دفعہ370منسوخی کیخلاف عرضیوں کی فوری شنوائی 114

نئے اراضی قوانین:سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا نئی دہلی سے سوال

’کیا آپ چاہتے ہیں ہم مین اسٹریم چھوڑ کر چلے جائیں ؟‘
یہ اقتدار کی لڑائی نہیں ، اگر ہم آج بھی اقتدار کے پیچھے بھاگے،تو لوگ کبھی معاف نہیں کریں گے :عمر عبداللہ
سرینگر؍29، اکتوبر ؍جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو نئی دہلی سے مخاطب ہو کر کہا ’آپ کیا چاہتے ہیں ،کیا آپ چاہتے ہیں ہم مین اسٹریم چھوڑ کر چلے جائیں ؟‘۔ان کا کہنا تھا کہا کہ جموںوکشمیر کی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد اقتدار کی لڑائی نہیں ہے، یہ لڑائی وزیر اعلیٰ کی کرسی کیلئے نہیں ہے، اگر ہم آج بھی اقتدار کے پیچھے بھاگے اور اگر آج بھی ہماری نظریں سکریٹریٹ پر مرکوز رہیں تو لوگ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے ‘۔کشمیر نیوز سروس کے مطابق پارٹی ہیڈکوارٹر پر منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اراضی قوانین میں ترمیم کرکے ملک کے کسی بھی شہری کو جموں وکشمیر میں زمین خریدنے کا اہل بنانے کے حکومت ہندکے اقدام کو ناقابل قبول کرتے ہوئے جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اورنیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ’ہمارا سب کچھ اس زمین کیساتھ جڑا ہوا ہے اگر ہم اپنی زمین کو نہیں بچاسکے تو ہم اپنی آنے والی نسل کیلئے کیا چھوڑ کر جائیں گے، آخر ہمارے پاس اس زمین کے علاوہ اپنے بچوں کو دینے کیلئے رہا ہی کیاہے؟زرعی اصلاحات نے ہی کشمیریوں کو غربت، افلاس اور چکداری سے باہر نکالا، اسی زرعی اصلاحات نے ہمیں زندہ رکھا اور مرکز نے یہی قانون تہس نہس کردیااور یہ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم خاموش بیٹھیں گے۔‘‘عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’5 اگست 2019کو ایسا زلزلہ آیا جس سے ہم آ ج بھی ہل رہے ہیں، گذشتہ سال کے ابتداء میں جہاں ہم پارلیمانی انتخابات کے بعد اسمبلی انتخابات کی تیاری کا سوچ رہے تھے اور یہاں کی مقامی جماعتیں ایک دوسری کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے، لیکن مرکز کے سازش کے نتیجے میں ایسا ماحول پیدا ہوا کہ ہم مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ ہم نے اپنی چھوٹی سیاسی لڑائیوں میں الجھنے کے بجائے اتحاد کو ترجیح دی کیونکہ آج موقع نہیں کہ ہم الیکشن اور حکومت بنانے کی بات کریں۔ جو لڑائی ہم لڑ رہے ہیں وہ ایک دن، ایک ہفتے اور ایک مہینے کی لڑائی نہیں ہے، معلوم نہیں اس جدوجہد کے دوران ہم میں سے کتنے دم توڑ بیٹھیں گے، لیکن اس لڑائی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ہمارا سارا کچھ اس لڑائی سے جڑا ہوا ہے۔یہ لڑائی ہمارے تشخص، ہماری پہچان، ہمارے آنے والے کل اور اپنے وطن کو بچانے کیلئے ہے۔ یہ لڑائی ہم ہارنے کیلئے تیار نہیں۔عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہا کہ جموںوکشمیر کی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد اقتدار کی لڑائی نہیں ہے، یہ لڑائی وزیر اعلیٰ کی کرسی کیلئے نہیں ہے، اگر ہم آج بھی اقتدار کے پیچھے بھاگے اور اگر آج بھی ہماری نظریں سکریٹریٹ پر مرکوز رہیں تو اس سے زیادہ گھناونی بات کیا ہوسکتی ہے جبکہ لوگ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے‘۔ان کا کہناتھا ’لعنت ہم اگر ان حالات میں بھی ہم اقتدار پیچھے بھاگے ‘۔ عمر عبداللہ نے کہا ’ 2019کے ابتداء میں ہم جموں و کشمیر میں الیکشن کی بات کررہے تھے اور آج ہم جموں وکشمیر کے تشخص اور پہچان بچانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ ان دلی والوں نے ہمیں بے اختیار کرنے کا کوئی حربہ نہیں چھوڑا، مرکز نے بار بار کوشش کی کہ ہماری آواز بے وزن ہوجائے ، اُن کی سازش کامیاب ہوگئی اور اہم بکھر گئے اور اس کمزور آواز کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے‘۔انہوں نے کہا کہ مرکز نے جموںوکشمیر کیساتھ مسلسل امتیازی سلوک جاری رکھا ہو اہے۔ ہمارچل ، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، سکیم اور دیگر ریاستوں میں ایسے اراضی قوانین ہیں جن کے تحت وہاں ملک کے باشندے زمین نہیں خرید سکتے ہیں، لیکن پتہ نہیں جموں و کشمیر کے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ یہاں پورے ملک کے لوگوںکو اندھا دھند زمین خریدنے کی اجازت دی جائیگی اور جب ہم اس کیلئے آواز اُٹھائے ہیں تو ہمیں ملک دشمن کہا جاتا ہے اور ہمیں ملک کیخلاف باغی کہا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا ’جو بات ہم کررہے ہیں وہ اس ملک کے آئین میں ہی درج تھی ،جو ہم سے 5اگست 2019کو چھینا گیا وہ کسی اور ملک کے آئین میں درج نہیں تھا وہ اسی ملک کے آئین میں درج تھا۔ اگر جموں وکشمیر کو وہ خصوصی درجہ نہیں دیا گیا ہوتا تو شائد 1947میں کوئی اور ہی کہانی بن گئی ہوتی۔‘انہوں نے کہا کہ یہ دلی والے جب ناگالینڈ والوں سے بات کرتے ہیں، جو نہ ہندوستان کا آئین اور نہ جھنڈا مانتے ہیں ، تو انہیں ملک دشمن نہیں کہا جاتا اور نہ ہی ٹی وی چیلنجوں پر ان پر بغاوت کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں لیکن جب جموں وکشمیر کے عوام اپنی زمین اور اپنی پہچان کو بچانے کیلئے آواز اُٹھاتے ہیں تو اسے ملک کیخلاف بغاوت کا رنگ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں بغاوت کرنی ہوتی تو ہم نے 30سال تک بے بہا قربانیاں پیش نہیں کی ہوتیں۔ ہمارا یہ ماننا تھا کہ ہم جو کچھ بھی حاصل کریں گے آئین کے اندر اور پُرامن طریقے سے ہی کریں گے لیکن آج ہمیں دھکیلا جارہا ہے، آج یہی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا راستہ غلط تھا۔سمجھ میں نہیں آتا یہ لوگ ہم سے کیا چاہتے ہیں، ہمیں ہر لحاظ سے الگ ترازو میں کیوں تولا جاتاہے۔عمر عبداللہ نے کہا ’آپ چاہتے کیا ہیں ؟کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم مین اسٹریم کو چھوڑ کر چلے جائیں ؟‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ کل ہی جموں میں پی ڈی پی کو نئے اراضی قوانین کیخلاف پُرامن احتجاج کرنے کی اجازت دی گئی لیکن آج جب اسی جماعت نے سرینگرمیں احتجاج کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کیا گیا۔ عمر عبداللہ نے سوال کیا کہ ’’آخر آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا آپ یہی چاہتے ہیں کہ ہم مین سٹریم چھوڑ دیں؟جس چیز کیلئے ہم نے 30سال قربانیاں دیں،کیا آپ کہتے ہیں کہ وہ چھوڑ دیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’سیاسی ماحول کس طرف کروٹ لیتا ہے اور ہمیں کس طرح کے فیصلے لینے کیلئے مجبور کرتا ہے کسی کو نہیں پتہ۔ کیا پتہ اللہ نے ہمارے لئے کیا سوچا ہوگا۔اللہ نے جو بھی سوچا ہوگا آخر کار اچھا ہی سوچا ہوگا اور کوئی بھی اچھی چیز آسانی سے حاصل نہیں ہوتی اور اچھی چیز حاصل کرنے کیلئے مشکل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔‘‘تقریب پر سینئر پارٹی لیڈران علی محمد ڈار، محمد سعید آخون، پیر آفاق احمد، منظور احمد وانی، پروفیسر عبدالمجید متو، ڈاکٹر محمد شفیع، سلمان علی ساگر، عمران نبی ڈار، احسان پردیسی، صبیہ قادری، مدثر شہمیری سید توقیر احمد شاہ اور دیگر لیڈران بھی موجو دتھے۔ اس تقریب کا انعقاد سابق ایم ایل سی اور پی ڈی پی لیڈر سیف الدین بٹ کی نیشنل کانفرنس میں باضابطہ شمولیت کے سلسلے میں کیا گیا۔ اس موقعے پر پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر اور صوبائی صدر ناصر اسلم وانی کے علاوہ دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں