افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گناہ 0

افسانہ………….گناہ

میں کسی بھی صورت میں لڑکی کو جنم نہیں دوں گی دنیا چاہے ادھر سے ادھر ہوجانے اس گھر میں لڑکی نہی آیے گی یہ میرا اخری فیصلہ ہے۔۔۔۔۔۔شمیمہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا
اس کے شوہر بشارت علی نے سگریٹ سلگایا اور ایک زور دار کش لگا کر کہا۔۔۔۔شمی بچوں کی طرح ضد مت کرو زرا ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔۔۔۔
میں نے فیصلہ کر لیا ہے اور میں اپنا فیصلہ کسی بھی صورت میں بدلوں گی نہیں۔۔۔۔۔شمیمہ نے لابی سے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔بشارت اس کے پیچھے پیچھے چلا گیا اور اپنے دونوں ہاتھ اس کے کاندھوں پر رکھ کر کہا۔۔۔۔شمی۔۔تم کیوں جاہل عورتوں کی طرح باتیں کرتی ہو۔۔اور پھر ابھی تو پتہ نہی کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی۔۔۔۔سب کچھ اوپر والے کے ہاتھ میں ہے جو ہوگا دیکھا جائے گا اور پھر تم پڑھی لکھی عورت ہو تم اچھی طرح جانتی ہو کہ لڑکی اور لڑکے میں کوی فرق نہیں ہوتا ہے دونوں اللہ کی طرف سے عظیم تحفے ہیں اب کس کو کیا ملتا ہے وہ مقدر کی بات ہے۔۔۔۔اور دونوں وجودکاینات کے لیے ضروری ہیں ۔۔۔
شمیمہ نے شوہر کی طرف مڑ کر دیکھا۔۔۔مجھے سب معلوم ہے مگر مجھے لڑکیوں سے نفرث ہے اس لیے میں ایک لڑکی کی ماں کبھی نہیں بن سکتی۔میں اسے دنیا میں آنے نہیں دوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔مگر کیوں۔۔۔۔بشارت نےدونوں ھاتھ نچاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔شمیمہ نے ایک لمبا سانس لیا اور پانی کا پورا گلاس حلق سے اتارتے ہوئے کہا۔۔۔۔اس لیے کہ تمہارے اس مردوں کے سماج میں عورت اج بھی مظلوم محکوم اور مجبور ہے روزانہ کتنی معصوم اور کمسن لڑکیوں کی عصمت لٹتی ہے۔کتنی لڑکیاں ظلم و ستم سے تنگ آکر خود کشی کر لیتی ہیں۔کتنی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں پڑی ہوئی ہیں۔
بشارت نے سر جھکا کر جواب دیا۔۔تم بالکل سچ کہھ رہی ہو مگر پھر بھی۔۔۔۔۔۔شمیمہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔۔۔۔۔میں بالکل سچ کہھ رہی ہوں۔ یہ جو عورت زات ہے نا یہ مرتے دم تک پرانی ہی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔میں جب ماں باپ کے گھر میں تھی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔شمیمہ خیالات کی رو میں بہہ گئی۔۔۔اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا۔۔۔جب وہ بہت خوش تھی۔۔۔۔۔۔۔
ہر وقت بک بک کرتی ہو قہقہے لگاتی رہتی ہو تم ایک لڑکی ہو پرایا مال ہو کل کسی کے گھر جانا ہے ایک لڑکی کی طرح رہنا سیکھو تم لڑکا نہیں ہو جو اپنی من مانی کرتی پھرو چپ چاپ سر جھکا کر رہا کرو۔۔۔۔۔۔۔محمد رمضان اس کے باپ نے اسے زور زور سے ہنستے ہوئے دیکھ کر کہا۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ ماں کے پاس گیی ۔۔۔۔۔ماں نے بھی وہی الفاظ دہراے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی۔۔۔۔شادی کے بعد اس نے اپنے کانوں سے اپنی ساس کو کہتے سنا
زرا سوچ سمجھ کر اور دھیرے دھیرے باتیں کیا کرو اب اس گھر میں ایک پرانی لڑکی بھی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں کھو گئی تم۔۔۔بشارت نے اس کے گالوں کو چھو تے ہوے کہا۔۔۔۔وہ چونک پڑی۔۔۔۔۔۔۔اور آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔ہاں میں کہھ رہی تھی کہ لڑکی ہمیشہ پرایا مال ہی رہتی ہے۔۔۔اسے کبھی کوئی اپناتا نہیں۔۔۔وہ شادی کے بعد کسی گھر میں نوکر ہے ۔۔۔۔بچے جننے کی مشین ہے۔۔۔۔۔۔ مرد کو خوش رکھنے کےلئے داسی ہے۔۔۔۔۔ اور اگر وہ کبھی کوئی غلطی کرے تو اسے ماں باپ کے پاس واپس بھیجا جاتا ہے۔۔۔۔۔اسی لیے مجھے لڑکیوں سے نفرث ہے میں دس بار حمل گراؤں گی مگر لڑکی کو دنیا میں آنے نہیں دوں گی۔۔۔۔شمیمہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔۔۔
بشارت اس سے بہت پیار کرتا تھا اس لیئے اس نے ہار مان لی ۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔۔چلو اب چاے پلاؤ ۔۔۔۔۔۔۔بشارت ڈایننگ روم کی طرف چلا گیا اور شمیمہ چاے بنانے لگی۔۔۔۔۔
دوسرے دن شمیمہ اپنی بچپن کی سہیلی شاہدہ کے ساتھ بازار چلی گہی چلتے چلتے وہ شاہ بازار پہنچ گئیں۔۔۔۔اچانک شمیمہ کی نظر ایک بورڑ پر پڑی۔۔۔سن شاین ڈایگناسثک سینٹر۔۔۔۔۔الٹراسونوگرافی کی سہولیت دستیاب ہے۔۔۔۔اس نے شاہدہ سے کہا۔۔۔چل میرے ساتھ میں سونو گرافی کروانا چاہتی۔ہوں اگر لڑکی ہوی تو۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہدہ نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔۔میں ابورشن کرواؤں گی۔۔۔۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔شاہدہ نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔یہ کیا بک رہی ہے تو۔جانتی نہیں یہ ایک گناہ عظیم ہے۔۔اور پھر یہ قانونی طور پر بھی ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سزا جیل اور جرمانہ ہے۔ پیٹ میں پل رہے بچے کا جنس Disclose کرنے پر ڈاکٹر کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اسے جیل ہوگی اور اس کا لایسنس کینسل ہو سکتا ہے۔۔شاہدہ نے اسے سمجھایا۔۔۔۔۔۔شمیمہ نے سن کر جواب دیا۔۔مجھے سب معلوم ہے مگر کچھ ڈاکٹر ایسے بھی ہوتے ہیں جو پیسوں کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔تم میرے ساتھ چلو میں خود بات کروں گی۔۔۔۔شاہدہ چلتے چلتے اچانک رک گئی اور اس کی طرف خشمناک نظروں سے دیکھ کر کہا۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔
میں ایسا گھناؤنا جرم کرنے میں۔کبھی بھی کسی بھی صورت میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گی۔۔۔شمیمہ نے سر جھکا کر کہا ٹھیک ہے میں اکیلی ہی۔اپنا کام کروں گی۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں خاموشی سے کچھ دیر چلتی رہیں اور پھر۔اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑیں۔۔۔۔
دو دن بعد اپنے۔شوہر کی اجازت کے بغیر وہ پھر شاہ بازار چلی گئی اور سن شاین ڈایگناسثک سینٹر کے سامنے کھڑا ہو کر سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر تک۔وہ اپنے آپ کے ساتھ لڑتی رہی اور اخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پیٹ میں پل رہے بچے کا جنس معلوم کر کے رہے گی۔۔۔۔۔اور اگر لڑکی ہوی تو۔۔۔۔۔ابورشن۔۔
وہ دھڑکتے دل سے ڈایگناسثک سینٹر کے اندر داخل ہوئی۔وہ دیکھ کر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوی کہ اس وقت ڈایگناسثک سینٹر بالکل خالی تھا صرف ڈاکٹر اکیلا ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔۔۔۔۔۔وہ ادھیڑ عمر کا ایک کلین شیو لمبے قد کا سمارٹ مرد تھا۔۔۔اس نے بلیو رنگ کا سوٹ پہنا تھا مگر ٹای غایب تھی۔۔۔اس کے پیروں میں سفید رنگ کا چپل تھا جو ڈاکٹر اپنے کلینک میں استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔وہ گھبرای ہوی تھی اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔۔اچانک اس کے کانوں سے آواز ۔ٹکرای
۔۔۔۔۔کہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چونک گئی۔۔۔اس نے ہکلاتے ہوے کہا جی وہ میرا مطلب ہے کہ وہ وہ میں میرا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔میں ۔۔میں۔۔ڈاکٹر سمجھ گیا کہ اس کے سامنے کھڑی عورت گھبرای ہوی ہے۔۔confuseہے۔۔۔۔۔۔اس لیے اس سے نرم لہجے میں مخاطب ہوا۔۔۔۔۔۔۔ آپ آرام سے بیٹھیے۔ ۔۔۔۔ پانی پی لیجیے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔شاہدہ کرسی پر بیٹھ گئ ڈاکٹر نے اسے۔پانی کا گلاس افر کیا اس نے تھرتھراتے ہاتھوں سے گلاس ہاتھ میں لیا اور ہونٹوں سے لگا کر۔اس طرح حلق سے اتار لیا جیسے کیی دنوں سے پیاسی ہو
ڈاکٹر اسے غور سے دیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر کچھ سوچ رہا تھا۔۔۔۔شمیمہ نے اپنے ھینڈ بیگ سے رومال نکال کر ہونٹوں پر پھیرا اور ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔اس نے ہمت جٹا کر کہا۔۔۔ ڈاکٹر صاحب میں حاملہ ہوں اور میں۔۔۔۔
اور آپ جاننا چاہتی ہیں کہ آپ کے پیٹ میں کیا پل رہا ہے۔ڈاکٹر نے اس کی بات کاٹ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔جی جی ھاں نہیں نہیں ھاں ھاں۔۔۔۔بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔ شاہدہ بوکھلا گئی۔۔۔۔۔او کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور شمیمہ۔کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔۔۔۔
میں۔اپ کی۔مشکل حل کروں گا۔۔۔۔میرا معاوضہ ہوگا تین لاکھ روپے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاھدہ سن کر گھبرا گئی۔۔۔۔۔تین لاکھ روپے۔۔۔۔۔۔اس کی آواز میں حیرت تھی۔۔۔۔۔۔۔جی ھاں۔۔ڈاکٹر اپنی جگہ سے اٹھا اور باہر کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
وہ شاہدہ کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب کچھ کم ۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے اس کی بات کاٹ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔او کے چلیے دو لاکھ۔۔۔۔۔میرے اکاونٹ میں ابھی رقم ٹرانسفر کریں میں آپ کا کام کروں گا۔۔۔۔۔شاہدہ نے مطلوبہ رقم ڈاکٹر کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی اور ڈاکٹر نے اسے اشارہ کیا کہ وہ اندر کمرے میں داخل ہو جاے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر کو فیصلہ کرنے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔۔۔۔۔۔۔شاہدہ کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اس کا سارا بدن پسینے میں شرابور تھا اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی صحرا میں پیاسی چل رہی ہو۔۔۔۔۔اچانک ڈاکٹر کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرای۔۔۔۔۔سوری شمیمہ جی۔۔۔۔۔۔۔اس کے آگے وہ کچھ نہیں سن سکی اسے یوں لگا جیسے وہ جنم سے بہری ہو۔۔ڈاکٹر کہھ رہا تھا۔۔۔مسز شمیمہ مانا کہ آپ کے پیٹ میں لڑکی پل رہی ہے۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے آج کل کے دور میں دونوں برابر ہیں دونوں کو برابر حقوق حاصل ہیں۔۔۔اپ اٹھ سکتی ہیں
ڈاکٹر نے کرسی سے کھڑا ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔شمیمہ بے حس و حرکت بیڈ پر پڑی ہوئی تھی۔۔ڈاکٹر نے ۔قدرے بلند آواز میں کیا۔۔۔مسز شمیمہ آپ اٹھیے آپ کا کام ہوگیا۔۔۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے بیڑ سے اٹھی اور بڑی مشکل سے باہر نکلی۔
شام کو وہ گھر میں اکیلی تھی اس کا سسر اور اس کی ساس دونوں زیارتِ کے لیے اجمیر شریف گیے تھے۔جاتے وقت اس کی ساس نے اس سے کہا تھا۔۔۔۔میں تمہارے لیے ایک بیٹا مانگوں گی۔۔۔۔اور یہ سن کر اس کے دل میں لڑکیوں سے اور زیادہ نفرت ہو گئی تھی۔۔۔۔۔اس کا شوہر دیر سے آتا تھا وہ اس کا انتظار کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ابورشن کے متعلق اس سے مشورہ کرے یا نہیں۔۔۔۔۔سوچتے سوچتے وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ بہتر رہے گا شوہر سے ابورشن کے متعلق کچھ نہیں کہا جا ے۔۔۔مگر سوال یہ تھا کہ ابورشن کس ڈاکٹر سے کرواے۔۔۔۔۔۔وہ کسی ڈاکٹر کو جانتی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔کیا کروں۔۔۔۔اچانک اسے سسٹر ڈولما یاد آگئی جس سے اس کی دوستی تب ہوئی تھی جب اس کی ساس اسپتال میں داخل تھی۔۔
دوسرے دن وہ سیدھا سسٹر ڈولما سے ملنے گئی اور اس سے مطلب کی بات کہدی۔۔۔۔۔۔ڈولما نے سب کچھ سن کر کہا کہ اب وقت گزر چکا ہے کوی بھی ڈاکٹر اس سٹیج پر ابورشن کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔۔۔۔شمیمہ نے ڈولما کو مجبور کیا تو اس نے ایک ریٹائرڈ دایہ کا ایڈریس دیا اور کہا کہ وہ پیسوں کے عوض ایسا کام ضرور کرے گی
ابورشن ہوگئی۔۔۔۔۔۔شمیمہ پر پہاڑ ٹوٹ پڑا جب دایہ نے اس سے کہا۔۔۔۔۔تم نے ابورشن کیوں کروایا۔ تمہارے شکم میں لڑکا پل رہا تھا
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ پاگلوں کی طرح چلاتی مگر اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہیں دیا اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوا۔۔۔۔
تین دن بعد اس نے شوہر کے سامنے ہاتھ جوڑے اور اسے ساری۔کہانی سنای۔وہ غصے سے تلملا اٹھا مگر کیا کرتا۔۔چار و ناچار اس نے وعدہ کیا کہ کل اس ڈاکٹر کے پاس جاکر اس سے پوچھیں گے کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا۔۔۔۔۔دھوکہ کیوں دیا
دوسرے دن شمیمہ اپنے شوہر کے ساتھ سن شاین ڈایگناسثک سینٹر میں داخل ہوئی۔وہاں جب ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی تو وہ دم بخود رہ گئی۔۔۔سامنے کوئی اور ڈاکٹر تھا۔۔۔شمیمہ نے اس سے۔پوچھا۔۔یہاں ایک اور ڈاکٹر۔۔وہ۔۔۔۔۔ڈاکٹر اے جی کندن گر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔یہاں صرف میں کام کرتا ہوں اور کوئی نہیں۔۔۔۔
مگر یہاں ایک ڈاکٹر نے میرا الٹرا ساؤنڈ کیا۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔۔وہ ارے وہ ایک فراڈ تھا در اصل وہ اس ڈایگناسثک سینٹر کا منیجر تھا مگر وہ میری غیر موجودگی میں مریضوں کو دھوکہ دیتا تھا۔۔۔۔۔ اسے کل ہی پولیس نے گرفتار کیا ہے وہ اس وقت جیل میں ہے۔۔۔۔۔کہیں آپ کو بھی۔۔۔۔۔۔
شمیمہ کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے زندہ در گور کیا ہو وہ لڑکھڑا نے لگی۔اس کے شوہر نے اسے سہارا دیا
دو دن بعد شمیمہ کا بدن بخار سے جلنے لگا۔اس نے شوہر سے کہا تو وہ اسے فوری ایک۔لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا
دس گھنٹے کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے سارے رپورٹ دیکھے اور کہا
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ان ٹرینڈ نرس نے کسی زہریلی جڑی بوٹی کا استعمال کرکے اس کا ابورشن کیا ہے اس کی بچہ دانی کی اندرونی تہھ جسے ہم اپنی زبان میں انڈومیٹریم Endometrium کہتے ہیں بالکل جل کر راکھ ہو چکی ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ یہ اب کبھی ماں نہیں بن سکتی ہیں۔اور ہاں ان کی جان بچ سکتی ہے اگر آپ۔ ان کوابھی اسی وقت اسٹار سوپر اسپیشلٹی اسپتال میں داخل کرینگے۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں