مسئلہ حجاب ۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 0

مسئلہ حجاب ۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

رشید پروین ؔ سوپور

آپ کو شاید یاد ہو کہ نہ یاد ہو کہ ایک سال پہلے مہاراشٹر چمبور کے علاقے کے ایک کالج سے حجاب مخالف لہر اٹھی تھی ، کالج اتھارٹیز نے اپنی طالبات پر حجاب کی ممانت کرتے ہوئے ہدایات جاری کی تھیں کہ کوئی طالبہ کالج پرمسز میں حجاب پہن کر داخل نہیں ہوسکتی ، اس پر طالبات نے احتجاج کیا تھا ، دھرنے دئے تھے ، اور مسلم برادری نے بھی ان احکامات کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ احکامات یا تو واپس لئے گئے تھے یا ان پر عمل نہیں کیا گیا تھا ،حال ہی میں کچھ دن پہلے اسی علاقے ، اور اسی کالج جو این جی اچاریہ کالج کے نام سے جانا جاتا ہے ، نے پھر ایک بار پردے ، یا حجاب پر پابندی لگا دی ہے ،ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ نیا حکم پروین نامی ایک لیکچرار کی طرف سے واٹس اپ مسیج کی صورت آیا ہے ، ظاہر ہے کہ اس حکم سے پھر ایک بار ایک انتشاری اور اضطرابی کیفیت نے جنم لیا ہے ، اور اس حکم کے خلاف پھر ایک بار مسلم طالبات نے احتجاج کیا ہے ، اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ایک مسلم لڑکی نے کالج پرنسپل کے ساتھ ملاقات کرنا چاہی لیکن ناکام رہی کیونکہ اس کی رسائی کالج پرنسپل تک نہیں ہو سکی ،اس حکم نامے کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ اس کے خلاف اقلیتی کیمشن اور خواتین کیمشن میں شکایات بھی درج کی گئی ہیں ،اور اس کے علاوہ ایڈوکیٹ آصف عالم نے ٹیوٹر پر لکھا ہے کہ انھوں نے محکمہ تعلیمات اور حکومت مہاراشٹر کو اس حکم کے خلاف قانونی نوٹس بھی بھیجا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ اقدامات تحقیق کے بعد ہی کئے گئے ہوں گے جو اس بات کا ثبوت بنتے ہیں کہ ایسے احکامات صادر کئے گئے ہیں ، یہ حیرت انگیز بات ہے کہ صرف ایک برس پہلے اسی کالج نے ایک بار اس انتشاری کیفیت کو جنم دیا تھا جو کسی طرح اور احتجاجوں کے نتیجے میں ختم ہوئی تھی ، پھر ایک بار اسی طرح اضطراب اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کو کس زمرے میں ڈالا جا سکتا ہے؟ اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں ، کالج اتھارٹیز یہ کارنامے محظ تفریح اور شو قیہ طورپر انجام نہیں دیتے ہوں گے یا یوں ہی الل ٹپ اس طرح کے احکامات تو صادر نہیں فر ماتے ہوں گے جن کے بارے میں انہیں پہلے سے اندازہ ہوتاہے کہ ردِ عمل کیا ہوگا ، ،کوئی بات تو ہوگی جو اس مسلے کو چھیڑنے کی کسی خاص وقت پر ضرورت محسوس ہوتی ہے، ایسے اقدامات جو انتشار اور اضطراب کو جنم دیتے ہوں کے پیچھے یقینی طور پر عزائم چھپے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے ، مسلم کیمونٹی اور مسلم شناخت اگر چہ انتخابات کے دوران واضح طور نشانے پر رہی ہے اور انہیں بر ملا ’در انداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے لوگ ‘‘کہا گیا ہے ۔ وہاں اس طرح کے احکامات لمحہء فکریہ بنتے ہیں ۔ یہاں ہمیں تھوڈا سا اس حجاب اور عبایہ یا ’’پردے ‘‘کے معاملے پر تھوڈی سی ہی سہی جانکاری ہونی چاہئے تاکہ سمجھا جاسکے کہ حجاب یا پردے کے عنوان سے وقفے وقفے کے ساتھ سونامیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں یا پیدا کی جاتی ہیں ؟،، تاریخی طور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ حجاب سے بہت سارے مغر بی ممالک ذہنی اور جسمانی انتشار میں مبتلا کیوں ہیں ؟ ۔۔ اصل مسئلہ ’’حجاب‘‘ نہیں۔ کیونکہ حجاب مسلہ ہو ہی نہیں سکتا اس پس منظر میں کہ یہاں بھارت میں ہزاروں برسوں سے ،یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ویدک زمانوں سے ہی کسی نہ کسی صورت میں پردے کا رواج رہا ہے بلکہ پردہ ، گھو نگھٹ ، چنری، ساڑھی ویدک زمانے سے بھی ڈریس کا حصہ رہا ہے کیگان پال مورخ کے مطابق پردے ، گھونگھٹ یا چنری سے چہرہ چھپانے کا رواج زمانہ وسطیٰ سے رہا ہے اور ماہر آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ چتور گڑھ قلعے کی پڑتال سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس میں زنانہ خانے الگ تھے ، ، و المیکی نے اپنی رامائن میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ بن باس روانہ ہونے سے پہلے رام نے سیتا ماتا کو گھونگھٹ اٹھاکر عوام کو درشن دینے کی اجازت دی تھی ،یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رام کے زمانے میں پردہ تھا ،، ، بھلے ہی یہ رواج رہا ہو یا بھارتی سنسکاروں میں شامل رہا ہو ، لیکن اس سب کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی کہ ،سکھ برادری داڈھی رکھتی ہے ، پگڑی باندھتی ہے ،کرپان رکھتی ہے جو ان کے مذہبی ڈریس کوڈ کی شناختیںہیں اور اس طرح بھارت میں۔ جو رنگا رنگ تہذیبی اور تمدنی کثرتوں کا حامل ہے کسی پر اعتراض نہیں کیا جاسکتااور اعتراض کرنے کا سوال ہی آئینی اور منطقی طور پر پیدا نہیں ہوتا ، پھر ایک مسلم شناخت نشانے پر کیوں؟ جب کہ یہ بات واضح اور صاف ہے کہ یہ مسلم کلچر میں ہی شامل نہیں بلکہ اہل اسلام کے لئے ایک مذہبی فریضہ اور شرعی حکم ہے۔ اور یہ مسلم خواتین کی اپنی ایک شناخت اور پہچان بھی ہے جس کے بارے میں سوالات اٹھانا قطعی طور پر دین میں مداخلت بے جا کہی جا سکتی ہے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکی معاشرے جو اس دور کی امامت کر رہے ہیں، کے کلچر ، تہذیب و تمدن اور اقدار کو ساری دنیا پر کلہم طور پر محیط ہونے میں اس وقت بھی اپنی ناتوانی اور ضعیفی کے باوجود اسلام علمی ، عقلی اور معاشرتی چلینج بن کے ان کی راہ میں کھڑا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ نام نہاد مسلم ممالک ہی سہی لیکن اس کے باوجود مغربی اور امریکی تمدن کو پوری طرح نہ تو تسلیم کر رہے ہیں اور نہ ہی پورے کے پورے ان کے رنگ کو قبول کر رہے انیسویں صدی کی آخری دہائی سے آزادی نسواں کی جو تحریک مسلم ممالک میں متعارف کرائی گئی اس کے پیچھے اصل میں یہی عزائم تھے کہ آہستہ آہستہ اسلامی شعائر اور طرز زندگی کو ہی اسلام کے دائروں سے بہت دور لیا جاسکے اور اس کے لئے یہودی بڑے علما اور فلاسفرس نے ہر خرافات کو علمی اور سائینٹفک لبادوں میں پیش کرکے اقوام عالم اور مسلم قوم کو کچھ زیادہ ہی تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنایا ، مغربی تہذیب و تمدن کا ماحاصل ہی عورت کی وہ آزادی ہے جو بے قیود بے ضابطہ اور کسی بھی دائرے میں مقید نہ ہو اور یہ کہ عورت اپنے جسم کو جس طرح اور جس انداز میں بھی بازار حسن میں پیش کرنا چاہئے ، کرنے کی مجاز ہے اور اس پر کسی قسم کی کوئی اخلاقی ، مذہبی یا سماجی قدغن نہ ہو بلکہ وہ ’’میرا جسم ،میری مرضی کا عملی طور پر چلتا پھرتا اشتہار ہو ‘‘ یہ بہت ہی مختصر سی ڈیفنیشن ہوسکتی ہے لیکن ایک لمحے کے لئے ہم ماضی کو کھوجیں گے تاکہ کئی پہلو ہمیں صاف اور واضح نظر آئیں ،، انسانی تہذیب و تمدن کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ عورت ذات کے وجود کو ہی شرم اور گناہ کا درجہ تھا ، بہت سی اقوام میں بیٹی کی ذلت سے بچنے کے لئے لڑکیوں کا قتل بھی جائز تھا ، رسول پاک ﷺ نے ہی عورت کو تاریخ میں پہلی بار عزت اور وقار کا درجہ ہی نہیں دیا بلکہ دنیا سے یہ تسلیم کرایا کہ وہ بھی اللہ کی اسی طرح مخلوق ہے جس طرح کی مرد ،، اور اعلان فرمایا کہ (( اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اور اسی کی جنس سے اس کے جوڈ ے کو پیدا کیا ، (النسائ) ( خدا کی نگاہ میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ،(النساء ۳۲) اور اس طرح سے وہ انقلاب پیدا ہوا جس کی چھاپ آج تک مسلم معاشروں میں کچھ دھندلی ہی سہی پھر بھی نظر آتی ہے ، اور جہاں عورت کویہ توقیر احترام ، عظمت اور پر جمال تقد س کا مقام عطا ہوا وہاں اس محترم اور اونچے پاکیزہ مقام پرٹھہرے رہنے کے لئے کچھ احتیاطی تدابیر اور اور وہ بندھ باندھ لئے جو انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہیںاور اس تقدس کو روز مرہ زندگی کے معمولات کی بجاآوری کے باوجود بر قرار رکھنے میں انتہائی ممدوع و معاون ہیں ، ان میں حجاب بھی ایک فیکٹر ہے ، جس سے مسلم معاشرے کے چہرے سے نوچنے کے لئے ساری مغربی اور مسلم دشمن اور انسانیت دشمن اقوام متحد طور پر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی معاشروں نے بہت سارے اسلامی احکامات کو اپنے سائنسی ذرائع ابلاغ ، مسلسل منصوبہ سازی اور پیہم تگ و دو سے سے منفی شکل میں پیش کیابلکہ یہ باور کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور نہ چھوڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے آج کا مسلماں بڑی حد تک اس سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ ایک بڑی تعداد مسلموں کی ان معاملات میں مغرب کے ہم خیال ہے ، یہی معاملہ حجاب کا بھی ہے ، حجاب کاجہاں تک تعلق ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی جگہوں پر عورت کی توقیر ، عزت و احترام اور اس سے محفوظ و مامون رکھنے کے لئے حجاب کے احکامات دئے گئے ہیں ۔ انسان کی حیوانی فطرت میں صنفی میلان اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کے زوجین باہم مل کر خدا کی زمین کو اپنی نسل سے آباد رکھے ،،اور پھر مرد کو یاد بھی دلایا کہ ’’تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ‘‘(البقرہ ۲۲۳) یہاں اس آیت کریمہ میں عورت کو مرد کی کھیتی قرار دے کریہ واضح کیا گیا کہ انسانی زوجین کا تعلق دوسرے حیوانات کے زوجین سے قطعی منفرد اور مختلف ہے ، جس طرح کھیتی میں کسان محظ بیج ڈال کر اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے اور بہتر فصل کے لئے اس کھیت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس میں پانی بھی دیتا ہے ، کھاد بھی مہیا کرتا ہے اور اس کھیت کی اس طرح حفاظت کرتا ہے کہ بے لگام اور آوارہ جانوروں کو اس کھیت میں منہ مارنے کے مواقع میسر نہ آئیں ،در حقیقت کھیتی اور فصل اس کی محتاج ہوتی ہے کہ اس کا کسان جس نے بیج بوئے ہیں اس کی رکھوالی بھی احسن طریقے سے کرے ، یہی وجہ ہے کہ عورت کی عظمت ، عفت ، عصمت اور تقدس کو بر قرار رکھنے کے بہت سارے عوامل اور حفاظتی تدبیروں میں حجاب ایک بہت ہی مناسب اور بہتر تدبیر ہے ، ،،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں