"جادوئی جھرنا" 0

“جادوئی جھرنا”

میں حامد ہوں۔ میری زندگی باقی بچوں سے مختلف تھی…مجھے بچپن سے ہی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے جینا پڑا۔۔۔ ایک غریب چوکیدار کا بیٹا جو تھا۔میرے والد صاحب محمد ایوب پراوئٹ کمپنی میں ایک چوکیدار ہوا کرتے تھے۔۔۔اور میری والدہ حاجرہ بیگم ایک سیدھی سادھی گھر میں کام کرنے والی خاتون تھی۔۔۔ قلیل آمدن سے بس جینے کے اشد ضروری سامان ہی مہیا ہوا کرتے تھے۔ اور کبھی کبھی تو ماں چولے پر پانی ہی ابھالا کرتی تھی۔مجھے تسلی کرنے کے لئے کہ کھانا پک رہا ہے۔۔ نا فہمی اور نا سمجھی جب تک تھی کچھ نہ سمجھ پاتا تھا۔۔اکثر رات میں بھی اٹھکر ماں سے کھانا مانگتا تھا۔۔مگر ماں چھاتی سے لگا کر پھر سلا دیتی تھی۔۔۔کبھی لوری سناکر تو کبھی اندھیروں سے ڈرا کر۔ میں کم عقلی میں ہی اپنے اندر کئ جنگیں لڑتا رہا۔ قدرت کے دستور کو نہ سمجھ سکا۔ میرے ارد گرد جو بچے تھے اکثر خوشباش اور خوشی سے چہک رہے ہوتے تھے۔ وہ جتنا کھانا جھوٹا چھوڑدیتے تھے مجھے اتنا کھانا ہفتہ بھر میں بھی کھانے کو نہ ملتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھکر سمجھ نہ پاتا تھا کہ اصل ماجرا کیا ہے؟۔ ہاں مگر یہ ضرور رفتہ رفتہ جان چکا تھا کہ ذندگی نہ ختم ہونے والی کشمکش کا نام ہے۔۔
زندگی کی الجھنوں سے فرار چاہئے
مجھے بچپن کا ایک دن ادھار چاہئے
دن، مہینے، سال گزرتےگئے اور میں ذمہ داریوں کے دلدل میں دستاگیا۔۔۔ میرے والد صاحب بدقسمتی سے کسی محلق بیماری میں مبتلا ہوگے اور وہ کئ سالوں سے بستر مرگ پر پڑے رہے تھے۔۔۔ ماں بے چاری زندگی کے سخت ترین امتحانات سے گزر رہی تھی ۔۔۔مصیبتیں پیچھا ہی نہیں چھوڑ دیتے۔ایک آفت سے بہادری سے سامنا اور سنگرش کرکے نکل کر کسی دوسری مصیبت کے چنگل میں پھنس جاتے تھے۔۔۔ ماں باپ کی ایسی حالت دیکھکر اپنی آرزوں کا جنازہ خود اپنے کاندھوں پر لے جا کر دور کے ایک جنگل میں دفنا کر آیا تھا۔۔اور خود سے عہد کیا کہ ماں باپ کو ایسی حالت میں بے یارو مد گار نہیں چھوڑوں گا۔ جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کا زمہ اٹھایا تھا اب مجھ پر بھی یہ فرض ہے کہ میں بڑھاپے میں ان کا دل و جان سے سہارا بنوں۔۔۔ کوئی خاص ہنر اور تجربہ نہ ہونے کے باعث کوئی اچھی کام کا ملنا ناممکن سا تھا۔۔۔ مگر ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھنے سے تو مشکلات کم نہیں ہوتے۔۔۔اس لئے گھر سے کلہاڑی اٹھا کر اسی جنگل کی جانب اپنا رخ کیا جہاں کچھ عرصہ پہلے اپنی آرزوں کو دفنا کر آیا تھا۔۔۔ لکڑیاں کاٹ کر شہر لے جاکر بیچ کر گزارا کرتا گیا مگر اس کم قلیل خرچے سے گھر کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہ ہو پائی۔۔۔ اس لئے اب اور زیادہ محنت کرنے کا سونچ کر جنگل سے دن میں دو بار لکڑیاں کاٹ کر لانے کا عزم کیا۔۔اس خاطر صبح صادق سے ہی جنگل کا رخ کرنا پڑا اور رات دیر گئے گھر کی واپسی ممکن تھی۔۔۔
والد صاحب رفتہ رفتہ کمزور ہوتے جارہے تھے۔۔۔میں اتنا سنگرش کرنے کے باوجود انکے نیک خواہشات بھی پوری نہ کر پاتا۔۔۔ وہ روز شام کو شربت کی آرزو کرتے تھے پر میں شرمندہ ہوکر ان سنی کر دیتا تھا۔۔۔والدہ مترمہ بھی روز کھانستی رہتی تھی پر میں کچھ دوا کی گولیوں کے سوا ان کو بھی کچھ خاص نہ دے پاتا تھا۔۔۔ بس رو رو کر اللہ میاں سے دعا کتا تھا کہ یا رب ہماری مشکلوں کو آسان فرماں۔اے “کن فیکون” کے مالک میں جانتا ہوں کہ آپ کو اسباب کی ضروت نہیں ہے۔۔۔بس ہم سب کے حال پر رحم فرما۔۔۔ یا اللہ مجہ معسوم کی عاجز دعا سن لے۔۔۔کوئی چارہ کر اے چارہ گر۔۔۔ جس سے میں اپنے والدین کے چھوٹی سی خواہشات کو پورا کر سکوں۔۔۔ دعا کرتے ہی نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئ کچھ معلوم ہی ہوا۔۔۔ اور میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک سفید پوشاک میں ملبوس شخص مجھے جیسے اپنے پاس بلا کر کہتا ہے ۔۔۔ بیٹا دس سونے کی اشرفیاں چاہئے غربت دور ہو جائے گی۔۔۔میں کچھ دیر خامش رہا کچھ نہ سوجھ پایا کہ کیا کہوں۔اور اچانک سے بے ساختہ ہی منہ سے نکل گیا کہ برکت ہے۔۔۔وہ شخص جیسے حیان سا ہوا اور مجھے لمحہ بھر تکتا رہا اور بولا نہیں۔ نہیں برکت نہیں ہے۔۔۔ میں نے بھی بلا جھجک بولا نہیں ضرورت پھر۔۔۔ وہ تھوڑا پاس آکر بولا۔۔۔ اچھا دس سونے کے سکے ہیں چاہئے کیا۔۔۔ میں نے پھر بولا برکت ہے ۔۔۔بولا نہیں ۔۔۔میں نے دھڑ سے کہ دیا۔ نہیں ضرورت۔۔۔وہ بولا اچھا۔۔۔ پھر ایک سونے کا سکہ ہے۔۔۔ برکت والا چاہئے کیا۔۔ میں نے خوشی میں اپنا سر ہلا کر بولا ۔۔۔ ضرورت ہے مجھے کہاں ملے گا۔۔۔ وہ مجھے بولا کہ روز جنگل جاتے ہو نا۔۔۔ جہاں سے لکڑیاں کاٹ رہے ہو وہاں سے تھوڑی دور ایک “جادوئی جھرنا” ہے اس جھرنے کے پاس ایک اکلوتا پیڑ ہے اسکے قریب ایک پتھر کے نیچے ملے گا تم کو وہ برکت والا سونے کا سکہ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ شخص جیسے آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور میں خواب گاہ سے بیدار ہوا۔۔۔ یہ صبح صادق کا وقت تھا۔۔۔ میں نے کلہاڈی اور پانی کی بوتل ساتھ اٹھائی اور جنگل کے اور روانا ہوا۔۔۔ مجھے خواب میں آئے شخص کی ملاقات یاد تھی۔۔۔میں جادوئی جھرنا تلاش کرتا رہا۔۔۔ کچھہ دور چل کر مجھے جھرنے سے بہتے ہوے پانی کی آواز سنائی دی۔ میں دوڑا کر آواز کا تعاقب کتا گیا۔۔۔اور دیکھ کر حیران ہوا کہ واقعی وہاں ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔۔۔ اب میری نظر اس ایک اکلوتے پیڑ کی طرف پڑی۔۔۔جھٹ سے دوڑ پڑا اور دیکھا کہ ایک پتھر بھی ہے۔۔۔خواب میں آئے شحص کی باتوں کا یقین ہونے لگا۔۔۔پتھر کو اٹھایا اور سونے کا سکہ کھوجنے لگا۔۔تھوڈی دیر میں سکہ بھی ملا۔۔۔مگر ایک بات ابھی سمجھ نہ پا رہا تھا کہ وہ شخص تو بولا کہ جادوئی جھرنا ہے وہ کیسے۔۔۔ بہت غور خوض کیا۔۔ مگر کوئی بھی ایسا سراغ نہ ملا۔۔۔ مگر من ہی من میں سونچتا رہا کہ وہ شخص تو جو بھی بولا سب سچ ہی تو تھا۔۔۔ پھر “جادوئی جھرنے” کی بات جھوٹی کیسے ہوگئ! ۔۔۔ اتنے سورج سر پر بالکل آگیا تھا۔۔ گرمی شدت احتیار کرچکی تھی۔۔۔ ساتھ میں لایا ہوا پانی بوتل میں ابھل رہا ہو جیسے۔۔۔