوں کو عتاب کا نشانہ بنانے میں پس و پیش سے کام نہیں لے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آ ج تک اس سماجی بائیکاٹ کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے‘‘۔انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ اگر بھارت میں سیکولرازم کے تحت لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے کی آزادی حاصل ہے تو زانسکار کے نو مسلموں کو اکثریتی طبقے کے ہاتھوںکیونکر تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ انہوںنے اپنی بات جاری رکھتے ہو ئے کہا کہ سا ل2011 میں میر ے اوپر بہت ساری واٹر اسکیموں میں گھپلے کا الزام عائد کیا گیا اور اس طرح29-3-2011کو مجھے ایگزن آ فس سے منسلک کرایا گیا۔ ایک ہی دن میں اس معاملے میں بٹھا ئی گئی کمیٹی نے مجھے ان تمام الزامات ے بری کردیا اور دوسر ے روز مجھے اپنی ڈیوٹی پر واپس بھیج دیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ زنسکا ر میں مسلمانوں کے ظلم تشدد میں کونسلر لونگ نیک کا ہاتھ ہے۔ عبدالعزیز کے مطابق کہ رواں سال کے ماہ فروری کی22 تاریخ کو اسے ایک بار پھر نوکری سے معطل کیا گیا ہے اور وہ تب سے لیکر انصا ف کیلئے دربدر بھٹک رہا ہے حالانکہ مجھ پر عائد تمام الزامات بے بنیاد تھے اگر زنسکار میں بد عنوانی کی بات کی جائے تو اس میں یہی اکثریتی طبقہ سرفہرست ہے ا س طبقہ سے وابستہ افراد نے اسکول چلانے کے نام پر غیر قانونی طور کروڑوں روپے کمالیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال2013 میں اغواکاری کے ایک کیس کے بعد زنسکار میں تشدد بھڑ ک اٹھا جس کے دوراان ایک پولیس گاڑی نذرآ تش کی گئی۔ بعد میں کونسلر اور دیگر افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا لیکن آ ج تک کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیاگیا۔ انہوںنے حکومت سے اپیل کی کہ زانسکار میں مظلوم مسلمانوں کو تحفظ فراہم چھ برسوں سے جاری اس بائیکاٹ کو ختم کیا جائے۔ ایس ایس پی کرگل ٹی گیلاپو نے زنسکار میں اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ جاری ہونے کا اعتراف کرتے ہو ئے کہا کہ ابھی بائیکاٹ کے خاتمے کیلئے امید کی کوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا جس وقت دلائی لامہ نے لداخ کا دورہ کیا اس وقت انتظا میہ نے یہ معاملہ ان کی نوٹس میں لایا گیا تھا لیکن ابھی اتک اس کے نتائج سامنے نہیں آ ئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور ضلع انتظا میہ بودھو کے رابطے میں ہے لیکن فی الحا ل نتائج کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس دوران ڈپٹی کمشنر کرگل نے بتایا کہ وہ اس معاملے دونوں فریقوں کے مابین صلح جوئی کی کوششوں میں لگے ہیں۔ البتہ ایم ایل اے زنسکار سید محمد باقر رضوی نے بتایا کہ اس بارے میں ان کی ذاتی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہو ئیں جبکہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سید نے بھی یہ بائیکاٹ ختم کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن بعد میں وہ نا رہے بعد میں نے اس بارے میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی یاد دہانی کرائی تھی لیکن ابھی تک حالات جوں کی توں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں