کالج کی پرنسپل پروفیسر غزالہ غیاث نے مہمانوں کا استقبال کیاکرتے ہوئے سائنس اور شاعری کی مماثلت پر روشنی ڈالی
پلوامہ/ندائے کشمیر/
09 نومبر 2024بروز منگل راجپورہ ڈگری کالج میں یوم اقبال کے موقعہ پر ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں وادی کے مشہور اور معروف “اردو کشمیری اور انگریزی” شعراء نے شرکت کی ۔ مشاعرے کی شروعات تلاوت کلام پاک اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ۔تلاوت کلام پاک کالج کی طالبہ “رضیہ یوسف” نے کی اور نعت شریف کی سعادت” مرسلین شبیر” کو حاصل ہوئی ۔
خطبہ استقبالیہ کالج کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر غزالہ غیاث صاحبہ نے پیش کیا جس میں انہوں نے مشاعرے میں شرکت کرنے والے مہمانوں کا والہانہ انداز میں استقبال کیا ۔پروفیسر غزالہ غیاث صاحبہ نے مشاعرے کے حوالے سے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی محفلیں آئندہ بھی منعقد ہوتی رہیں گی ۔ اس کے علاؤہ انھوں نے ” سائنس اور شاعری” کی مماثلت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے فکروفہم کے اہم گوشوں کو منور کرنے کی کوشش کی۔اور شاعری کے حوالے سے نئی فکر اور نئے نظریے کو اجاگر کیا ۔
یہ اس کالج کادوسرا مشاعرہ تھا اور یہ مسرت کی بات ہے کہ مشاعرے کی صدارت ماہر تعلیم اور نامور ادبی غلام حسن طالب نے سنبھالی۔ مہمان ذی وقار کے طور پر ” ندائے کشمیر”کے چیف ایڈیٹر معراج الدین فراز اور مہمان وقار ڈاکٹر رؤف عادل صاحب نے سنبھالی ۔مشاعرے میں جن شعراء نے سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ کیا۔ ان میں عادل اشرف ،جی،ایم دلشاد ،اشہر اشرف،محمد اکرم،شیخ گلزار ،ڈاکٹر مبارک لون،بلال قاصر،شفیع شاداب ،ڈاکٹر محمد یونس ڈار،بشیر ہایل،جہانگیر ایاز حالی،ڈاکٹر الطاف نظامی ،غلام نبی دلشاد ،ڈاکٹر آفتاب سعیدی، سائمہ مشتاق ،ساگر سلام،پرویز گلشن،اعظم فاروق ،ناصر منور،رقیہ حمید ،ردا مدثر،فیاض دلگیر،سہل عباس،اور یحییٰ توصیف قابل ذکر ہیں ۔
محفل کی نظامت شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر آفتاب احمد شاہ اور شعبہ کشمیری کی سربراہ سکینہ جان نے نہایت ہی احسن طریقے سے انجام دئیے ۔جس انداز سے ان دونوں نے نظامت کے فرائض انجام دئے وہ قابل داد تھا ۔ دونوںنے سامعین و شعرا کو پروگرام کے آخر تک جوڑے رکھتے ہوئے اپنے فرائض نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دئے۔ جس کے بارے میں شعرا حضرات نے بھی اُن کی سراہنا کی۔
اس دوران ندائے کشمیر” کے چیف ایڈیٹر معراج الدین فراز نے خصوصی خطاب دیا ۔جس میں انھوں نے” ادب اور صحافت ” کے حوالے سے مفصل گفتگو کرتے ہوئے کہا صحافت اب محدود تعداد کے قارئین سے نکل کر انتہائی وسعت اختیار کر چکی ہے۔ اب اخبارات و رسائل کے ذریعے جو معلومات دی جاتی ہیں وہ پوری دنیا سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس لئے صحافت کی طاقت بھی اسی کے حلقہ اثر کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے اب اخبارات سے کروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اس طرح صحافت لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کی رائے کو متاثر کرتی ہے جس سے اس کی ہمہ گیر قوت کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی شعور اور تربیت کی بدولت سیاسی بیداری حاصل ہوتی ہے۔ اخبارات اچھی قیادت کی خوبیوں سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔ بحث و مباحثہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اخبارات نظریات و خیالات کے تبادلے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں اور آزادی تحریر کے علمبردار بھی۔ آمرانہ نظام کے خلاف شعوری طور پر قارئین کو آمادہ کر کے جمہوری عمل کے فروغ کے لئے صحافت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔فطری طور پر ہر انسان میں تجسس کا مادہ پایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ارد گرد کے ماحول سے آگاہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ جو انسان جاہل ہو گا وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ اس لئے انسان ذرائع کا متلاشی رہتا ہے جو اس کو حالات سے باخبر رکھنے میں اس کی مدد کرسکیں۔ اخبارات کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ وہ انسان کے تجسس کے جذبے کی تسکین کے لئے زیادہ سے زیادہ معلومات اس تک پہنچائیں۔ اور تازہ واقعات و معلومات کو بغیر کسی تاخیر کے اخبارات میں جگہ دی جائے تاکہ قاری وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرسکے اور ہر قسم کے حالات سے بخوبی آشنا ہو لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر واقعہ یا خبر پیش کرتے وقت دور اندیشی، مصلحت اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرے
اختتام کلمات ماہر تعلیم و نامور ادیب غلام حسن طالب نے پیش کیا۔اور ساتھ ہی شاعری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے۔ کوئی بھی انسان ہو وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیا کے مشاہدے میں یا اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے اور سوچ میں گم رہتا ہے ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے کچھ لوگ اس کو عام باتوں کی طرح سے یعنی گفتگو سے ظاہر کرتے ہیں کچھ لوگ اس کو لکھ کر یعنی نثر کی صورت میں بیان کرتے ہیں جن کو مضمون، ناول نگاری، افسانوں اور کہانیوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مجسمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں
اور کچھ لوگوں کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری ہوتا ہے۔ شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہے شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار آثار قدیمہ سے ملنے والی اشیا سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے جس سے موجودہ زمانے کے لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس دور میں لوگوں کے حالات زندگی اور اُنکا رہن سہن کیسا تھا یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہےاس کے بعد شعراء میں اعزازی اسناد (سرٹیفکیٹ) تقسیم کیے گئے ۔
آخر پر اظہار تشکر شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر غلام محی الدین صاحب نے پیش کیا۔ سمینار کو کامیاب بنانے کےلئے پروفیسر ناہیدہ شفیع کنوینر پروٹوکول اینڈ ہاسپٹلٹی کمیونٹی۔ پروفیسر رمیز راجہ صاحب کنوینر کیریئر کونسلنگ سیل۔پروفیسر محی الدین صاحب کنوینر ڈیبیٹس اینڈ سمینار، ڈاکٹر ابرار صاحب سپورٹس اینڈ کونسلنگ سیل۔محترمہ رومیسا نظیر صاحبہ ایڈمیشن سیکشن سیل کے انچارج ،محترم سجاد صاحب کنوینر پرچیزنگ اینڈ لائبریری،اور کالج کے دیگر منتظمین ،محترم ہلال صاحب ،محترم غلام رسول پرے،محمد اشرف کھانڈےصاحب ،محترم معراج صاحب اور محترم حمید صاحب وغیرہ شامل ہیں اور خاص طور پر کالج کے طلبہ وطالبات نے ذوق شوق کے ساتھ مشاعرے کو بے صبری کے ساتھ آخر تک سنا اور شعراء کے کلام پر زور دار تالیوں سے داد دی اور پروگرام کو کامیاب بنانے میں کلیدی رول ادا کیا ۔