کچھ گونٹ پی کر سونچا کہ تازہ پانی جھرنے سے ہی پی لوں۔۔۔ مٹھی بھر پانی منہ سے لگاکر دیکھا تو پانی شہد سے میٹھا ہو جیسے۔۔۔ یقین نہیں ہوا۔۔سونچا شاید خوشی کے مارے ایسا محسوس ہوا مجھے۔۔۔پھر دونوں ہاتھوں میں پانی لئے پینے لگا تو دنگ سا رہ گیا۔۔۔ واقعی پانی شہد سے بھی میٹھا ہو جیسے۔۔۔۔اب کچھ سمجھ پارہا تھا کہ وہ شخص جادوئی جھرنا کیوں بولا۔۔۔ جی بھر کے پانی پینے کے بعد سونچا کہ امی ابو کے لئے بھی ایک بوتل بھر کر لے لو۔۔۔ابو تو روز میٹھے شربت کا پوچھتے اور امی جان کی کھانسی بھی انہیں بڑا تنگ کردیتی ہے ۔۔۔ بوتل بھر کر سیدھے گھر کا راستہ اختیار کیا تاکہ سارا احوال والدین کو سناو۔۔۔خوشی کے مارے صبر ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ رب العزت کا حمد و ثناء ادا کیا۔ کہ اس نے میری عاجز دعا کی لاج رکھی۔۔۔دوڑتا ہوا گھر پہنچا۔۔۔ اپنے چہیتے والدین کو سارا واقعہ سنا دیا۔۔۔پھر ابو نے اس پانی کی طلب کی میں نے دونوں کو جھادوئی جھرنے کے پانی کا ایک گلاس نوش کرنے کو دیا۔۔ کچھ ہی گونٹ پینے کے بعد ہی ابو کی آنکھوں میں چمک لوٹ آئی ہو جیسے۔۔۔اور ماں بھی کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔۔ ماں پاس بلا کر بولئ بیٹا یہ تو درد شفاء ہو جیسے۔۔ایک نایاب سی شربت ہو جیسے۔۔۔بیٹا ایسے خوشی کے موقعے پر بازار سے ایک بڑی سی مچھلی لے کر آو۔۔۔آج سب ملکر مچھلی کھائے گیں۔۔ میں خوشی سے جھومتے ہوے بازار پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک سونے کے سکے عوض ایک بڑی سی مچھلی ہے جو اب تک کوئی نہ خرید سکا۔۔۔ ماں باپ کی خوشی کے سامنے میری جان بھی خاضر تھی اسلئے میں نے زیادہ نہ سونچتے ہوے اس بڑی سی مچھلی کو اس سونے کے سکے کے عوض خرید کر گھر پہنچا دیا۔۔۔ماں باپ مچھلی دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔۔برسوں سے ایسی کوئی زیافت ہی نہیں کھائے تھے اور میں خوشی سے آنسوں کے سیلاب میں ڈوبتا ہو جیسے۔۔۔ماں باپ کی خوشی دیکھ کر میں تو پاگل ہی ہو رہا تھا۔۔۔ماں نے جلدی سے مچھلی کی صفائی شروع کردی تاکہ وقت رہتے تیار ہو جائے۔۔۔
کچھ وقفے کے بعد ہی ماں میرے پاس دوڑی چلی آئی بیٹا یہ مچھلی کی پیٹ سے کیا نکل آیا۔۔۔ستاروں کی چمک ہیں اسمیں تو ۔۔۔ابو بھی بست سے باہر نکل کر آئے کیا ہے ذرا میں بھی دیکھوں۔۔۔دیکھ کر ابو بولے ۔۔۔ارے یہ تو لعل ہے! لعل! اور مجھے خواب میں آے شخص کے برکت والی بات یاد آئی کہ واقعی مقدار اور تعداد کسی کام کے نہیں ۔۔۔برکت والا ایک سکہ ہی کافی ہے۔۔۔برکت نہ ہو تو خزانے بھی کم پڑھ جاتے ہیں ۔۔۔ اب ہم سب افراد خانہ ایک زیافت نوش کرنے کے بعد۔ خوشی خوشی نیند کی تیاریوں میں لگ گئے۔۔۔آنکھ لگتے ہی وہ شخص پھر سے میری خواب گاہ میں مجھ سے روبرو ہو کر بولا۔۔۔بیٹا یہ سب سلہ تجھے تیرے والدین کے بے لوث خدمت کرنے کے عوض ملا۔۔۔ایسے ہی خدمت کرتے رہے اور دونوں جہانوں میں سرخ رو ہوکر اسکے عوض انمول ثمر چکھتے رہے۔۔ کچھ بھی بے لوث رائگاں نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں