116

بھارت۔ چین کشیدگی

’بھارت بڑے اور سخت اقدامات اٹھانے کے لیے تیار ‘:راج ناتھ سنگھ
سرینگر؍17،ستمبر ؍وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مشرقی لداخ میں سرحد پر چین کے ساتھ کشیدگی کے بارے میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں ایک سخت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے مفاد میں چاہے کتنے بھی بڑے یا سخت اقدامات اٹھانے پڑیں بھارت پیچھے نہیں ہٹے گا۔کے این ایس مانیٹر نگ ڈیسک کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’بھارت نہ تو اپنے سر کو جھکنے دے گا اور نہ ہی کسی کا سر جھکانا چاہتا ہے۔‘وزیر دفاع نے کہا کہ بھارت ہر قسم کا قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے اور فوج بھی پوری طرح تیار ہے۔ انھوں نے کہا ’ہمارے فوجیوں کے حوصلے بلند ہیں۔‘ان کا کہنا تھا ’یہ سچ ہے کہ لداخ میں ہمیں ایک چیلنج کا سامنا ہے، لیکن ہمیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم اپنے ملک کا سر نہیں جھکنے دیں گے۔ ہمارے جوان چینی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں اور ان کی اس حوصلہ افزائی کے لیے ایوان کی طرف سے پیغام دیا جانا چاہیے۔‘وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ بھارت کا خیال ہے کہ باہمی تعلقات استوار ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی سرحدی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی بات چیت کی جا سکتی ہے۔وزیر دفاع نے کہا ’ہم یہ دونوں کام کر سکتے ہیں۔ لیکن ایل اے سی پر امن کی کسی بھی سنگین صورتحال کا دو طرفہ تعلقات پر یقینی طور پر اثر پڑے گا۔ دونوں فریق کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے۔‘موجودہ صورتحال پر وزیر دفاع نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ سنہ1993 اور سنہ1996 کے معاہدے میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کم از کم ایل اے سی کے پاس اپنی افواج کی تعداد کم سے کم رکھیں گے۔انھوں نے بتایا کہ معاہدے میں یہ بھی ہے کہ جب تک سرحدی تنازع کو مکمل طور پر حل نہیں کیا جاتا تب تک ایل اے سی کا سختی سے احترام کیا جائے گا اور کسی بھی صورت میں اس کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔انھوں نے وضاحت کی کہ ’اس کی بنیاد پر سنہ1990 سے سنہ2003 تک دونوں ممالک نے ایل اے سی کے بارے میں مشترکہ تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد چین اس اقدام کو مزید آگے بڑھانے پر راضی نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے چین اور بھارت کے درمیان بہت سی جگہوں پر ایل اے سی کے خیال پر مسلسل اوورلیپ رہتا ہے۔‘وزیر دفاع نے کہا کہ اپریل کے مہینے سے چین نے لداخ کی سرحد پر فوج اور فوجی ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان کی تعداد میں اضافہ کیا ہے جو واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔انھوں نے کہا ’مئی کے آغاز میں چین نے وادی گلوان میں ہمارے فوجیوں کے معمول کی گشت میں خلل ڈالنا شروع کیا۔ جس سے فیس آف کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ گراؤنڈ کمانڈر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف معاہدوں اور پروٹوکول کے تحت بات کر رہے ہیں۔‘’چین کو دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا‘:وزیر دفاع راج ناتھ نے کہا کہ مئی کے وسط میں چین نے مغربی سیکٹر میں متعدد مقامات پر ایل اے سی میں دراندازی کی کوشش کی ہے ’لیکن یہ کوششیں ہماری فوج نے وقت پر نوٹس کر لیں اور ضروری جوابی کارروائی بھی کی۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہم نے سفارتی اور فوجی چینلز کے توسط سے چین کو آگاہ کیا کہ اس طرح کی سرگرمیاں یکطرفہ طور پر جمود کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ہمیں کسی بھی طرح سے اس کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ بات دوٹوک الفاظ میں چین کو بتا دی گئی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’ایل اے سی پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے دونوں فریقین کے فوجی کمانڈروں نے 6جون2020 کو ایک میٹنگ کی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ باہمی کارروائی کی بنیاد پر ڈس انگیجمینٹ ہونا چاہیے۔ دونوں فریقوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ایل اے سی کو مانا جائے گا اور اس طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی جو صورتحال کو بدل دے۔‘بھارت چین تنازع:راج ناتھ کا تھا کہ ’اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چین نے 15 جون کو گلوان میں پْرتشدد حالات پیدا کر دیے۔ ہمارے جوان ہلاک ہوئے اور چین کو بھی بہت نقصان پہنچا اور ہم اپنی سرحد کی حفاظت میں کامیاب ہو گئے۔ اس پورے عرصے کے دوران ہمارے بہادر فوجیوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور جہاں بہادری کی ضرورت تھی وہاں بہادری کا مظاہرہ بھی کیا۔‘راج ناتھ سنگھ نے ایوان سے درخواست کی کہ فوجیوں کی بہادری کی تعریف کی جائے۔’ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام بھی ضروری ہے‘:انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کو بھی سرحد کی سلامتی کے ہمارے عزم پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری طرف بھارت یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات میں بھی باہمی احترام اور حساسیت ہونی چاہیے۔ چونکہ ہم اس موجودہ صورتحال کا بات چیت سیحل تلاش کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہم نے چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی رابطے برقرار رکھے ہیں۔‘راج ناتھ سنگھ نے کہا ’اس بات چیت میں تین اصول ہمارے نقطہ نظر کا تعین کرتے ہیں۔ پہلے دونوں فریقین ایل اے سی کا سختی سے احترام کریں اور ان کی پابندی کریں دوسری بات کسی بھی فریق کو اپنی طرف سے جمود کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور تیسرا دونوں فریق کے درمیان تمام معاہدوں اور افہام و تفہیم پر پوری طرح عمل ہونا چاہیے۔‘’چین کے قول و فعل میں فرق‘:انھوں نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ یہ چین کا موقف ہے کہ صورتحال کو ذمہ دارانہ انداز میں نبھایا جائے اور دوطرفہ معاہدوں اور پروٹوکول کے ذریعہ امن و استحکام کو یقینی بنایا جائے۔’اس کے باوجود چین کی سرگرمیوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کے بیانات اور اقدامات میں فرق ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب بات چیت جاری تھی، چین کی جانب سے29 اور30اگست کی درمیانی رات کو اشتعال انگیز فوجی کارروائی کی گئی تھی۔‘وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ چین دو طرفہ معاہدوں کو نظرانداز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ’چین کی جانب سے بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی 1993 اور1996 کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ چین نے ابھی بھی ایل اے سی اور اس کے داخلی علاقوں میں بڑی تعداد میں فوج اور گولہ بارود جمع کیا ہے۔ ’چین کی کارروائی کے جواب میں ہماری سیکیورٹی فورسز نے علاقوں میں مناسب طور پر کاؤنٹر تعینات کیا ہے تاکہ بھارت کی سرحد مکمل طور پر محفوظ رہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں