جن کی خاطر زخم کھائے وہ پرائے ہو گئے 0

جن کی خاطر زخم کھائے وہ پرائے ہو گئے

غزل

غلام رسول شاداب

جن کی خاطر زخم کھائے وہ پرائے ہو گئے
دل میں تھے جو بھی سمائے وہ پرائے ہو گئے
ساتھ جینےاور مرنے کا تو وعدہ تھا کیا
پر قدم دو ہی بڑھائے وہ پرائے ہوگئے
محو تھے ہم یاد میں جن کی سدا حیران ہیں
ہم نے کیا تھے گل کھلائے وہ پرائے ہو گئے
منتظر کب سے کھڑے تھے ان کے استقبال میں
ہم رہے پلکیں بچھائے وہ پرائے ہو گئے
کہہ دیا ہم نے دلِ نادان سے اب تو سنبھل!
آس ہو جن سے لگائے وہ پرائے ہو گئے
ہم جفا کا ذکر کس سے چھیڑ دیں ان کا کبھی
خواب تھے جن کےسجائے وہ پرائے ہو گئے
کیسے شکوہ یا گلہ ان سے کریں ہے سچ یہی
جن سے تھے ہم لو لگائے وہ پرائے ہو گئے
قرب میں آنےکی جب زحمت گوارہ وہ کریں
کیسےپھر کوئی بتائے وہ پرائے ہو گئے
ہے مگر شاداب افسردہ کہ اس نے تھے جنہیں
جام الفت کے پلائے وہ پرائے ہو گئے
غلام رسول شاداب ،مڑواہ (کشتواڑ)
رابطہ،9103196850

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں